پیپلز پارٹی ماضی حال مستقبل
یہ نسل جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت سے بیزار ہے۔
عوام کے لیے مشکل ہو گئی ہے کہ کونسا جلسہ چھوڑیں اور کونسا جلسہ دیکھیں۔ آدمی ایک اور جلسے بہت لیکن وقت محدود' اس صورتحال میں حکومتی جلسہ عنقا لیکن اس کی کمی کراچی میں زرداری صاحب نے جلسہ کر کے پوری کر دی۔ اس جلسے سے نہ صرف پیپلزپارٹی نے اپنے وجود کا احساس دلایا بلکہ مسلم لیگ ن کو بھی تقویت حاصل ہوئی۔ پیپلزپارٹی جس طرح نواز شریف صاحب کا ساتھ دے رہی ہے یار لوگوں نے اسے حکومتی بی ٹیم کہنا شروع کر دیا۔
اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ کراچی جلسے میں میاں برادران پر اگرچہ تنقید کی گئی لیکن اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا۔ زرداری صاحب کی نواز شریف کی حمایت دیکھ کر پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکنوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری کے پاس اب صرف ایک ہی چوائس ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو بچا لیں یا نواز شریف کو۔ پیپلزپارٹی جس کی بنیاد سوشلزم ہماری معیشت ہے کہ نعرے پر تھی اب ''سرمایہ دارانہ جمہوریت'' بچانے کے لیے نواز شریف کی حمایت کر رہی ہے۔ تاکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو بچایا جاسکے۔
پیپلزپارٹی کب کی سوشلزم کے نعرے سے تائب ہوچکی یعنی 85ء میں جب بے نظیر بھٹو امریکا مغرب سے معاملات طے کر کے واپس پاکستان آئیں۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ وہ پاکستان واپس آ سکتی تھیں اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں حصہ لے سکتی تھیں۔ میری نظر میں یہ ان کی سیاسی غلطی تھی۔ پھر اس کے بعد ان سے غلطیوں پر غلطیاں ہی سرزد ہوتی گئیں۔ طالبان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ میرے بچے ہیں۔
ان کا وزیرداخلہ (ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر) افغانستان میں طالبان کی سرپرستی کرتا رہا۔ پھر پرویز مشرف سے این آر او کرایا گیا جس میں ساری بدنامی بے نظیر کے حصے میں آئی اور سارا کا سارا فائدہ نواز شریف یا مسلم لیگ ن کے حصے میں آیا۔ کمال کی بات ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی بے نظیر کے قتل کو شہادت تسلیم کر لیا جو ان کے والد کے قتل کو شہادت نہ کہہ سکی جو سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوا۔ بے نظیر کے قتل پر دائیں بازو کی قوتیں خوشی سے پھولے نہ سمائیں لیکن مگر مچھ کے آنسو بہانہ بھی ضروری تھا۔ کیونکہ ان کے راستے سے ایک بہت بڑا پہاڑ ہٹ گیا۔
اب دائیں بازو والوں کے سامنے ایک کھلا میدان تھا اور کوئی روکنے والا نہیں۔ بس ''گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے'' کا نقشہ تھا کیونکہ بے نظیر ذوالفقار علی بھٹو کا تسلسل تھیں ان کے قتل سے وہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ پھر جو کچھ سامنے آیا وہ آصف علی زرداری کی عملیت پسند سیاست تھی۔ عوام دوست ترقی پسند قوتوں کو شکست فاش ہوئی۔ یہ دوسری شکست تھی۔
پہلی بڑی شکست ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی شکل میں سامنے آئی۔ وہ انقلابی قوتیں جو بھٹو کی قیادت میں امریکی سامراج کو پاکستان میں شکست دینے کے لیے اکٹھی ہو گئی تھیں اس طاقت کا ایک سازش کے تحت خاتمہ کر دیا گیا اور کیوں نہ ہوتا کہ امریکی سامراج کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے تھے۔ اس کے مفادات نہ صرف پاکستان میں ڈوبتے بلکہ پورے مشرق وسطی میں ڈوب جاتے۔
