تاریخ کے دوراہے پر کھڑی قوم
وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ آج کی دنیا میں تبدیلی صرف اور صرف آئینی طریقہ ہی سے ممکن ہے۔
علامہ طاہر القادری نے 66 روز بعد اسلام آباد سے اپنی جماعت کا دھرنا اچانک ختم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اب پورے ملک میں جلسے کیے جائیں گے۔ ان کے اس فیصلے پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف نے اپنا دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قطع نظر کے مختلف حلقے ان دونوں جماعتوں کے فیصلوں پر کیا تبصرے کر رہے ہیں اور انھیں کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں، اس وقت یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے مقاصد اور حرکیات (Dynamics) کیا ہیں؟ اور کس حد تک یہ دونوں جماعتیں اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوئی ہیں؟
عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر دیے جانے والے دھرنوں کا غیر جانبداری کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں یہ دھرنے عوامی سیاسی شعور میں اضافے کا باعث بنے، وہیں ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں سے بعض فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مسائل کی نشاندہی بھی ہوئی ہے، جنھیں حکمران اشرافیہ قیام پاکستان کے وقت سے دانستہ نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم مسئلہ Good Governance کا ہے، جس کا پاکستانیوں کو 68 برسوں کے دوران ایک دن بھی تجربہ نہیں ہوسکا۔
اسی سے جڑا معاملہ پالیسی سازی میں میرٹ سے انحراف اور کرپشن اور بدعنوانیوں کا بڑھتا ہوا کلچر ہے، جو آج رگ و پے میں پھیلا سرطان بن چکا ہے۔ جمہوری نظام اور اداروں کے استحکام کے لیے انتخابی قوانین میں مناسب ردوبدل اور ترمیم و اضافہ، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے مکینزم کی تیاری اور مقامی حکومتی نظام کا قیام بھی اہم اور ترجیحی امور ہیں۔ عوام ان مسائل کے حل کی خواہش کئی دہائیوں سے دلوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔ وہ ہر تحریک کا حصہ بنے اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مگر ہر بار انھیں مایوسی ہوئی۔
اگر عوامی جدوجہد کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو 1953 سے طلبا وقفے وقفے سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ جنھوں نے ملک میں منصفانہ معاشرے کے قیام کی خاطر اپنا جوان خون دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ صحافی بھی کم و بیش اسی دور سے آزادی اظہار کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ انھوں نے بھی قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں بھگتی ہیں۔ محنت کش بھی اس ملک میں مزدور دوست پالیسیوں کے لیے قربانیاں دیتے رہے اور اپنے خون سے سڑکوں اور گلیوں کو رنگتے رہے ہیں۔ مگر منصفانہ معاشرے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ایوب خان کے خلاف کراچی سے سلہٹ تک اور بولان سے چٹاگام تک عوام سڑکوں پر نکلے، مگر صِلے میں یحییٰ خان کا مارشل لاء ملا۔ بھٹو مرحوم کے خلاف نو جماعتی اتحاد PNA نے جمہوری آزادیوں کے لیے تحریک چلائی، مگر جمہوریت میں بہتری تو درکنار، جنرل ضیاء الحق کے طول مارشل لاء نے ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ 2007میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی، عوام نے اس میں جوق درجوق حصہ لیا، مگر بحالی کے بعد سابق چیف جسٹس نے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے اور عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے اقدامات کرنے کے بجائے صرف اپنا سیاسی قد بلند کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
