کچھ چوروں ڈاکوؤں کے بارے میں

جاسوسی ناولوں سےشغف رکھنےوالوں نے’نیلی چھتری‘والے ظفرعمرکا نام بہت سناہو گا۔ اس ناول نےاپنےزمانےمیں بہت شہرت پائی تھی۔

rmvsyndlcate@gmail.com

لوٹ کھسوٹ جب زندگی کے اور شعبوں میں زوروں پر ہو تو پھر چور ڈاکو کسی سے کیوں پیچھے رہیں۔ تو اب پاکستان میں چوری ڈکیتی کا دور دورہ ہے۔ مگر ایک ڈکیتی نے لوگوں کو بہت چونکایا۔ ارے ایدھی صاحب نے تو غریبوں بیکسوں کی امداد کی قسم کھا رکھی تھی۔ وہ ڈکیت کتنے کٹھور تھے کہ انھوں نے غریبوں کی امداد کرنے والے اس ادارے کو بھی نہیں بخشا۔

چور ڈاکو کسی اخلاقیات کے قائل نہیں ہوتے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے ڈاکو اور چور ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ چوروں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے۔ لیکن ڈاکوئوں میں ایسے ڈاکو بھی گزرے ہیں جن کے اپنے اصول تھے۔ اس تقریب سے ہمیں گزرے زمانے کا ایک ڈاکو خاص طور پر یاد آ رہا ہے۔ یہ سلطانہ ڈاکو تھا۔ ویسے تو یہ اپنے وقت کا نامی گرامی ڈاکو تھا۔ مگر وہ ڈاکے کے ساتھ ساتھ غریب پرور بھی تھا۔ اس نے غریب پروری اور ڈاکا زنی کا کیا خوب امتزاج کیا تھا۔ سیٹھوں ساہوکاروں کی حویلیوں میں ڈاکے ڈالتا تھا۔ ڈاکے میں جو رقم ہاتھ لگتی تھی اس کا زیادہ حصہ وہ غریبوں میں بانٹ دیتا تھا۔

اس ڈاکو کا ایک دلچسپ واقعہ حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب 'نایاب ہیں ہم' میں نقل کیا ہے۔ لیجیے وہ شعر بھی سن لیجیے جس سے یہ عنوان ماخوذ ہے؎

ڈھونڈیں گے اگر ملکوں ملکوں

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

سلطانہ ڈاکو بھی شاید اسی ذیل میں آتا ہے۔

جاسوسی ناولوں سے شغف رکھنے والوں نے 'نیلی چھتری' والے ظفر عمر کا نام بہت سنا ہو گا۔ اس ناول نے اپنے زمانے میں بہت شہرت پائی تھی۔ ظفر عمر پیشہ کے لحاظ سے پولیس افسر تھے۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی پولیس افسر جس نے سلطانہ ڈاکو کو گرفتار کر کے اپنی پولیس افسری کی دھاک بٹھائی تھی۔ ظفر عمر کی بیگم صاحبہ کی سلطانہ ڈاکو سے جو مڈھ بھیڑ ہوئی اس کا احوال ان کی بیٹی حمیدہ اختر حسین سے سنیے۔

''ایک لحیم شحیم پگڑ باندھے اندر داخل ہوا اور اماں کو سلام کیا۔ انھوں نے دبدبے والی آواز سے پوچھا کون ہے''۔

''میں سلطانہ ڈاکو''

''بتائیں کہ میرے خیمے میں کیسے آنا ہوا

''معاف کیجیے گا بہن۔ میں ایک تحفہ آپ کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں جس دن آپ کے صاحب کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا تو ان سے کہا تھا کہ جیل سے آتے ہی ایک تلوار کا تحفہ آپ کو دوں گا۔ مگر میں وہ تحفہ یوں حاصل نہ کر سکا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وہ تلوار لندن کے میوزیم پہنچ گئی ہے۔ سوچا کہ چل کر آپ کو تحفہ دیدوں شال میں ایک چھوٹی سی گھڑی نکال کر ان کے آگے بڑھائی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اس کو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کر لے لیجیے''۔

سفید کپڑے کی گٹھری کھولی جس میں سچے موتیوں کی پچاسوں لڑیں تھیں۔


''بیشک یہ موتی بڑے نادر ہیں۔ جس خلوص سے آپ نے کہا بھائی کا تحفہ۔ یعنی میں آپ کی بہن ہوں۔ صرف ایک شرط پر لے لوں گی کہ آپ مجھ سے یعنی ایک بہن سے یہ وعدہ کریں کہ آج کے بعد سے آپ کبھی ڈاکے نہ ڈالیں گے۔ باقی زندگی کے دن اپنی محنت مزدوری سے کما کر کھائیں گے''۔

