ملالہ سے ایدھی تک
وہ 1995 کا زمانہ جب کراچی کو دنیا کا دوسرے نمبر پر سب سے خطرناک شہر مانا جاتا تھا،آج لگتا ہےکہ اس وقت حالات بہتر تھے۔
کچھ ہفتے پہلے ملالہ کو نوبل پرائز ملا، کئی لوگوں کو اس پر اعتراض تھا، ملالہ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر ان کو دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ مل جائے، ایسا کئی پاکستانیوں کا خیال ہے جب کہ ملالہ کا پاکستان کے جس علاقے سے تعلق ہے وہ اس کی برائی کرنے میں کسر نہیں چھوڑتیں لیکن حیران کن طور پر جو ملالہ کے ایوارڈ کے حق میں سب سے زیادہ ہیں ان کا تعلق پختونخوا سے ہی ہے، وہاں کے لوگوں کو یہ ان کی اپنی جیت لگتی ہے لیکن بقیہ پاکستان کی سوچ کچھ مختلف ہے۔
ملالہ پاکستان میں ہمیشہ بحث کا موضوع بنی رہیںگی لیکن ہمارے بیچ ایک ایسا شخص ہے جو نوبل پرائز کا حق دار ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ ''عبدالستار ایدھی'' وہ نام کہ جو پاکستان کے لیے نہیں دنیا بھر کے لیے مثال ہیں۔
1951 میں ایک کمرے سے شروع ہونے والے ''ایدھی ٹرسٹ'' کی عبدالستار ایدھی نے اکیلے بنیاد رکھی، ایدھی جو آج بھی 85 سال کی عمر میں اسی امنگ سے وہ ٹرسٹ چلارہے ہیں جسے آج سے 63 سال پہلے ان کے ساتھ ان کی بیگم بلقیس ایدھی اڈاپشن اور میٹرنٹی سروسز چلارہی ہیں۔
آج ایدھی ٹرسٹ کے تین سو سے زائد سینٹرز ملک بھر میں موجود ہیں جن میں فیملی پلاننگ، میڈیکل ایڈ اور ہر طرح کی ایمرجنسی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، ایئر ایمبولینس کا سلسلہ بھی ایدھی ٹرسٹ نے ہی شروع کیا۔
صرف کراچی میں ہی ایدھی ٹرسٹ کے آٹھ اسپتال ہیں جہاں مفت میڈیکل کیئر، آئی اسپتال، سرجیکل یونٹ، کینسر اسپتال، ذیابیطس سینٹر اور درجنوں موبائل یونٹس ہیں۔
آج تک ایدھی بیس ہزار ایسے بچوں کو پناہ دے چکے ہیں جنھیں ان کے والدین نے سڑکوں پر چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح پچاس ہزار سے زیادہ بچے ایدھی Orphanage Home میں رہتے ہیں، ایک ملین سے زیادہ بچے ان مائوں نے ایدھی ٹرسٹ کے اسپتالوں میں ڈلیور کیے ہیں جو اسپتال کے اخراجات نہیں برداشت کرسکتی تھیں۔
ایدھی ٹرسٹ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک نہایت کامیابی سے چلا رہا ہے، گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق کوئی اور ایسا ادارہ نہیں جن کے پاس سات سو ایمبولینس ہوں۔
ایدھی ٹرسٹ کے سارے فنڈز عطیات کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، ہمارے آپ کے جیسے عام لوگوں کی مدد سے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کئی سال پہلے میں اپنے والد قمر علی عباسی کے ساتھ ایدھی صاحب سے ملنے ان کے دفتر گیا تھا تو ان کے سینٹر میں رکھی الماریوں میں لاکھوں روپے کھلے رکھے تھے۔ میرے والد نے پوچھا یہ اتنے بہت سارے روپے یوں کھلے عام رکھے ہیں، کیا اس رقم کو کوئی خطرہ نہیں؟ انھوں نے جواب دیا ''یہ غریبوں کے پیسے ہیں بھلا انھیں کون لوٹے گا؟'' ان کا انسانیت پر یقین دیکھ کر اچھا لگا۔