اب یہ دو جماعتیں سیاسی نظام میں تبدیلی کے لیے میدان میں اتری ہیں، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انھوں نے بے شک عوام کو درپیش مسائل کا ادراک دیا، لیکن سیاسی امور کی نزاکتوں کو سمجھنے اور بعض معاملات میں بے لچک رویے نے ان کی جدوجہد کو متنازع بنا دیا۔ سول سوسائٹی کا ایک بڑا حلقہ ان کی تحریک اور اس کے طریقہ کار سے خائف ہے اور ان دونوں جماعتوں کے طرز عمل پر تحفظات کا مسلسل اظہار کر رہا ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ درست ہے کہ انتخابی عمل میں پائی جانے والی خرابیوں کی اصلاح کے عمل کو وزیر اعظم کے استعفیٰ سے مشروط کرنا اپنے اندر منطقی استدلال نہیں رکھتا۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر چند ماہ بعد اگر اسی طرح چند ہزار لوگ وفاقی دارالحکومت کا گھیرائو کر کے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگیں تو ملک کو چلانا ممکن نہیں رہ سکے گا اور ملک مکمل طور پر Ungovernable ہو سکتا ہے۔
اس لیے نظم حکمرانی میں بہتری کے اقدامات کو پارلیمان کی صوابدید پر ہی رہنے دیا جانا چاہیے اور مقاصد کے حصول کے لیے آئینی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا جائے تو یہ قومی مفاد میں بہتر ہو گا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ آج کی دنیا میں تبدیلی صرف اور صرف آئینی طریقہ ہی سے ممکن ہے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ملک جن مسائل و معاملات سے دوچار ہے، اس کا سبب غلط پالیسیاں اور حکمت عملیاں ہیں، جن پر مسلسل اصرار کیا جاتا ہے۔ شیخ سعدی نے تقریباً 8 سو برس پہلے کہا تھا کہ:
خشت اول چون نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اس شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ اگر معمار کی غلطی سے پہلی اینٹ ٹیڑھی لگ جائے تو آسمان تک اس دیوار کو لے جائیے، وہ نقص اور ٹیڑھا پن برقرار رہے گا۔ انسانی معاشروں کا معاملہ بھی یہی ہے، ان میں جو خامیاں اور نقائص کسی سبب اپنی جڑیں پکڑ لیتے ہیں وہ تا دیر موجود رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کئی ایسے مراحل آئے ہیں، جب اقوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے مذہبی عقائد یا قومی و لسانی تشخص کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ لیکن آزادی ملتے ہی انھوں نے جذباتی نعروں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ قومی ترقی و تعمیر پر مرکوز کر دی۔
بابائے قوم جدید دنیا کے تقاضوں اور تاریخ کی تلخ حقیقتوں سے آشنا تھے، اسی لیے انھوں نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں نئے ملک کے آئین اور سماجی و سیاسی تشکیلات کے لیے نئے اہداف متعین کیے۔ مگر مقتدر اشرافیہ نے ان کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے قیام پاکستان کے 20 ماہ بعد قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی سے منظور کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ملک 20 ماہ تک بغیر مقاصد کے چلتا رہا۔
اس کے علاوہ تحریک پاکستان بھی مقاصد سے عاری تھی۔ مقتدر اشرافیہ آج بھی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ یہ قرارداد اپنی منظوری کے وقت سے انتہائی متنازع ہونے کے ساتھ آج تک ریاست کے منطقی جواز کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پورا ملک تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔
پھر 1955میں قائم کیے جانے والا ون یونٹ صرف جمہوریت اور وفاقیت کے اصولوں سے متصادم ہی نہیں تھا، بلکہ اس نے طبقاتی کشمکش، فرقہ وارانہ آویزش اور نسلی و لسانی تقسیم کو بھی ہوا دی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی شروع ہی سے ایک حساس اور نازک مسئلہ رہی ہے۔ مگر حکمرانوں نے ان مسائل پر توجہ دینے اور انھیں حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا، جس کے نتیجے میں یہ مسائل اب بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ مگر ان غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے جس جرأت و ہمت کی ضرورت ہے، اس سے حکمران اشرافیہ ہی نہیں پوری قوم عاری ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم جذباتی نفسیات کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس نفسیات کے شکار لوگ کبھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف نہیں، بلکہ ان پر اصرار کرتے ہیں۔ چند روز قبل معروف ٹائون پلانر عارف حسن سے ترکی اور پاکستانی عوام کے مزاجوں پر گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے بہت عمدہ اور تاریخی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکڑوں برسوں کی غلامی نے اس خطے کے عوام کے مزاج میں تلخی اور ترشی کے علاوہ احساس کمتری بھر دیا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا مزاج احتجاجی ہو چکا ہے۔