سلطانہ ڈاکو تن کر کھڑا ہو گیا۔ سینہ پر ہاتھ مار کر کہا ''بہن میرا وعدہ ہے آپ کو کبھی شرمندگی نہ ہو گی۔ اچھا خدا حافظ''۔

اماں نے کہا ''خدا کرے آپ اپنے وعدے کو ہمیشہ یاد رکھیں''۔

اور در حقیقت پھر کبھی سلطانہ ڈاکو کی کوئی واردات سننے میں نہ آئی''۔

تو یہ آن تھی اس ڈاکو کی۔ مگر وہ زمانہ اور تھا۔ ابھی ہم اس طرح کے معاشرتی اور اخلاقی زوال سے جو آج ہم اپنے یہاں دیکھ رہے ہیں آشنا نہیں ہوئے تھے کچھ اخلاقی قدریں ابھی باقی تھیں۔ اور جب معاشرہ میں کچھ اخلاقی قدریں باقی ہوں تو کوئی بھی مجرم کوئی چور ڈاکو بھی ان سے متاثر ہو سکتا ہے۔

لیجیے یہ تو ہوا۔ اب ذرا ایک کالم نگار کی غلط بیانی کی بھی لگے ہاتھوں تردید ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ وجاہت مسعود نے آج کے اپنے کالم میں وہ کام کیا ہے کہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر۔ انھوں نے اس اخباری معرکہ آرائی کا ذکر کیا ہے جو گزرے زمانے میں ڈاکٹر تاثیر اور مولانا چراغ حسن حسرت کے درمیان ہوئی تھی۔ اصل میں تاثیر صاحب نے ترقی پسندوں کے خلاف ایک اچھا خاصا محاذ قائم کر رکھا تھا۔ امروز بائیں بازو کا اخبار تھا۔ ترقی پسندوں نے اس اخبار کے ذریعہ تاثیر صاحب کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ حسرت صاحب 'امروز' کے ایڈیٹر تھے۔ انھیں اس حیثیت میں ترقی پسندوں کا دفاع کرنا ہی تھا۔ اس لڑائی میں شعر بازی کا بھی مقابلہ ہو گیا۔ تاثیر صاحب نے ایک جارحانہ نظم لکھی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا؎

عجیب بات وہ جنتا کا یار کہتا ہے

کہ شعر وہ ہے جو فتو لوہار کہتا ہے

وجاہت مسعود نے یہ شعر حسرت صاحب کے کھاتے میں ڈال دیا۔ سبحان اللہ۔ ارے شعر کو ذرا غور سے پڑھ لیا ہوتا۔ اس شعر میں روئے سخن ترقی پسندوں کی طرف ہے۔ حسرت صاحب یہ شعر کیسے کہہ سکتے تھے۔ حملہ ترقی پسندوں پر ہے۔ وہ تو ترقی پسندوں کی حمایت کر رہے تھے۔

امروز میں اس شعر کا جواب بھی شایع ہوا تھا۔ وہ جواب لکھا تھا احمد ندیم قاسمی نے۔ جواب میں انھوں نے استدلال کچھ اس طرح سے کیا کہ آخر فتو لوہار شعر کیوں نہ کہے۔ شاعری کی ٹھیکیداری کیا نچے طبقے والوں ہی کے نام لکھی گئی ہے۔ لیکن ان کا شعر پھسپھسا تھا۔ چلا نہیں۔ تاثیر صاحب کا شعر بولتا ہوا ہے۔ وہ خوب چلا۔

وجاہت مسعود نے یہ بھی غلط لکھا ہے کہ تاثیر صاحب نے 'آفاق' کے ذریعہ اپنی مہم شروع کی تھی۔ انھوں نے اخبار مغربی پاکستان میں اپنا مورچہ قائم کیا تھا۔

اصل میں ہوا یوں کہ عمران خاں نے بلاول کی اردو پر اعتراض کیا تھا کہ میاں جس زبان میں تم گرج برس رہے ہو اس زبان ہی میں تم کچے ہو۔ وجاہت مسعود نے بجا کہا کہ اس زبان میں تم بھی ایسے کونسے منجھے ہوئے ہو۔ مگر جب انھوں نے قائداعظم کا حوالہ دیا کہ وہ بھی تو اردو نہیں جانتے تھے۔ ایسے جواب کو کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ قائداعظم نے کانگریس سے جو لڑائی لڑی تھی وہ انگریزی میں لڑی تھی۔ انگریزی میں تو وہ بودے نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جس زبان میں تم معرکہ آرائی کر رہے ہو اس زبان پہ تو تھوڑی قدرت حاصل کر لو۔ جس ہتھیار سے لڑ رہے ہو اس ہتھیار کو مہارت کے ساتھ استعمال کرنا پہلے سیکھو۔
Load Next Story