بے نظیر نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اس سازش کو بھانپ کر این آر او کی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش لیکن سامراجی کارندے انھیں گھیرے میں لے چکے تھے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ چاروں سمت راستے بند تھے۔ شکار ان کے قابو میں آ چکا تھا جس شکار کے لیے وہ 29 سالوں سے سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی والے امریکا کو دہائی دیتے ہی رہ گئے جس نے پاکستان واپسی پر ان کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سے بھی سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں بلکہ کروائی گئیں۔ افغانستان میں سرد جنگ گرم جنگ میں بدلنے والی تھی کیونکہ ایران سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے خاتمے کا خطرہ تھا۔ مذہب کا ہتھیار استعمال کیا گیا جس کا فائدہ سامراج نے پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ اٹھایا۔ مذہبی شدت پسندوں نے بھٹو کو دیوار سے لگا دیا۔ مجاہدین اور ان کے لیڈروں کی تخلیق کی گئی جس کے ذریعے افغانستان کی سامراج مخالف حکومت کا خاتمہ کر کے ایک عظیم خطرے کا سدباب کیا گیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو مشرق وسطی سے پاکستان اور بھارت تک عوام دوست قوتیں امریکی سامراج کو شکست دے دیتیں۔ پاکستان میں اقتدار صرف اسے ہی مل سکتا ہے جو عالمی سامراج اور ان کے (مقامی) ایجنٹوں کی شرطوںکو پورا کرتے ہوئے سامراجی مفادات کی حفاظت کرے ۔ بات ہو رہی تھی کراچی کے پیپلزپارٹی کے جلسے کی۔ پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی گزر چکا۔ بلاول بھٹو کی بات اپنی والدہ اور نانا کی نقالی سے نہیں بنے گی۔ آج کی نوجوان نسل جو پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد ہے انھیں نہیں پتہ کہ بھٹو کا عدالتی قتل کن حالات میں اور کیوں کیا گیا۔
یہ نسل جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت سے بیزار ہے۔ حال ہی میں فلپائن کی پارلیمنٹ میں اینٹی ڈائنسٹی بل پیش کیا گیا ہے۔ عمران قادری صاحب پر آپ کتنی ہی تنقید کر لیں انھوں نے ان خوابوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے جو بھٹو نے عوام کی آنکھوں میں سجائے تھے۔ اشیاء ضرورت اور یوٹیلیٹی بل آدھی قیمت پر روٹی کپڑا مکان ہی تو ہے۔
فرقہ واریت قتل و غارت سے پاک معاشرہ اقلیتوں کا تحفظ کرپشن احتساب میرٹ بے گھروں کو گھر بے زمینوں کو زمین۔ گھر سے لے کر باہر تک خواتین کے حقوق کا تحفظ مردوں کے برابر حقوق عوام کی دل کی آواز ہے۔ وہ ان باتوں پر خیالی جنت کا تصور کر کے ناچ اٹھتے ہیں۔ چاہے یہ پورے ہوں یا نہ ہوں... کوئی تو ان کے حقوق کی بات کر رہاہے۔ بھٹو صاحب نے بھی عوام کے سامنے جب اس جنت کا نقشہ کھینچا تو ہزاروں سال سے پسے ہوئے عوام خوشی سے پاگل ہو گئے۔
بلاول کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے ترکے میں کیا ملا۔ بیڈ گورننس کی نفرت انگیز یادیں' لوڈشیڈنگ کا یہ حال تھا کہ دن میں عوام کام کاج سے محروم تو رات کو نیند سے محروم۔ آج صورت حال پہلے سے بھی بری ہے لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر مہنگی بجلی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے تو عوام کے ایک بڑے حصے نے انتقامی طور پر قسم کھائی کے وہ پیپلزپارٹی کو ہرا کر ہی رہیں گے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کے مایوس ورکر بڑی تعداد میں عمران خان کے حمایتی بن گئے۔