ہم سوچے سمجھے بغیر احتجاج کرتے ہیں اور پھر جلد ہی اس سے اکتا جاتے ہیں۔ یہ نفسیات صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کے برعکس ترک قوم کسی دوسرے ملک یا قوم کی زیر نگیں نہیں رہی۔ لہٰذا اس کے مزاج میں تلخی اور ترشی نہیں ہے اور وہ اعتماد کے ساتھ فیصلے کرتی ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ ان فیصلوں پر عمل کرتی ہے۔
ایک بات بار بار ان صفحات پر دہرائی گئی کہ دھرنے ہر سیاسی جماعت کا حق اور حکومت پر دبائو کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن ان کے ذریعے فیصلے نہیں ہوتے۔ فیصلوں کے لیے پارلیمان ہی کو کلیدی حیثیت دینا ہوتی ہے۔ دونوں جماعتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں کہ تبدیلی کا راستہ پارلیمان سے ہو کر گزرتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری نے (انتخابی اصلاحات ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں) آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف نے ملتان میں عامر ڈوگر کی حمایت کر کے دراصل انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے فلسفے کی اہمیت کو تسلیم کر لیا۔ اس لیے اب صائب راستہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں جذباتی کیفیت اور ایڈونچرازم کی نفسیات سے نکل کر زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور ایک باوقار اور شائستہ معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اور متوازن، شفاف اور شراکتی جمہوری نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
اس مقصد کے لیے تحریک انصاف پارلیمان کے اندر اور عوامی تحریک پارلیمان سے باہر بیٹھ کر آئینی اصلاحات کے لیے دبائو ڈال سکتی ہیں، جو زیادہ کارگر ثابت ہو گا۔ اب یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فکری اور تہذیبی نرگسیت سے باہر نکل کر تاریخ کے دوراہے پر کھڑی اس قوم کو ایک واضح سمت دینے کی جرأت پیدا کریں۔
عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر دیے جانے والے دھرنوں کا غیر جانبداری کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں یہ دھرنے عوامی سیاسی شعور میں اضافے کا باعث بنے، وہیں ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں سے بعض فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مسائل کی نشاندہی بھی ہوئی ہے، جنھیں حکمران اشرافیہ قیام پاکستان کے وقت سے دانستہ نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم مسئلہ Good Governance کا ہے، جس کا پاکستانیوں کو 68 برسوں کے دوران ایک دن بھی تجربہ نہیں ہوسکا۔
اسی سے جڑا معاملہ پالیسی سازی میں میرٹ سے انحراف اور کرپشن اور بدعنوانیوں کا بڑھتا ہوا کلچر ہے، جو آج رگ و پے میں پھیلا سرطان بن چکا ہے۔ جمہوری نظام اور اداروں کے استحکام کے لیے انتخابی قوانین میں مناسب ردوبدل اور ترمیم و اضافہ، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے مکینزم کی تیاری اور مقامی حکومتی نظام کا قیام بھی اہم اور ترجیحی امور ہیں۔ عوام ان مسائل کے حل کی خواہش کئی دہائیوں سے دلوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔ وہ ہر تحریک کا حصہ بنے اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مگر ہر بار انھیں مایوسی ہوئی۔
