جھوٹ یا سیاست اور عوام
سیاست جھوٹ بولے بغیر چل نہیں سکتی۔ عوام سے جھوٹے وعدے نہ کیے جائیں تو وہ متاثر نہیں ہوتے۔
PESHAWAR:
اسلام آباد کے دھرنوں نے ہمارے سیاستدانوں پر جھوٹ بولنے کے الزامات بڑھا دیے ہیں اور ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان کا نام عمران جھوٹ خان رکھ دیا جائے جب کہ عمران خان وزیراعظم نواز شریف سمیت وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے میں اپنے خطاب کا آغاز ہی او جھوٹو! سے بھی کرچکے ہیں۔
عمران خان پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہی مسلسل جھوٹ بولنے کے الزامات نہیں لگائے بلکہ میڈیا نے بھی عمران خان کے جھوٹوں کی فوٹیج اور تردیدیں دکھا دکھا کر عوام کو پریشان کردیا کہ کس بات پر یقین کیا جائے۔
دھرنوں سے قبل الیکٹرونک میڈیا نے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی عام انتخابات سے قبل لوڈشیڈنگ ختم کردینے کے دعوؤں کی مختلف فوٹیج بھی دکھائیں۔ ٹی وی چینلوں پر دھرنوں کے دوران عمران خان ہی نہیں بلکہ علامہ طاہر القادری کی طرف سے دی گئی تاریخوں اور ان کے بدلتے بیانات کے کلپ بھی متعدد بار دکھائے گئے۔
دھرنے کے دونوں قائدین اور وزیروں پر ہی نہیں بلکہ خود وزیراعظم پر بھی جھوٹ بولنے کے الزامات متواتر لگ رہے ہیں اور وزیراعظم کے ایک جھوٹ بولنے کے الزام پر ان کی نااہلی کے لیے معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ دو ماہ کے دھرنے کے بعد علامہ طاہر القادری نے اپنا پہلا جلسہ فیصل آباد میں کیا اور جمعہ کو اسلام آباد دھرنے میں آکر انھوں نے فیصل آباد کے ایک جلسے کو متعدد جلسے سمجھ کر کہہ دیا کہ پیٹ کے جلسوں سے حکومت بوکھلا گئی ہے۔
موجودہ دور میں جھوٹ کو ہی سیاست سمجھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے ہی کامیاب اور مقبول سیاستدان تصور ہونے لگے ہیں اور سچ تو سیاست سے رخصت ہو چکا ہے اور اب سیاست میں اس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ وہ سچ ہی لگنے لگتا ہے کیونکہ سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ بعض مذہبی رہنما بھی جب جھوٹ بولنے لگیں اور اپنی سیاست کی بقا کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے لگیں تو ان کے مخالف ان کے جھوٹ کو سچ مانیں نہ مانیں مگر ان کے پیروکار، عقیدت مند اور کارکن اپنے قائد کے جھوٹ کو بھی سچ مانتے ہیں۔
قائد اگر دن کو رات کہے تو کسی میں جرأت نہیں ہوتی کہ انھیں بتائے کہ حضور ابھی دن ہی ہے رات نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کو جب جنرل پرویز مشرف نے ایک تحریری معاہدے کے تحت جلاوطن کیا تھا تو تب بھی انھوں نے کسی ڈیل سے انکار کیا تھا اور 2007 میں جب وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرکے لاہور آئے تب بھی انھوں نے کسی معاہدے سے انکار کیا تھا اور معاہدے کے ضامنوں نے معاہدے کا بھانڈا پاکستان آکر پھوڑ دیا تھا ۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے 2013 کی انتخابی مہم کے دوران ایسے ہی وعدے اور اعلانات کیے تھے جیسے آج کل عمران خان اور طاہر القادری کر رہے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے قبل انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی معیشت اور حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق وقت پر لوڈشیڈنگ ختم کراسکیں گے نہ دیگر وعدے پورے کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی کے قیام کے وقت ملک کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر یہ تینوں چیزیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی وفاق میں چار حکومتیں گزشتہ 15 سال میں قائم ہوئیں مگر روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے وعدے کا کیا ہوا یہ دنیا جانتی ہے۔
غریب عوام کو تو پی پی دور میں پینے کا صاف پانی تک نہیں ملا مگر گزشتہ 3 سال قبل سندھ میں آنے والے سیلاب کے پانی نے جنھیں برباد کیا وہ بھی اب تک بحال نہیں ہوئے اور انھیں کراچی میں فلیٹ اور پلاٹ دینے کا وعدہ کرنے والیوزیر بدین میں اپنے بنگلے میں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے کہنے پر کراچی آنے والی متاثرہ خواتین آج بھی کراچی میں مساجد کے باہر خیرات مانگتی نظر آتی ہیں۔
پاکستانی قوم کو بھلکڑ قوم کہا جاتا ہے جو سیاستدانوں کی جھوٹی باتوں میں آجاتی ہے اور سیاستدانوں کے ماضی میں کیے گئے جھوٹے وعدے بھول جاتی ہے۔ چاروں صوبوں میں اب بھی عوام کی اکثریت غربت کا شکار ہی نہیں بلکہ ان کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے مگر زمینداروں، پیروں، خانوں، چوہدریوں، سرداروں اور جھوٹ بولنے کے عادی سیاستدانوں کے چنگل میں جکڑی قوم کی حالت میں بہتری نہیں آرہی اور اب بھی ان سے جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں۔