زرداری صاحب جن کا دعویٰ ہے کہ ان کی مقامی اور عالمی حالات پر گہری نظر ہے ان کا پچھلے سال کے الیکشن میں تجزیہ تھا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے ووٹ توڑے گی جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی آسانی سے جیت جائے گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ کہ پیپلزپارٹی کے ووٹرں کی بڑی تعداد نے عمران کو ووٹ دیا۔ ایک ووٹر نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی پر میرے والد صاحب نے تین دن کھانا نہیں کھایا۔ وہ گھرانا اب پیپلز پارٹی کے خلاف ہے۔
لاہور جیسے شہر میں پچھلے الیکشن میں یہ حال تھا کہ بیشتر گلی محلوں میں پارٹی آفس ہی نہیں تھے کیونکہ پیپلزپارٹی کے ورکرز عوام کا سامنا ہی نہیں کر سکتے تھے۔ لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ علاقے میں پیپلزپارٹی کا قومی اور صوبائی امیدوار کون ہے۔ اب تو کشمیرکا نعرہ بھی پنجاب میں کام نہیں آئے گا۔ تو بلاول صاحب اب نہ تو خالی خولی نعروں سے کام چلے گا نہ ہی ماضی کی تاریخ دھرانے سے۔ کچھ کر دکھانا ہو گا۔ کچھ کر دکھانے کے لیے اقتدار کا ہونا پنجاب میں ضروری ہے۔ عوام کے ذہن میں ماضی کی تلخ یادیں بھی زندہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بڑی طویل جدوجہد سے پروپیگنڈا کر کے پیپلز پارٹی کو نفرت کا نشان بنا دیا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ماضی کی بدنامی کے ساتھ آپ دوبارہ کیسے اقتدار میں آئیں گے۔ یا آپ کو آنے دیا جائے گا۔ جب کہ نواز شریف بھی قصہ پارنیہ بننے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے بھی اپنی جان چھڑا لی ہے۔ دوسری طرف عمران قادری نے مضبوطی سے اپنے قدم جما لیے ہیں۔ پہلے پاکستان خاص طور پر پنجاب کی سیاست اینٹی اور پرو پیپلزپارٹی تھی جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں آجاتی تھی لیکن اب اس خلا کو عمران اور قادری نے بڑی کامیابی سے پر کر دیا ہے۔
ماہ محرم نومبر میں خدانخواستہ کوئی ایسا سانحہ ہو سکتا ہے جس کے پاکستان کی سیاست و سماج پر ہولناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیل فون:0346-4527997
اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ کراچی جلسے میں میاں برادران پر اگرچہ تنقید کی گئی لیکن اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا۔ زرداری صاحب کی نواز شریف کی حمایت دیکھ کر پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکنوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری کے پاس اب صرف ایک ہی چوائس ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو بچا لیں یا نواز شریف کو۔ پیپلزپارٹی جس کی بنیاد سوشلزم ہماری معیشت ہے کہ نعرے پر تھی اب ''سرمایہ دارانہ جمہوریت'' بچانے کے لیے نواز شریف کی حمایت کر رہی ہے۔ تاکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو بچایا جاسکے۔
پیپلزپارٹی کب کی سوشلزم کے نعرے سے تائب ہوچکی یعنی 85ء میں جب بے نظیر بھٹو امریکا مغرب سے معاملات طے کر کے واپس پاکستان آئیں۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ وہ پاکستان واپس آ سکتی تھیں اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں حصہ لے سکتی تھیں۔ میری نظر میں یہ ان کی سیاسی غلطی تھی۔ پھر اس کے بعد ان سے غلطیوں پر غلطیاں ہی سرزد ہوتی گئیں۔ طالبان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ میرے بچے ہیں۔
