کراچی دہشت گردی کا گڑھ بن چکا چیف جسٹس
کراچی پولیس کوسیاست سے پاک کیاجائے،عالمی کانفرنس کے افتتاح پرخطاب
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کہاہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑمیں کسی کوقانون کاغلط استعمال نہیں کرناچاہیے۔
اقتصادی اورتجارتی سرگرمیوں کامرکز، ہمارے عظیم قائد اورروشنیوں کاشہر دہشتگردی کا گڑھ بن چکا،پولیس کوسیاست سے پاک کیے بغیرامن وامان کا قیام ممکن نہیں، تقرری اور تعینا تیوں کے عمل میں سیاسی اثررسوخ ختم ہوناچاہیے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایمانداری سے کام کرنا چاہیے، ایجنسیوں میں کالی بھیڑیں اس ادارے اورمعاشرے کیلیے تباہ کن ہے، سیاسی اثررسوخ اور دیگر حربے تحقیقاتی اداروں کو تباہ کردیتے ہیں۔
جمعے کی شب سندھ ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے زیراہتمام ''انسداد دہشتگردی بذریعہ قانون''کے موضوع پرمنعقدہ تین روزہ عالمی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ جب 9مارچ2007 کو عدلیہ پرشب خون مارنے کی کوشش کی گئی توججز،وکلا،سول سوسائٹی اورعوام نے آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اورنظام کو بدل کر رکھ دیا،عدلیہ کی بحالی کیلیے کراچی کے شہدا کے خون کو کبھی فراموش نہیں کیا جائیگا،چیف جسٹس افتخارچوہدری نے سندھ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کی جانب سے لائیوٹائم اچیومنٹ ایوارڈوصول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اسے عدلیہ بحالی تحریک کے شہداکے نام کرنے کی ہدایت کی اورکہاکہ چندنا عاقبت اندیش یہ تاثردینے کی کوشش کررہے ہیں کہ عدالتوں کی وجہ سے دہشتگردی کے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں جبکہ پراسیکیوشن اورتحقیقاتی اداروں کی نا اہلی اور کمزور تفتیش سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
گلوبل ٹیرارزم ڈیٹابیس سے موصول شدہ اعدادُشمارکے مطابق گزشتہ تین سالوں میں واقعات اورحادثات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھاگیاہے،2008 سے 2010 تک تین سالوں میں 1929 واقعات ہوئے جن کاتناسب 643 واقعات سالانہ ہے،اس دوران قتل اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بالترتیب 4286 اور 8264 ہے،اس جائزے کے مطابق اس عرصے کے دوران 1429 سالانہ قتل ہوئے اور 2755 سالانہ زخمی ہوئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،اس طرح ساری ذمے داری کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے جج پرکیسے ڈالی جا سکتی ہے،بد قسمتی سے چند نا عاقبت اندیش عناصر غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عدالتوں کی کمزوری کی بدولت دہشت گردی اورسنگین جرائم کے ملزمان انسداد دہشت گردی اوردیگر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں،ملزمان کی بریت کے تقریباًتمام مقدمات کمزور استغاثہ اورناقص تفتیش کا براہ راست نتیجہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کااحساس محرومی بھی ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انہیں قومی دھارے میں لایاجاسکے۔سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ ڈرون حملے ماورائے سرحددہشتگردی کی بدترین مثال ہیں اگرسیاسی سطح پراس سے نمٹنے میں تاخیرکی گئی تواس چیلنج سے عدلیہ نمٹے گی،نائن الیون کے بعد دہشتگردی کوافغانستان،ایران اور پاکستان کے خلاف ہتھیارکے طورپراستعمال کیاجارہاہے۔
انھوں نے کہاکہ سرحد پار دہشت گردی اس وقت پوری دنیاکی تشویش کابنیادی نکتہ بن چکی،اس کے ذریعے مغرب کے ہاتھوں میں مسلمان ملکوں عراق، افغانستان پرحملوں اور اب ایران کودھمکیوں کاجواز آگیاہے ، پاکستان سمیت مسلم دنیامیں ظلم کے منظم واقعات سامنے آئے جن کے باعث پاکستان کوکاونٹر ٹیررازم کی حکمت عملی اپنانے پرمجبور کیا،پاکستان کو اپنے قیام سے ہی بیرونی جارحیت کا سامنا رہاہے، مغرب اوراس کے پڑوسی ملکوں نے اسے تسلیم نہیں کیا،وہ سمجھتے تھے کہ یہ نئی ریاست کچھ ہی دنوں میں شکست وریخت کاشکارہوجائیگی۔تقریب سے سندھ ہائیکورٹ با ر ایسوسی ایشن کے صدرانورمنصورخان نے بھی خطاب کیا۔
