ہزار سال کا فاصلہ
پاکستان میں کسی طاقت ور حکومت کی حجامت بنانے کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ن لیگ کی پٹائی ہے۔
ISLAMABAD:
ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جنھیں حاصل کرنے کے بعد ہمارے پاؤں زمیں پر نہیں ٹکتے۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت خوش ہے کہ دھرنے ان سے طاقت چھیننے میں ناکام رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف بشمول وہ تمام شریف دوست وزراء جو اُن کے ہمیشہ ساتھ نظر آتے ہیں خوش ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے۔ نظام بدلا نہ کوئی انقلاب عظیم آیا۔
وہ اس میں بھی خوش ہیں کہ عمران خان باوجود تمام کوشش کے انتخابی قسم کے احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے تمام اہداف جو وہ طمطراق کے ساتھ اسلام آباد میں لے کر آئے تھے ان کی حالت اس کپڑے کی طرح ہے جو ہفتوں رسی پر لٹکنے کی وجہ سے دھوپ و ہوا میں اپنی رنگت اور جھلملاہٹ کھو دیتا ہے۔
عمران خان خوش ہیں کہ انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومت اور اس کے اتحادیوں کی خوب گت بنائی۔ جو ذہن میں آیا زبان سے نکلا جو سوچا وہ کہہ دیا جو نہیں سوچا وہ بھی بیان کر دیا۔ ہر طرف ہیجان' چہ میگوئی' ہر اخبار میں شہہ سرخی' ہر ٹی وی پروگرام میں تذکرہ۔ پاکستان کا موضوع سخن۔ خان۔ پھر ن لیگ کے وزراء کی دھجیاں اڑانا اضافی طمانیت۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمان کے بعد کسی کو سیاسی دھماکا کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ عمران خان اور ان کی جماعت ہے۔
پاکستان میں کسی طاقت ور حکومت کی حجامت بنانے کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ن لیگ کی پٹائی ہے۔ گو نواز گو کا نعرہ پولیو وائرس کی طرح پھیل گیا ہے۔ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔یوں دونوں جماعتیں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سینے سے لگائے سکون میں ہیں۔ ہماری موجودہ سیاسی بحث بھی ان ہی خوشیوں کی مٹی سے بنی ہے۔ بحث کیا ہے؟ ایک پارٹی کہتی ہے "بڑی بے عزتی کی ہے جی۔ مزا آگیا۔ کمال ہوگیا۔ مزید کریں گے"۔
دوسری جماعت کہتی ہے "کچھ نہیں ہوا جی۔ خیر ہی خیر ہے۔ دھرنے والوں نے پسپائی اٹھائی ہے۔ بے عزت ہوئے ہیں ہے۔" لہٰذا بحث یہ ہے " بے عزتی ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی"۔ دوسری جماعتوں اور اداروں کی خوشیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی۔ دوسرے کی بے عزتی کے گرد گھومنے والی۔ برے حالات میں اپنے بچ جانے پر شکر سے پیدا ہونے والی۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے دس سال کا بچہ اپنے ماں باپ کے مر جانے پر اس وجہ سے خوش ہو رہا ہو کہ وہ خود بچ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی ن لیگ تحریک انصاف سے لڑائی میں خوش ہے۔ اس کی اپنے ڈوبتے ہوئے ستارے کو دوبارہ سے فلک پر لانے کی جو ہلکی سی امید بندھی ہے وہ اسی میں خوش ہے۔ ویسے بھی جب آصف علی زرداری دوسروں کی بے عزتی میں سے صرف اس پہلو کو نظر میں رکھیں گے کہ سب کی توجہ سندھ میں ان کی حکومت سے ہٹی ہوئی تو جماعت کی باقی قیادت یہ خوشی کیوں محسوس نہ کرے؟
جماعت اسلامی اس تمام ہنگامے میں سکون سے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنے پرانے ووٹر کو واپس لانے اور خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنے کی پیش بندی کرنے میں خوش ہے۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان عمران خان کے دھرنوں میں حالات پر خوش ہیں اور یہ جان کر مطمئن ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے کم از کم اس کے بعد تمام دوسری جماعتیں عمران خان کے خلاف اکٹھا ہونے میں سیاسی رکاوٹ محسوس نہیں کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کی سیاست میں جوڑ توڑ کے مواقعے کی تازہ ہوا نے بھی مولانا کی طبیعت کے سیاسی بوجھل پن میں کمی کی ہے۔
