سیاست دانوں کی بیگمات
اقبال کی آفاقی شاعری اور مسلمانوں کو جگانے کا کام اتنا عظیم تر تھا کہ بڑے سے بڑے کام سے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
ISLAMABAD:
کالم کا عنوان بڑا خطرناک ہے، کسی کی بیوی کے بارے میں بات کرنا کوئی اچھی بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ فنکاروں اور کھلاڑیوں کی طرح سیاست دانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھا جاتا ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیاست دانوں کو اس میدان میں آنے کے لیے کس قدر قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
ہمارے مخاطب وہ قارئین ہیں جو خبروں کے صفحات کے مطالعے کے بعد ادارتی صفحے تک آچکے ہیں۔ ان کا یہ عمل نہ صرف ان کی دانش ثابت کرتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ دیتا ہے کہ انھیں سیاست سے کس قدر دلچسپی ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ علم ضرور ہونا چاہیے کہ ان کے جانے پہچانے سیاست دانوں کو اس خارزار میں چہل قدمی کے لیے اپنے پائوں کس قدر زخمی کرنے پڑے ہیں۔
قائداعظم، گاندھی، نہرو، علامہ اقبال، مولانا مودودی، میاں طفیل، عمران خان، الطاف حسین اور نریندر مودی پر گفتگو سے پہلے یہ انسانی نفسیات سمجھ لیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں ایک بیوی، دو بچے، تین کمروں کا فلیٹ، چار پہیوں والی گاڑی اور پانچ ہندسوں والا بینک بیلنس کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ بات کہی گئی تھی کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت کی خواہشات ان ہی دائروں کے گرد گھومتی ہیں جو اس سطح سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔
انھیں ایثار کے بلند تر درجے پر فائز ہونا پڑتا ہے۔ وہ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو پورے ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھنے کے لیے انھیں اپنے بچوں کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ یقین جانیے کہ اگر ایسے لوگ یہ عظیم ایثار نہ کریں تو سلطنت کے بڑے حصے اندھیرے میں ڈوبے رہیں۔ ایک بڑے مقصد کو سمجھنے کی خاطر ہم برصغیر پاک و ہند کے سیاست دانوں کی بیگمات پر گفتگو کررہے ہیں۔
محمد علی جناح کی پہلی شادی ان کے بیرسٹری کے لیے لندن جانے سے قبل ہی کردی گئی تھی۔ کم عمر طالب علم کی شریک حیات جلد دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ قائد نے دوسری شادی بیالیس برس کی عمر میں کی۔ سیاست میں وقت دینا دوری کا سبب بنا۔ یہ شادی گیارہ سال رہی اور رتی جناح 1929 میں انتقال کرگئیں۔ 54 سال کی عمر کوئی زیادہ نہ تھی لیکن بڑے مقصد کی خاطر قائد نے یہ زنجیر ایک بار پھر اپنے پائوں میں ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔
گاندھی کی بیوی نے ہر مشکل میں ان کا ساتھ دیا۔ قوم کی رہنمائی اور آزادی کے لیے ہندوستان کے ''باپو'' کو اتنا وقت دینا پڑا کہ اولاد سے توجہ ہٹ گئی۔ ان کا ایک بیٹا بگڑگیا جس پر بھارت میں ایک فلم ''گاندھی مائی فادر'' بنائی گئی ہے۔ نہرو کی بیوی بھی جلد رخصت ہوگئیں۔ اندرا ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔ جواہر لال نے پھر شادی کی زنجیر نہ پہنی۔ علامہ اقبال کے بارے میں ان کے بیٹے جاوید اقبال نے کہا کہ والدہ ان سے کہتیں کہ آپ وکالت کیوں نہیں کرتے؟ گویا شاعری تو کوئی پیسے نہیں دیتی کہ گھر کا خرچ چلے۔