ان کا وزیرداخلہ (ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر) افغانستان میں طالبان کی سرپرستی کرتا رہا۔ پھر پرویز مشرف سے این آر او کرایا گیا جس میں ساری بدنامی بے نظیر کے حصے میں آئی اور سارا کا سارا فائدہ نواز شریف یا مسلم لیگ ن کے حصے میں آیا۔ کمال کی بات ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی بے نظیر کے قتل کو شہادت تسلیم کر لیا جو ان کے والد کے قتل کو شہادت نہ کہہ سکی جو سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوا۔ بے نظیر کے قتل پر دائیں بازو کی قوتیں خوشی سے پھولے نہ سمائیں لیکن مگر مچھ کے آنسو بہانہ بھی ضروری تھا۔ کیونکہ ان کے راستے سے ایک بہت بڑا پہاڑ ہٹ گیا۔
اب دائیں بازو والوں کے سامنے ایک کھلا میدان تھا اور کوئی روکنے والا نہیں۔ بس ''گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے'' کا نقشہ تھا کیونکہ بے نظیر ذوالفقار علی بھٹو کا تسلسل تھیں ان کے قتل سے وہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ پھر جو کچھ سامنے آیا وہ آصف علی زرداری کی عملیت پسند سیاست تھی۔ عوام دوست ترقی پسند قوتوں کو شکست فاش ہوئی۔ یہ دوسری شکست تھی۔
پہلی بڑی شکست ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی شکل میں سامنے آئی۔ وہ انقلابی قوتیں جو بھٹو کی قیادت میں امریکی سامراج کو پاکستان میں شکست دینے کے لیے اکٹھی ہو گئی تھیں اس طاقت کا ایک سازش کے تحت خاتمہ کر دیا گیا اور کیوں نہ ہوتا کہ امریکی سامراج کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے تھے۔ اس کے مفادات نہ صرف پاکستان میں ڈوبتے بلکہ پورے مشرق وسطی میں ڈوب جاتے۔
بے نظیر نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اس سازش کو بھانپ کر این آر او کی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش لیکن سامراجی کارندے انھیں گھیرے میں لے چکے تھے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ چاروں سمت راستے بند تھے۔ شکار ان کے قابو میں آ چکا تھا جس شکار کے لیے وہ 29 سالوں سے سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی والے امریکا کو دہائی دیتے ہی رہ گئے جس نے پاکستان واپسی پر ان کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سے بھی سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں بلکہ کروائی گئیں۔ افغانستان میں سرد جنگ گرم جنگ میں بدلنے والی تھی کیونکہ ایران سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے خاتمے کا خطرہ تھا۔ مذہب کا ہتھیار استعمال کیا گیا جس کا فائدہ سامراج نے پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ اٹھایا۔ مذہبی شدت پسندوں نے بھٹو کو دیوار سے لگا دیا۔ مجاہدین اور ان کے لیڈروں کی تخلیق کی گئی جس کے ذریعے افغانستان کی سامراج مخالف حکومت کا خاتمہ کر کے ایک عظیم خطرے کا سدباب کیا گیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو مشرق وسطی سے پاکستان اور بھارت تک عوام دوست قوتیں امریکی سامراج کو شکست دے دیتیں۔ پاکستان میں اقتدار صرف اسے ہی مل سکتا ہے جو عالمی سامراج اور ان کے (مقامی) ایجنٹوں کی شرطوںکو پورا کرتے ہوئے سامراجی مفادات کی حفاظت کرے ۔ بات ہو رہی تھی کراچی کے پیپلزپارٹی کے جلسے کی۔ پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی گزر چکا۔ بلاول بھٹو کی بات اپنی والدہ اور نانا کی نقالی سے نہیں بنے گی۔ آج کی نوجوان نسل جو پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد ہے انھیں نہیں پتہ کہ بھٹو کا عدالتی قتل کن حالات میں اور کیوں کیا گیا۔
