انسداد پولیو کا کام این ڈی ایم اے کے سپرد
دنیا بھر میں اس سال پولیو کے 80 فیصد کیسز کا تعلق پاکستان سے نکلا ہے، رپورٹ
گلوبل پولیو ایریڈیکشن انسٹی ٹیوٹ یعنی انسداد پولیو کے عالمی ادارے کے خود مختار مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تلقین کی ہے کہ پاکستان کو انسداد پولیو کا کام نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سپرد کر دینا چاہیے۔ آئی ایم بی بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کی جانب سے کام کرنے والی تنظیم ہے جو مختلف ممالک میں انسداد پولیو کی مہم کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹیں جاری کرتی ہے۔
نومبر 2012میں آئی ایم بی نے سفارش کی تھی کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر پر پابندیاں عائد کر دی جائیں تا کہ پولیو وائرس بیرونی ممالک میں نہ منتقل ہو سکے۔ ان پابندیوں پر اس سال 5 مئی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ آئی ایم بی کا گزشتہ اجلاس برطانیہ میں30 ستمبر کو ہوا جس میں پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستانی حکام پر زور دیا گیا ہے وہ پولیو وائرس کی بیرون ملک برآمدگی پر عاید قدغن پر سختی سے عمل کیا جائے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو پولیو ویکسی نیشن کا مصدقہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا سختی سے پابند بنایا جائے۔ ادھر پاکستانی وزارت صحت کے حکام نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئی ایم بی کی سفارشات کو سختی سے نافذ کر دیا جائے تو اس سے پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک جانا بے حد مشکل ہو جائے گا اس صورت میں پولیو سرٹیفکیٹ بھی اتنے ہی اہم بن جائیں گے جتنے کہ پاسپورٹ ہیں جن کے بغیر دیگر ممالک پاکستانیوں کو داخلے کی اجازت ہی نہیں دیں گے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس سال پولیو کے 80 فیصد کیسز کا تعلق پاکستان سے نکلا ہے۔ مزید برآں پولیو کا نشانہ بننے والوں کی بڑی تعداد پاکستانی بچوں کی ہے جن کے حفظان صحت پر مناسب توجہ کا فقدان ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے اس حوالے سے اس کے پڑوسی ممالک کو بھی خطرہ ہے جن میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں جہاں سے یہ وائرس شام اور عراق تک بھی پہنچ سکتا ہے آئی ایم بی نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انسداد پولیو کے لیے اسی طرز کا پروگرام نافذ کرے جیسا نائیجیریا نے نافذ کیا اور جو انتہائی کامیاب رہا۔
اس مقصد کے لیے این ڈی ایم اے کے زیر اہتمام ہنگامی مراکز قائم کیے جائیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے پولیو ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانی چاہئیں۔ گزشتہ دو سال میں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی پولیو وائرس پہنچ چکا ہے۔ جہاں پر طالبان نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں تقریباً اڑھائی لاکھ بچوں کو قطرے نہ پلائے جاسکے۔
19 جون 2014ء کو پاک فوج نے وہاں آپریشن شروع کیا جس سے طالبان کا زور ٹوٹ گیا۔ آپریشن کے دوران لاتعداد قبائلی بچوں کو دوسرے علاقوں میں جانا پڑا جس سے پولیو کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ پھر کراچی میں بھی پولیو کے کیسز رپورٹ ہونے لگے تاہم پاکستان نے آئی ایم بی کی ہدایات پر انسداد پولیو کا ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے جس کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارا ملک بھی اس بیماری سے مکمل نجات حاصل کر سکے گا۔
نومبر 2012میں آئی ایم بی نے سفارش کی تھی کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر پر پابندیاں عائد کر دی جائیں تا کہ پولیو وائرس بیرونی ممالک میں نہ منتقل ہو سکے۔ ان پابندیوں پر اس سال 5 مئی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ آئی ایم بی کا گزشتہ اجلاس برطانیہ میں30 ستمبر کو ہوا جس میں پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستانی حکام پر زور دیا گیا ہے وہ پولیو وائرس کی بیرون ملک برآمدگی پر عاید قدغن پر سختی سے عمل کیا جائے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو پولیو ویکسی نیشن کا مصدقہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا سختی سے پابند بنایا جائے۔ ادھر پاکستانی وزارت صحت کے حکام نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئی ایم بی کی سفارشات کو سختی سے نافذ کر دیا جائے تو اس سے پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک جانا بے حد مشکل ہو جائے گا اس صورت میں پولیو سرٹیفکیٹ بھی اتنے ہی اہم بن جائیں گے جتنے کہ پاسپورٹ ہیں جن کے بغیر دیگر ممالک پاکستانیوں کو داخلے کی اجازت ہی نہیں دیں گے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس سال پولیو کے 80 فیصد کیسز کا تعلق پاکستان سے نکلا ہے۔ مزید برآں پولیو کا نشانہ بننے والوں کی بڑی تعداد پاکستانی بچوں کی ہے جن کے حفظان صحت پر مناسب توجہ کا فقدان ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے اس حوالے سے اس کے پڑوسی ممالک کو بھی خطرہ ہے جن میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں جہاں سے یہ وائرس شام اور عراق تک بھی پہنچ سکتا ہے آئی ایم بی نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انسداد پولیو کے لیے اسی طرز کا پروگرام نافذ کرے جیسا نائیجیریا نے نافذ کیا اور جو انتہائی کامیاب رہا۔
اس مقصد کے لیے این ڈی ایم اے کے زیر اہتمام ہنگامی مراکز قائم کیے جائیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے پولیو ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانی چاہئیں۔ گزشتہ دو سال میں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی پولیو وائرس پہنچ چکا ہے۔ جہاں پر طالبان نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں تقریباً اڑھائی لاکھ بچوں کو قطرے نہ پلائے جاسکے۔
19 جون 2014ء کو پاک فوج نے وہاں آپریشن شروع کیا جس سے طالبان کا زور ٹوٹ گیا۔ آپریشن کے دوران لاتعداد قبائلی بچوں کو دوسرے علاقوں میں جانا پڑا جس سے پولیو کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ پھر کراچی میں بھی پولیو کے کیسز رپورٹ ہونے لگے تاہم پاکستان نے آئی ایم بی کی ہدایات پر انسداد پولیو کا ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے جس کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارا ملک بھی اس بیماری سے مکمل نجات حاصل کر سکے گا۔