اگر عوامی جدوجہد کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو 1953 سے طلبا وقفے وقفے سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ جنھوں نے ملک میں منصفانہ معاشرے کے قیام کی خاطر اپنا جوان خون دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ صحافی بھی کم و بیش اسی دور سے آزادی اظہار کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ انھوں نے بھی قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں بھگتی ہیں۔ محنت کش بھی اس ملک میں مزدور دوست پالیسیوں کے لیے قربانیاں دیتے رہے اور اپنے خون سے سڑکوں اور گلیوں کو رنگتے رہے ہیں۔ مگر منصفانہ معاشرے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ایوب خان کے خلاف کراچی سے سلہٹ تک اور بولان سے چٹاگام تک عوام سڑکوں پر نکلے، مگر صِلے میں یحییٰ خان کا مارشل لاء ملا۔ بھٹو مرحوم کے خلاف نو جماعتی اتحاد PNA نے جمہوری آزادیوں کے لیے تحریک چلائی، مگر جمہوریت میں بہتری تو درکنار، جنرل ضیاء الحق کے طول مارشل لاء نے ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ 2007میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی، عوام نے اس میں جوق درجوق حصہ لیا، مگر بحالی کے بعد سابق چیف جسٹس نے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے اور عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے اقدامات کرنے کے بجائے صرف اپنا سیاسی قد بلند کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
اب یہ دو جماعتیں سیاسی نظام میں تبدیلی کے لیے میدان میں اتری ہیں، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انھوں نے بے شک عوام کو درپیش مسائل کا ادراک دیا، لیکن سیاسی امور کی نزاکتوں کو سمجھنے اور بعض معاملات میں بے لچک رویے نے ان کی جدوجہد کو متنازع بنا دیا۔ سول سوسائٹی کا ایک بڑا حلقہ ان کی تحریک اور اس کے طریقہ کار سے خائف ہے اور ان دونوں جماعتوں کے طرز عمل پر تحفظات کا مسلسل اظہار کر رہا ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ درست ہے کہ انتخابی عمل میں پائی جانے والی خرابیوں کی اصلاح کے عمل کو وزیر اعظم کے استعفیٰ سے مشروط کرنا اپنے اندر منطقی استدلال نہیں رکھتا۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر چند ماہ بعد اگر اسی طرح چند ہزار لوگ وفاقی دارالحکومت کا گھیرائو کر کے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگیں تو ملک کو چلانا ممکن نہیں رہ سکے گا اور ملک مکمل طور پر Ungovernable ہو سکتا ہے۔
اس لیے نظم حکمرانی میں بہتری کے اقدامات کو پارلیمان کی صوابدید پر ہی رہنے دیا جانا چاہیے اور مقاصد کے حصول کے لیے آئینی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا جائے تو یہ قومی مفاد میں بہتر ہو گا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ آج کی دنیا میں تبدیلی صرف اور صرف آئینی طریقہ ہی سے ممکن ہے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ملک جن مسائل و معاملات سے دوچار ہے، اس کا سبب غلط پالیسیاں اور حکمت عملیاں ہیں، جن پر مسلسل اصرار کیا جاتا ہے۔ شیخ سعدی نے تقریباً 8 سو برس پہلے کہا تھا کہ:
خشت اول چون نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اس شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ اگر معمار کی غلطی سے پہلی اینٹ ٹیڑھی لگ جائے تو آسمان تک اس دیوار کو لے جائیے، وہ نقص اور ٹیڑھا پن برقرار رہے گا۔ انسانی معاشروں کا معاملہ بھی یہی ہے، ان میں جو خامیاں اور نقائص کسی سبب اپنی جڑیں پکڑ لیتے ہیں وہ تا دیر موجود رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کئی ایسے مراحل آئے ہیں، جب اقوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے مذہبی عقائد یا قومی و لسانی تشخص کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ لیکن آزادی ملتے ہی انھوں نے جذباتی نعروں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ قومی ترقی و تعمیر پر مرکوز کر دی۔
بابائے قوم جدید دنیا کے تقاضوں اور تاریخ کی تلخ حقیقتوں سے آشنا تھے، اسی لیے انھوں نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں نئے ملک کے آئین اور سماجی و سیاسی تشکیلات کے لیے نئے اہداف متعین کیے۔ مگر مقتدر اشرافیہ نے ان کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے قیام پاکستان کے 20 ماہ بعد قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی سے منظور کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ملک 20 ماہ تک بغیر مقاصد کے چلتا رہا۔