وکالت سے کچھ پیسے ملیں تو چولہا جلے۔ اقبال کی آفاقی شاعری اور مسلمانوں کو جگانے کا کام اتنا عظیم تر تھا کہ بڑے سے بڑے کام سے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قائد کو قوم کی رہنمائی کے لیے واپس لانا اور برصغیر کے سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے سے بھی بڑا کوئی کام ہوسکتا تھا؟ بیویاں وقت کے اس نازک لمحے میں اپنے شوہر کی عظمت سے ناواقف رہتی ہیں۔ بیگمات کی اپنی گھریلو مجبوریاں ہوتی ہیں جب کہ دانشور خاوند جانتا ہے کہ اس کا کام کتنا لازمی ہے۔
مولانا مودودی کی اہلیہ نے بچے سے کہاکہ کمپائونڈر کو بلالو کہ ایک بیٹے کو انجکشن لگانا ہے۔ وہ نہیں آیا اور کہلوا بھیجا کہ تمہارے گھر میں ڈاکٹر ہے اس سے ٹیکا لگوا لو۔ مولانا مودودی نے پوچھا کہ ہمارے گھر میں کون سا ڈاکٹر ہے۔ محمودہ بیگم نے کہاکہ فاروق ایم بی بی ایس کے تیسرے سال میں ہے۔
بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے لیکن باپ کی سیاسی و تحریکی مصروفیات اس قدر ہیں کہ گھر کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں۔ میاں طفیل کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹوں نے کہاکہ ہمیں تو اسکولوں میں ہمارے چچا و ماموئوں اور پڑوسیوں نے داخل کروایا۔ والد تو جماعت اسلامی میں ہی مصروف تھے۔ رشتے داروں نے اندازے سے تاریخ پیدائش لکھوائی اور یوں بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا لکھوا دیا۔
عمران خان اور الطاف حسین پر گفتگو سے قبل بھارت چلتے ہیں۔ نریندر مودی تو شادی کے ابتدائی برسوں بعد ہی ازدواجی بندھن کا رسا تڑوا کر سیاست میں آگئے تھے۔ اسی طرح اٹل بہاری واجپائی جیسے سیاست دان اور ابوالکلام جیسے سائنسدان کنوارے ہی رہے۔ 45 سالہ راہول گاندھی اب تک سہرا سجانے سے گریزاں ہیں۔ الطاف حسین اور عمران خان کی ازدواجی زندگی میں یکسانیت ہے۔ دونوں نے تاخیر سے شادی کی۔ عمران نے کرکٹ اور الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے سبب۔ جب دونوں نے شادی کی تو سیاست دونوں کے ذہنوں پر سوار رہی۔
ایک مقصد سے اخلاص نے دوسرے شعبے کو کمزور کردیا یوں پاکستان کے دو بڑے سیاست دان اپنی شریک حیات سے الگ ہوگئے ہیں۔ دونوں کی اولاد ان کی مائوں کے پاس ہیں جب کہ الطاف حسین کی افضا اور عمران کی سلیمان و قاسم سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ سیاست دانوں کو اکثر ملک و قوم کی رہنمائی کی خاطر اپنی ازدواجی زندگی کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ تمام لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ اس میں کچھ خوش نصیب بھی ہوتے ہیں۔
لیاقت علی خان کی بیگم رعنا سے خوشگوار زندگی گزری، اسی طرح بھٹو کی نصرت بھٹو اور نواز شریف کی بیگم کلثوم سے خوشی اور غمی میں ساتھ دینے کی عمدہ تاریخ ہے۔ جنرل ضیا اور پرویز مشرف سیاست دان تو نہیں لیکن بیس برسوں تک پاکستان پر حکومت کرنے والے ان دو سربراہوں کی عمدہ گھریلو زندگی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ شفیقہ ضیا اور صہبا مشرف نے ہر ہر موقع پر شریک حیات کا ساتھ نبھایا۔ ہر کوئی ایسا خوش قسمت نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب بھی عظیم سیاست دانوں کو اپنے گھر اور اپنے بچوں کو نظر انداز کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے ملک و قوم کی خاطر قربانی دی۔ جب ان عمدہ انسانوں کو اہل وطن اور اہلیہ میں سے کسی ایک سے فاصلہ رکھنے کا مسئلہ درپیش آیا تو انھوں نے بڑے مقصد کو چنا۔ بڑے سیاست دانوں سے علیحدگی ان خواتین کے لیے المیہ رہا جو کبھی کہلائیں سیاست دانوں کی بیگمات۔