کئی سال گزر گئے، پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، وہ 1995 کا زمانہ جب کراچی کو دنیا کا دوسرے نمبر پر سب سے خطرناک شہر مانا جاتا تھا، آج لگتا ہے کہ اس وقت حالات بہتر تھے۔ پچھلے کئی سال میں پاکستان سے متعلق اتنی بری خبریں آئی ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہوگئی ہے، صرف میں ہی نہیں دنیا میں ہزاروں ایسے پاکستانی ہیں کہ جنھوں نے پاکستان کے بارے میں بری خبریں سن کر بھی یہ سوچ کر اطمینان کیا کہ وہاں عبدالستار ایدھی جیسے لوگ موجود ہیں۔
وہ کھلی ٹین کی الماری جو کئی سال پہلے میں نے ایدھی صاحب کے پیچھے رکھی دیکھی تھی اس کا ذکر میں نے کئی ایسے لوگوں کے سامنے کیا جو پاکستان کے بارے میں صحیح طرح نہیں جانتے تھے لیکن اب وہ ذکر میں نہیں کر پاؤں گا کیوں کہ اب میرے ملک سے انسانیت بھی لوٹ لی گئی ہے، وہ کھلی الماری کچھ ظالم لوٹ کر لے گئے، وہ جن کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ دن پہلے صبح پونے دس بجے پانچ ڈاکو میٹھادر میں واقع ایدھی فائونڈیشن کے دفتر میں گھس گئے، ایک شخص نے اندر کے کمرے میں جاکر سوئے ہوئے ایدھی صاحب کو اٹھایا اور بندوق تان کر ان سے سیف کی چابی مانگی، جس پر انھوں نے ڈاکوئوں کو بتایاکہ چابی میری بیوی کے پاس ہے جو اس وقت یہاں نہیں ہے، ڈاکو جن کی عمر 35،30 سال کے درمیان تھی ان کو معلوم تھا کہ سیف کہاں ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو وہاں کی جانکاری کسی اندر کام کرنے والے نے فراہم کی تھی۔
چابی نہ ملنے پر انھوں نے دو سیف توڑ کر اس میں سے سونا اور کرنسی نکال لی۔ جب کہ ایک سیف توڑنے میں ناکام رہے۔ اس دوران وہ فون پر رابطہ کرکے مستقل کسی سے ہدایت لے رہے تھے جو انھیں بار بار یہ بتارہا تھا کہ انسانیت کو کس طرح لوٹنا چاہیے۔
لٹیرے تیس ملین روپے کی مالیت کا سونا چاندی اور کرنسی لے گئے۔ وزیراعظم سے لے کر بلاول زرداری تک نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، نیوز چینل پر سب ہی ٹاک شوز میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ جب ایدھی صاحب کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کا ہر سسٹم پوری طرح فیل ہوچکا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی غصے سے بھرے پاکستانیوں کا سیلاب امڈا ہوا تھا۔
ایدھی صاحب نے بھی بیان دیا کہ وہ بہت دل شکستہ ہیں اس سانحے پر۔ اس وقت ایدھی ٹرسٹ کو بڑا فنڈ وہ پاکستانی دیتے ہیں جو امریکا، یوکے اور جاپان میں رہتے ہیں۔ ایک بات جو ان لٹیروں نے نہیں سوچی کہ اس ڈاکے سے ایدھی ٹرسٹ کا نام خراب ہوگا۔ کئی لوگ اب شاید پیسے دینے سے ہچکچائیںگے، ایدھی ٹرسٹ کا سارا کام ''ٹرسٹ'' پر چلتا ہے اور وہ ''ٹرسٹ'' صرف ان پانچ لوگوں نے تیس ملین لوٹ کر بلی چڑھا دیا۔
اگر آنے والے کل میں لوگ ایدھی ٹرسٹ کو پیسہ دینے میں کتراتے ہیں اور ایدھی صاحب وہ سب کچھ نہیں کرپاتے جو آج کررہے ہیں تو اس کا سارا گناہ ان ڈاکوئوں کے سر ہوگا۔