ایم کیو ایم صرف یہ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے کہ مرکز میں پھیلے ہوئے اس ہنگامے نے ان کے لیے بات منوانے کا نیا راستہ پیدا کر دیا ہے۔ چند ماہ پہلے لندن اور کراچی کے حالات کو دیکھیں اور اب سے موازنہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ ایم کیو ایم پہلے کی نسبت کہیں بہتر سیاسی کیفیت میں ہے۔
ق لیگ ن لیگ کے اضطراب کے مزے لوٹ رہی ہے جب کہ وہ تمام آزاد منش سیاستدان جو صرف اور صرف افراتفری میں اپنے لیے فائدہ چنتے ہیں ''ممکنہ صورت حال''سے پیدا ہونے والے ممکنہ مواقے کی ممکنہ پیدائش سے خوش ہیں۔
افسر شاہی بھی خوش ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک ہر کوئی سیاسی ''ڈانگ سوٹے''میں لگا ہوا ہے اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اسی طرح پاک سر زمین پر قبضہ کرنے والے'کروڑوں ڈالر کا قانونی ڈاکا مارنے والے، جرائم پیشہ اور دہشت گرد اس میں خوش ہیں کہ ان کو ایسے حالات تو میکسیکو میں بھی مہیا نہیں جو یہاں ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اپنے بچ جانے کے بڑھتے ہوئے امکانات پر خوش ہیں۔ ہمارے میڈیا میں اس وجہ سے خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے کہ ان کا کام خوب چل رہا ہے۔ دھندے میں مندا نہیں۔
فوج اور عدلیہ کے معزز ادارے یوں خوش ہیں کہ اس مرتبہ معاملات ان کے گلے نہیں پڑے۔ چند ہفتوں پہلے بننے والی صورتحال تحلیل ہو گئی ہے اور اب "قوم کا اعتماد ان پر بحال ہو گیا ہے"۔ مگر دوسری اقوام کی خوشیاں کچھ اور طرح کی ہوتی ہیں۔ یہ خوشیاں کیسی ہوتی ہیں؟ مشرقی جاپان میں دو ہزار گیارہ میں ایک خوفناک (اور حقیقی) سونامی آئی جس کی مثال گزشتہ ایک ہزار برس میں نہیں ملتی۔
یہاں پر ایک اسکول کے دس سے بارہ سالہ بچوں نے اپنے علاقے میں پانی کی تباہی دیکھتے ہوئے ان جگہوں پر پتھر کے سنگ میل لگا دیے ہیں تا کہ یہاں پر پہنچنے کے بعد طوفان میں گھرا ہوا کوئی بھی فرد مستقبل میں خود کو محفوظ بنا سکے گا۔ اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے جذبے کی تعریف کی سند مستقبل میں سے نوازنے کا اہتمام کیا۔ بچوں نے پرنسپل کو یہ تعریفی سند نہ دینے کی درخواست کی۔
بچوں نے کہا "جب آج سے ایک ہزار سال بعد کچھ اس قسم کی آفت میں پھنسا ہوا کوئی ایک بچہ، یا کوئی ایک عورت یا کوئی ایک مرد ہمارے لگائے ہوئے ان پتھروں تک پہنچ کر اپنی جان بچا پائے گا تو تب ہم بھی یہ سند لے کر خوشی محسوس کریں گے۔ ظاہر ہے ان بچوں کو معلوم ہے کہ ہزار سال بعد وہ یہاں پر موجود نہیں ہوں گے۔ آج سے تین دن پہلے میں اس اسکول میں موجود تھا۔ وہاں پر بچوں کے اس عزم اور جذبے کو ایک بڑے پتھر پر تحریر کر کے اسکول کے گیٹ کے سامنے ہمیشہ کے لیے گاڑ دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں "حفاظتی پتھروں کے طریقے کو آفات سے بچنے کے نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
بس یہی فرق ہے ہم میں اور جاپان میں۔ ان کے بچے ہزار سال آگے کا سوچ رہے ہیں ہمارے بڑے انقلابی اور انتخابی ایک دوسرے کی بے عزتی کا سوچ رہے ہیں۔ جاپانی بچے اپنی خوشیوں میں خوش ہیں اور ہم اپنی خوشیوں میں۔ یہ ہزار سال کا فاصلہ ہے جو دونوں اقوام کی فکر اور سوچ میں حائل ہے۔ نہ جانے کیسے طے ہو گا۔ اسکول سے واپسی کے طویل سفر کے دوران میں یہی سوچ کر پریشان اور اداس ہوتا رہا۔
ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جنھیں حاصل کرنے کے بعد ہمارے پاؤں زمیں پر نہیں ٹکتے۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت خوش ہے کہ دھرنے ان سے طاقت چھیننے میں ناکام رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف بشمول وہ تمام شریف دوست وزراء جو اُن کے ہمیشہ ساتھ نظر آتے ہیں خوش ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے۔ نظام بدلا نہ کوئی انقلاب عظیم آیا۔
وہ اس میں بھی خوش ہیں کہ عمران خان باوجود تمام کوشش کے انتخابی قسم کے احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے تمام اہداف جو وہ طمطراق کے ساتھ اسلام آباد میں لے کر آئے تھے ان کی حالت اس کپڑے کی طرح ہے جو ہفتوں رسی پر لٹکنے کی وجہ سے دھوپ و ہوا میں اپنی رنگت اور جھلملاہٹ کھو دیتا ہے۔
عمران خان خوش ہیں کہ انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومت اور اس کے اتحادیوں کی خوب گت بنائی۔ جو ذہن میں آیا زبان سے نکلا جو سوچا وہ کہہ دیا جو نہیں سوچا وہ بھی بیان کر دیا۔ ہر طرف ہیجان' چہ میگوئی' ہر اخبار میں شہہ سرخی' ہر ٹی وی پروگرام میں تذکرہ۔ پاکستان کا موضوع سخن۔ خان۔ پھر ن لیگ کے وزراء کی دھجیاں اڑانا اضافی طمانیت۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمان کے بعد کسی کو سیاسی دھماکا کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ عمران خان اور ان کی جماعت ہے۔
پاکستان میں کسی طاقت ور حکومت کی حجامت بنانے کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ن لیگ کی پٹائی ہے۔ گو نواز گو کا نعرہ پولیو وائرس کی طرح پھیل گیا ہے۔ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔یوں دونوں جماعتیں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سینے سے لگائے سکون میں ہیں۔ ہماری موجودہ سیاسی بحث بھی ان ہی خوشیوں کی مٹی سے بنی ہے۔ بحث کیا ہے؟ ایک پارٹی کہتی ہے "بڑی بے عزتی کی ہے جی۔ مزا آگیا۔ کمال ہوگیا۔ مزید کریں گے"۔
دوسری جماعت کہتی ہے "کچھ نہیں ہوا جی۔ خیر ہی خیر ہے۔ دھرنے والوں نے پسپائی اٹھائی ہے۔ بے عزت ہوئے ہیں ہے۔" لہٰذا بحث یہ ہے " بے عزتی ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی"۔ دوسری جماعتوں اور اداروں کی خوشیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی۔ دوسرے کی بے عزتی کے گرد گھومنے والی۔ برے حالات میں اپنے بچ جانے پر شکر سے پیدا ہونے والی۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے دس سال کا بچہ اپنے ماں باپ کے مر جانے پر اس وجہ سے خوش ہو رہا ہو کہ وہ خود بچ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی ن لیگ تحریک انصاف سے لڑائی میں خوش ہے۔ اس کی اپنے ڈوبتے ہوئے ستارے کو دوبارہ سے فلک پر لانے کی جو ہلکی سی امید بندھی ہے وہ اسی میں خوش ہے۔ ویسے بھی جب آصف علی زرداری دوسروں کی بے عزتی میں سے صرف اس پہلو کو نظر میں رکھیں گے کہ سب کی توجہ سندھ میں ان کی حکومت سے ہٹی ہوئی تو جماعت کی باقی قیادت یہ خوشی کیوں محسوس نہ کرے؟
جماعت اسلامی اس تمام ہنگامے میں سکون سے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنے پرانے ووٹر کو واپس لانے اور خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنے کی پیش بندی کرنے میں خوش ہے۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان عمران خان کے دھرنوں میں حالات پر خوش ہیں اور یہ جان کر مطمئن ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے کم از کم اس کے بعد تمام دوسری جماعتیں عمران خان کے خلاف اکٹھا ہونے میں سیاسی رکاوٹ محسوس نہیں کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کی سیاست میں جوڑ توڑ کے مواقعے کی تازہ ہوا نے بھی مولانا کی طبیعت کے سیاسی بوجھل پن میں کمی کی ہے۔