اقتصادی اورتجارتی سرگرمیوں کامرکز، ہمارے عظیم قائد اورروشنیوں کاشہر دہشتگردی کا گڑھ بن چکا،پولیس کوسیاست سے پاک کیے بغیرامن وامان کا قیام ممکن نہیں، تقرری اور تعینا تیوں کے عمل میں سیاسی اثررسوخ ختم ہوناچاہیے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایمانداری سے کام کرنا چاہیے، ایجنسیوں میں کالی بھیڑیں اس ادارے اورمعاشرے کیلیے تباہ کن ہے، سیاسی اثررسوخ اور دیگر حربے تحقیقاتی اداروں کو تباہ کردیتے ہیں۔
جمعے کی شب سندھ ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے زیراہتمام ''انسداد دہشتگردی بذریعہ قانون''کے موضوع پرمنعقدہ تین روزہ عالمی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ جب 9مارچ2007 کو عدلیہ پرشب خون مارنے کی کوشش کی گئی توججز،وکلا،سول سوسائٹی اورعوام نے آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اورنظام کو بدل کر رکھ دیا،عدلیہ کی بحالی کیلیے کراچی کے شہدا کے خون کو کبھی فراموش نہیں کیا جائیگا،چیف جسٹس افتخارچوہدری نے سندھ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کی جانب سے لائیوٹائم اچیومنٹ ایوارڈوصول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اسے عدلیہ بحالی تحریک کے شہداکے نام کرنے کی ہدایت کی اورکہاکہ چندنا عاقبت اندیش یہ تاثردینے کی کوشش کررہے ہیں کہ عدالتوں کی وجہ سے دہشتگردی کے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں جبکہ پراسیکیوشن اورتحقیقاتی اداروں کی نا اہلی اور کمزور تفتیش سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
گلوبل ٹیرارزم ڈیٹابیس سے موصول شدہ اعدادُشمارکے مطابق گزشتہ تین سالوں میں واقعات اورحادثات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھاگیاہے،2008 سے 2010 تک تین سالوں میں 1929 واقعات ہوئے جن کاتناسب 643 واقعات سالانہ ہے،اس دوران قتل اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بالترتیب 4286 اور 8264 ہے،اس جائزے کے مطابق اس عرصے کے دوران 1429 سالانہ قتل ہوئے اور 2755 سالانہ زخمی ہوئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،اس طرح ساری ذمے داری کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے جج پرکیسے ڈالی جا سکتی ہے،بد قسمتی سے چند نا عاقبت اندیش عناصر غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عدالتوں کی کمزوری کی بدولت دہشت گردی اورسنگین جرائم کے ملزمان انسداد دہشت گردی اوردیگر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں،ملزمان کی بریت کے تقریباًتمام مقدمات کمزور استغاثہ اورناقص تفتیش کا براہ راست نتیجہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کااحساس محرومی بھی ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انہیں قومی دھارے میں لایاجاسکے۔سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ ڈرون حملے ماورائے سرحددہشتگردی کی بدترین مثال ہیں اگرسیاسی سطح پراس سے نمٹنے میں تاخیرکی گئی تواس چیلنج سے عدلیہ نمٹے گی،نائن الیون کے بعد دہشتگردی کوافغانستان،ایران اور پاکستان کے خلاف ہتھیارکے طورپراستعمال کیاجارہاہے۔
انھوں نے کہاکہ سرحد پار دہشت گردی اس وقت پوری دنیاکی تشویش کابنیادی نکتہ بن چکی،اس کے ذریعے مغرب کے ہاتھوں میں مسلمان ملکوں عراق، افغانستان پرحملوں اور اب ایران کودھمکیوں کاجواز آگیاہے ، پاکستان سمیت مسلم دنیامیں ظلم کے منظم واقعات سامنے آئے جن کے باعث پاکستان کوکاونٹر ٹیررازم کی حکمت عملی اپنانے پرمجبور کیا،پاکستان کو اپنے قیام سے ہی بیرونی جارحیت کا سامنا رہاہے، مغرب اوراس کے پڑوسی ملکوں نے اسے تسلیم نہیں کیا،وہ سمجھتے تھے کہ یہ نئی ریاست کچھ ہی دنوں میں شکست وریخت کاشکارہوجائیگی۔تقریب سے سندھ ہائیکورٹ با ر ایسوسی ایشن کے صدرانورمنصورخان نے بھی خطاب کیا۔