اگر یہ کالم ان ڈاکوئوں میں سے کوئی پڑھ رہا ہے تو ان کے لیے خبر ہے کبھی نہ کبھی کسی ڈاکے کی واردات میں وہ مارے جائیںگے یا پولیس مقابلے میں پکڑے جائیںگے، جس کے بعد ان کے بچے یتیم ہوکر سڑکوں پر دھکے کھائیںگے کیوں کہ وہ شخص جو ان کے سر پر ہاتھ رکھ سکتا تھا، ان کو دو وقت کی روٹی عزت سے کھلاسکتا تھا، اسے تو تم پہلے لوٹ چکے۔
ملالہ پاکستان میں ہمیشہ بحث کا موضوع بنی رہیںگی لیکن ہمارے بیچ ایک ایسا شخص ہے جو نوبل پرائز کا حق دار ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ ''عبدالستار ایدھی'' وہ نام کہ جو پاکستان کے لیے نہیں دنیا بھر کے لیے مثال ہیں۔
1951 میں ایک کمرے سے شروع ہونے والے ''ایدھی ٹرسٹ'' کی عبدالستار ایدھی نے اکیلے بنیاد رکھی، ایدھی جو آج بھی 85 سال کی عمر میں اسی امنگ سے وہ ٹرسٹ چلارہے ہیں جسے آج سے 63 سال پہلے ان کے ساتھ ان کی بیگم بلقیس ایدھی اڈاپشن اور میٹرنٹی سروسز چلارہی ہیں۔
آج ایدھی ٹرسٹ کے تین سو سے زائد سینٹرز ملک بھر میں موجود ہیں جن میں فیملی پلاننگ، میڈیکل ایڈ اور ہر طرح کی ایمرجنسی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، ایئر ایمبولینس کا سلسلہ بھی ایدھی ٹرسٹ نے ہی شروع کیا۔
صرف کراچی میں ہی ایدھی ٹرسٹ کے آٹھ اسپتال ہیں جہاں مفت میڈیکل کیئر، آئی اسپتال، سرجیکل یونٹ، کینسر اسپتال، ذیابیطس سینٹر اور درجنوں موبائل یونٹس ہیں۔
آج تک ایدھی بیس ہزار ایسے بچوں کو پناہ دے چکے ہیں جنھیں ان کے والدین نے سڑکوں پر چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح پچاس ہزار سے زیادہ بچے ایدھی Orphanage Home میں رہتے ہیں، ایک ملین سے زیادہ بچے ان مائوں نے ایدھی ٹرسٹ کے اسپتالوں میں ڈلیور کیے ہیں جو اسپتال کے اخراجات نہیں برداشت کرسکتی تھیں۔
ایدھی ٹرسٹ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک نہایت کامیابی سے چلا رہا ہے، گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق کوئی اور ایسا ادارہ نہیں جن کے پاس سات سو ایمبولینس ہوں۔
ایدھی ٹرسٹ کے سارے فنڈز عطیات کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، ہمارے آپ کے جیسے عام لوگوں کی مدد سے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کئی سال پہلے میں اپنے والد قمر علی عباسی کے ساتھ ایدھی صاحب سے ملنے ان کے دفتر گیا تھا تو ان کے سینٹر میں رکھی الماریوں میں لاکھوں روپے کھلے رکھے تھے۔ میرے والد نے پوچھا یہ اتنے بہت سارے روپے یوں کھلے عام رکھے ہیں، کیا اس رقم کو کوئی خطرہ نہیں؟ انھوں نے جواب دیا ''یہ غریبوں کے پیسے ہیں بھلا انھیں کون لوٹے گا؟'' ان کا انسانیت پر یقین دیکھ کر اچھا لگا۔
کئی سال گزر گئے، پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، وہ 1995 کا زمانہ جب کراچی کو دنیا کا دوسرے نمبر پر سب سے خطرناک شہر مانا جاتا تھا، آج لگتا ہے کہ اس وقت حالات بہتر تھے۔ پچھلے کئی سال میں پاکستان سے متعلق اتنی بری خبریں آئی ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہوگئی ہے، صرف میں ہی نہیں دنیا میں ہزاروں ایسے پاکستانی ہیں کہ جنھوں نے پاکستان کے بارے میں بری خبریں سن کر بھی یہ سوچ کر اطمینان کیا کہ وہاں عبدالستار ایدھی جیسے لوگ موجود ہیں۔