ایم کیو ایم صرف یہ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے کہ مرکز میں پھیلے ہوئے اس ہنگامے نے ان کے لیے بات منوانے کا نیا راستہ پیدا کر دیا ہے۔ چند ماہ پہلے لندن اور کراچی کے حالات کو دیکھیں اور اب سے موازنہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ ایم کیو ایم پہلے کی نسبت کہیں بہتر سیاسی کیفیت میں ہے۔
ق لیگ ن لیگ کے اضطراب کے مزے لوٹ رہی ہے جب کہ وہ تمام آزاد منش سیاستدان جو صرف اور صرف افراتفری میں اپنے لیے فائدہ چنتے ہیں ''ممکنہ صورت حال''سے پیدا ہونے والے ممکنہ مواقے کی ممکنہ پیدائش سے خوش ہیں۔
افسر شاہی بھی خوش ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک ہر کوئی سیاسی ''ڈانگ سوٹے''میں لگا ہوا ہے اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اسی طرح پاک سر زمین پر قبضہ کرنے والے'کروڑوں ڈالر کا قانونی ڈاکا مارنے والے، جرائم پیشہ اور دہشت گرد اس میں خوش ہیں کہ ان کو ایسے حالات تو میکسیکو میں بھی مہیا نہیں جو یہاں ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اپنے بچ جانے کے بڑھتے ہوئے امکانات پر خوش ہیں۔ ہمارے میڈیا میں اس وجہ سے خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے کہ ان کا کام خوب چل رہا ہے۔ دھندے میں مندا نہیں۔
فوج اور عدلیہ کے معزز ادارے یوں خوش ہیں کہ اس مرتبہ معاملات ان کے گلے نہیں پڑے۔ چند ہفتوں پہلے بننے والی صورتحال تحلیل ہو گئی ہے اور اب "قوم کا اعتماد ان پر بحال ہو گیا ہے"۔ مگر دوسری اقوام کی خوشیاں کچھ اور طرح کی ہوتی ہیں۔ یہ خوشیاں کیسی ہوتی ہیں؟ مشرقی جاپان میں دو ہزار گیارہ میں ایک خوفناک (اور حقیقی) سونامی آئی جس کی مثال گزشتہ ایک ہزار برس میں نہیں ملتی۔
یہاں پر ایک اسکول کے دس سے بارہ سالہ بچوں نے اپنے علاقے میں پانی کی تباہی دیکھتے ہوئے ان جگہوں پر پتھر کے سنگ میل لگا دیے ہیں تا کہ یہاں پر پہنچنے کے بعد طوفان میں گھرا ہوا کوئی بھی فرد مستقبل میں خود کو محفوظ بنا سکے گا۔ اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے جذبے کی تعریف کی سند مستقبل میں سے نوازنے کا اہتمام کیا۔ بچوں نے پرنسپل کو یہ تعریفی سند نہ دینے کی درخواست کی۔
بچوں نے کہا "جب آج سے ایک ہزار سال بعد کچھ اس قسم کی آفت میں پھنسا ہوا کوئی ایک بچہ، یا کوئی ایک عورت یا کوئی ایک مرد ہمارے لگائے ہوئے ان پتھروں تک پہنچ کر اپنی جان بچا پائے گا تو تب ہم بھی یہ سند لے کر خوشی محسوس کریں گے۔ ظاہر ہے ان بچوں کو معلوم ہے کہ ہزار سال بعد وہ یہاں پر موجود نہیں ہوں گے۔ آج سے تین دن پہلے میں اس اسکول میں موجود تھا۔ وہاں پر بچوں کے اس عزم اور جذبے کو ایک بڑے پتھر پر تحریر کر کے اسکول کے گیٹ کے سامنے ہمیشہ کے لیے گاڑ دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں "حفاظتی پتھروں کے طریقے کو آفات سے بچنے کے نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
بس یہی فرق ہے ہم میں اور جاپان میں۔ ان کے بچے ہزار سال آگے کا سوچ رہے ہیں ہمارے بڑے انقلابی اور انتخابی ایک دوسرے کی بے عزتی کا سوچ رہے ہیں۔ جاپانی بچے اپنی خوشیوں میں خوش ہیں اور ہم اپنی خوشیوں میں۔ یہ ہزار سال کا فاصلہ ہے جو دونوں اقوام کی فکر اور سوچ میں حائل ہے۔ نہ جانے کیسے طے ہو گا۔ اسکول سے واپسی کے طویل سفر کے دوران میں یہی سوچ کر پریشان اور اداس ہوتا رہا۔