یہ نسل جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت سے بیزار ہے۔ حال ہی میں فلپائن کی پارلیمنٹ میں اینٹی ڈائنسٹی بل پیش کیا گیا ہے۔ عمران قادری صاحب پر آپ کتنی ہی تنقید کر لیں انھوں نے ان خوابوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے جو بھٹو نے عوام کی آنکھوں میں سجائے تھے۔ اشیاء ضرورت اور یوٹیلیٹی بل آدھی قیمت پر روٹی کپڑا مکان ہی تو ہے۔
فرقہ واریت قتل و غارت سے پاک معاشرہ اقلیتوں کا تحفظ کرپشن احتساب میرٹ بے گھروں کو گھر بے زمینوں کو زمین۔ گھر سے لے کر باہر تک خواتین کے حقوق کا تحفظ مردوں کے برابر حقوق عوام کی دل کی آواز ہے۔ وہ ان باتوں پر خیالی جنت کا تصور کر کے ناچ اٹھتے ہیں۔ چاہے یہ پورے ہوں یا نہ ہوں... کوئی تو ان کے حقوق کی بات کر رہاہے۔ بھٹو صاحب نے بھی عوام کے سامنے جب اس جنت کا نقشہ کھینچا تو ہزاروں سال سے پسے ہوئے عوام خوشی سے پاگل ہو گئے۔
بلاول کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے ترکے میں کیا ملا۔ بیڈ گورننس کی نفرت انگیز یادیں' لوڈشیڈنگ کا یہ حال تھا کہ دن میں عوام کام کاج سے محروم تو رات کو نیند سے محروم۔ آج صورت حال پہلے سے بھی بری ہے لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر مہنگی بجلی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے تو عوام کے ایک بڑے حصے نے انتقامی طور پر قسم کھائی کے وہ پیپلزپارٹی کو ہرا کر ہی رہیں گے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کے مایوس ورکر بڑی تعداد میں عمران خان کے حمایتی بن گئے۔
زرداری صاحب جن کا دعویٰ ہے کہ ان کی مقامی اور عالمی حالات پر گہری نظر ہے ان کا پچھلے سال کے الیکشن میں تجزیہ تھا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے ووٹ توڑے گی جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی آسانی سے جیت جائے گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ کہ پیپلزپارٹی کے ووٹرں کی بڑی تعداد نے عمران کو ووٹ دیا۔ ایک ووٹر نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی پر میرے والد صاحب نے تین دن کھانا نہیں کھایا۔ وہ گھرانا اب پیپلز پارٹی کے خلاف ہے۔
لاہور جیسے شہر میں پچھلے الیکشن میں یہ حال تھا کہ بیشتر گلی محلوں میں پارٹی آفس ہی نہیں تھے کیونکہ پیپلزپارٹی کے ورکرز عوام کا سامنا ہی نہیں کر سکتے تھے۔ لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ علاقے میں پیپلزپارٹی کا قومی اور صوبائی امیدوار کون ہے۔ اب تو کشمیرکا نعرہ بھی پنجاب میں کام نہیں آئے گا۔ تو بلاول صاحب اب نہ تو خالی خولی نعروں سے کام چلے گا نہ ہی ماضی کی تاریخ دھرانے سے۔ کچھ کر دکھانا ہو گا۔ کچھ کر دکھانے کے لیے اقتدار کا ہونا پنجاب میں ضروری ہے۔ عوام کے ذہن میں ماضی کی تلخ یادیں بھی زندہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بڑی طویل جدوجہد سے پروپیگنڈا کر کے پیپلز پارٹی کو نفرت کا نشان بنا دیا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ماضی کی بدنامی کے ساتھ آپ دوبارہ کیسے اقتدار میں آئیں گے۔ یا آپ کو آنے دیا جائے گا۔ جب کہ نواز شریف بھی قصہ پارنیہ بننے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے بھی اپنی جان چھڑا لی ہے۔ دوسری طرف عمران قادری نے مضبوطی سے اپنے قدم جما لیے ہیں۔ پہلے پاکستان خاص طور پر پنجاب کی سیاست اینٹی اور پرو پیپلزپارٹی تھی جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں آجاتی تھی لیکن اب اس خلا کو عمران اور قادری نے بڑی کامیابی سے پر کر دیا ہے۔
ماہ محرم نومبر میں خدانخواستہ کوئی ایسا سانحہ ہو سکتا ہے جس کے پاکستان کی سیاست و سماج پر ہولناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیل فون:0346-4527997