وہ کھلی ٹین کی الماری جو کئی سال پہلے میں نے ایدھی صاحب کے پیچھے رکھی دیکھی تھی اس کا ذکر میں نے کئی ایسے لوگوں کے سامنے کیا جو پاکستان کے بارے میں صحیح طرح نہیں جانتے تھے لیکن اب وہ ذکر میں نہیں کر پاؤں گا کیوں کہ اب میرے ملک سے انسانیت بھی لوٹ لی گئی ہے، وہ کھلی الماری کچھ ظالم لوٹ کر لے گئے، وہ جن کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ دن پہلے صبح پونے دس بجے پانچ ڈاکو میٹھادر میں واقع ایدھی فائونڈیشن کے دفتر میں گھس گئے، ایک شخص نے اندر کے کمرے میں جاکر سوئے ہوئے ایدھی صاحب کو اٹھایا اور بندوق تان کر ان سے سیف کی چابی مانگی، جس پر انھوں نے ڈاکوئوں کو بتایاکہ چابی میری بیوی کے پاس ہے جو اس وقت یہاں نہیں ہے، ڈاکو جن کی عمر 35،30 سال کے درمیان تھی ان کو معلوم تھا کہ سیف کہاں ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو وہاں کی جانکاری کسی اندر کام کرنے والے نے فراہم کی تھی۔
چابی نہ ملنے پر انھوں نے دو سیف توڑ کر اس میں سے سونا اور کرنسی نکال لی۔ جب کہ ایک سیف توڑنے میں ناکام رہے۔ اس دوران وہ فون پر رابطہ کرکے مستقل کسی سے ہدایت لے رہے تھے جو انھیں بار بار یہ بتارہا تھا کہ انسانیت کو کس طرح لوٹنا چاہیے۔
لٹیرے تیس ملین روپے کی مالیت کا سونا چاندی اور کرنسی لے گئے۔ وزیراعظم سے لے کر بلاول زرداری تک نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، نیوز چینل پر سب ہی ٹاک شوز میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ جب ایدھی صاحب کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کا ہر سسٹم پوری طرح فیل ہوچکا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی غصے سے بھرے پاکستانیوں کا سیلاب امڈا ہوا تھا۔
ایدھی صاحب نے بھی بیان دیا کہ وہ بہت دل شکستہ ہیں اس سانحے پر۔ اس وقت ایدھی ٹرسٹ کو بڑا فنڈ وہ پاکستانی دیتے ہیں جو امریکا، یوکے اور جاپان میں رہتے ہیں۔ ایک بات جو ان لٹیروں نے نہیں سوچی کہ اس ڈاکے سے ایدھی ٹرسٹ کا نام خراب ہوگا۔ کئی لوگ اب شاید پیسے دینے سے ہچکچائیںگے، ایدھی ٹرسٹ کا سارا کام ''ٹرسٹ'' پر چلتا ہے اور وہ ''ٹرسٹ'' صرف ان پانچ لوگوں نے تیس ملین لوٹ کر بلی چڑھا دیا۔
اگر آنے والے کل میں لوگ ایدھی ٹرسٹ کو پیسہ دینے میں کتراتے ہیں اور ایدھی صاحب وہ سب کچھ نہیں کرپاتے جو آج کررہے ہیں تو اس کا سارا گناہ ان ڈاکوئوں کے سر ہوگا۔
اگر یہ کالم ان ڈاکوئوں میں سے کوئی پڑھ رہا ہے تو ان کے لیے خبر ہے کبھی نہ کبھی کسی ڈاکے کی واردات میں وہ مارے جائیںگے یا پولیس مقابلے میں پکڑے جائیںگے، جس کے بعد ان کے بچے یتیم ہوکر سڑکوں پر دھکے کھائیںگے کیوں کہ وہ شخص جو ان کے سر پر ہاتھ رکھ سکتا تھا، ان کو دو وقت کی روٹی عزت سے کھلاسکتا تھا، اسے تو تم پہلے لوٹ چکے۔