اس کے علاوہ تحریک پاکستان بھی مقاصد سے عاری تھی۔ مقتدر اشرافیہ آج بھی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ یہ قرارداد اپنی منظوری کے وقت سے انتہائی متنازع ہونے کے ساتھ آج تک ریاست کے منطقی جواز کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پورا ملک تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔
پھر 1955میں قائم کیے جانے والا ون یونٹ صرف جمہوریت اور وفاقیت کے اصولوں سے متصادم ہی نہیں تھا، بلکہ اس نے طبقاتی کشمکش، فرقہ وارانہ آویزش اور نسلی و لسانی تقسیم کو بھی ہوا دی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی شروع ہی سے ایک حساس اور نازک مسئلہ رہی ہے۔ مگر حکمرانوں نے ان مسائل پر توجہ دینے اور انھیں حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا، جس کے نتیجے میں یہ مسائل اب بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ مگر ان غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے جس جرأت و ہمت کی ضرورت ہے، اس سے حکمران اشرافیہ ہی نہیں پوری قوم عاری ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم جذباتی نفسیات کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس نفسیات کے شکار لوگ کبھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف نہیں، بلکہ ان پر اصرار کرتے ہیں۔ چند روز قبل معروف ٹائون پلانر عارف حسن سے ترکی اور پاکستانی عوام کے مزاجوں پر گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے بہت عمدہ اور تاریخی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکڑوں برسوں کی غلامی نے اس خطے کے عوام کے مزاج میں تلخی اور ترشی کے علاوہ احساس کمتری بھر دیا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا مزاج احتجاجی ہو چکا ہے۔
ہم سوچے سمجھے بغیر احتجاج کرتے ہیں اور پھر جلد ہی اس سے اکتا جاتے ہیں۔ یہ نفسیات صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کے برعکس ترک قوم کسی دوسرے ملک یا قوم کی زیر نگیں نہیں رہی۔ لہٰذا اس کے مزاج میں تلخی اور ترشی نہیں ہے اور وہ اعتماد کے ساتھ فیصلے کرتی ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ ان فیصلوں پر عمل کرتی ہے۔
ایک بات بار بار ان صفحات پر دہرائی گئی کہ دھرنے ہر سیاسی جماعت کا حق اور حکومت پر دبائو کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن ان کے ذریعے فیصلے نہیں ہوتے۔ فیصلوں کے لیے پارلیمان ہی کو کلیدی حیثیت دینا ہوتی ہے۔ دونوں جماعتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں کہ تبدیلی کا راستہ پارلیمان سے ہو کر گزرتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری نے (انتخابی اصلاحات ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں) آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف نے ملتان میں عامر ڈوگر کی حمایت کر کے دراصل انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے فلسفے کی اہمیت کو تسلیم کر لیا۔ اس لیے اب صائب راستہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں جذباتی کیفیت اور ایڈونچرازم کی نفسیات سے نکل کر زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور ایک باوقار اور شائستہ معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اور متوازن، شفاف اور شراکتی جمہوری نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
اس مقصد کے لیے تحریک انصاف پارلیمان کے اندر اور عوامی تحریک پارلیمان سے باہر بیٹھ کر آئینی اصلاحات کے لیے دبائو ڈال سکتی ہیں، جو زیادہ کارگر ثابت ہو گا۔ اب یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فکری اور تہذیبی نرگسیت سے باہر نکل کر تاریخ کے دوراہے پر کھڑی اس قوم کو ایک واضح سمت دینے کی جرأت پیدا کریں۔