کوئی انھیں نئے پاکستان کا خواب دکھا رہا ہے تو کوئی انھیں انقلاب کی نوید دے رہا ہے اور ڈیڑھ سال قبل مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بھی عوام کو خواب دکھا کر ووٹ لیے تھے مگر بجلی اور گیس تو وہ کیا دیتے انھوں نے مہنگائی بڑھاکر عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید دھکیل دیا ہے اور اتنا مجبور کردیا ہے کہ ملک بھر میں گو نواز گو کا نعرہ فروغ پا چکا ہے اور حکمرانوں کے تعاقب میں ہے۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں مبینہ جھوٹ بول کر امین نہ رہنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے جس پر ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ ایک شخص کو پھنسانے کا مقدمہ نہیں کہ ایک شخص نے جھوٹ بولا ہو۔ یہ بات بڑھی تو بہت آگے تک جائے گی۔ سیاستدان تو جھوٹ بول کر ہی سیاست کرتے ہیں۔ عوام سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ وعدے پورے نہیں کیے جاتے اور عدالتوں میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے۔
سیاست جھوٹ بولے بغیر چل نہیں سکتی۔ عوام سے جھوٹے وعدے نہ کیے جائیں تو وہ متاثر نہیں ہوتے۔ جو سیاسی لیڈر جتنا بڑا جھوٹ بولتا ہے عوام اس کے حق میں اتنے ہی بلند نعرے لگاتے ہیں اور لیڈر کی ہر بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ عوام تو کیا اب کسی پارٹی کا چھوٹا لیڈر بھی اپنے قائد کو جھوٹ بولنے سے روکنا نہیں چاہتا کہ کہیں قائد ناراض نہ ہوجائے اور جب عوام ہی جھوٹے وعدوں کے عادی ہوجائیں تو ہمارے رہنما جھوٹ نہ بولیں تو کیا کریں؟
اسلام آباد کے دھرنوں نے ہمارے سیاستدانوں پر جھوٹ بولنے کے الزامات بڑھا دیے ہیں اور ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان کا نام عمران جھوٹ خان رکھ دیا جائے جب کہ عمران خان وزیراعظم نواز شریف سمیت وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے میں اپنے خطاب کا آغاز ہی او جھوٹو! سے بھی کرچکے ہیں۔
عمران خان پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہی مسلسل جھوٹ بولنے کے الزامات نہیں لگائے بلکہ میڈیا نے بھی عمران خان کے جھوٹوں کی فوٹیج اور تردیدیں دکھا دکھا کر عوام کو پریشان کردیا کہ کس بات پر یقین کیا جائے۔
دھرنوں سے قبل الیکٹرونک میڈیا نے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی عام انتخابات سے قبل لوڈشیڈنگ ختم کردینے کے دعوؤں کی مختلف فوٹیج بھی دکھائیں۔ ٹی وی چینلوں پر دھرنوں کے دوران عمران خان ہی نہیں بلکہ علامہ طاہر القادری کی طرف سے دی گئی تاریخوں اور ان کے بدلتے بیانات کے کلپ بھی متعدد بار دکھائے گئے۔
دھرنے کے دونوں قائدین اور وزیروں پر ہی نہیں بلکہ خود وزیراعظم پر بھی جھوٹ بولنے کے الزامات متواتر لگ رہے ہیں اور وزیراعظم کے ایک جھوٹ بولنے کے الزام پر ان کی نااہلی کے لیے معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ دو ماہ کے دھرنے کے بعد علامہ طاہر القادری نے اپنا پہلا جلسہ فیصل آباد میں کیا اور جمعہ کو اسلام آباد دھرنے میں آکر انھوں نے فیصل آباد کے ایک جلسے کو متعدد جلسے سمجھ کر کہہ دیا کہ پیٹ کے جلسوں سے حکومت بوکھلا گئی ہے۔
موجودہ دور میں جھوٹ کو ہی سیاست سمجھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے ہی کامیاب اور مقبول سیاستدان تصور ہونے لگے ہیں اور سچ تو سیاست سے رخصت ہو چکا ہے اور اب سیاست میں اس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ وہ سچ ہی لگنے لگتا ہے کیونکہ سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ بعض مذہبی رہنما بھی جب جھوٹ بولنے لگیں اور اپنی سیاست کی بقا کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے لگیں تو ان کے مخالف ان کے جھوٹ کو سچ مانیں نہ مانیں مگر ان کے پیروکار، عقیدت مند اور کارکن اپنے قائد کے جھوٹ کو بھی سچ مانتے ہیں۔
قائد اگر دن کو رات کہے تو کسی میں جرأت نہیں ہوتی کہ انھیں بتائے کہ حضور ابھی دن ہی ہے رات نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کو جب جنرل پرویز مشرف نے ایک تحریری معاہدے کے تحت جلاوطن کیا تھا تو تب بھی انھوں نے کسی ڈیل سے انکار کیا تھا اور 2007 میں جب وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرکے لاہور آئے تب بھی انھوں نے کسی معاہدے سے انکار کیا تھا اور معاہدے کے ضامنوں نے معاہدے کا بھانڈا پاکستان آکر پھوڑ دیا تھا ۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے 2013 کی انتخابی مہم کے دوران ایسے ہی وعدے اور اعلانات کیے تھے جیسے آج کل عمران خان اور طاہر القادری کر رہے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے قبل انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی معیشت اور حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق وقت پر لوڈشیڈنگ ختم کراسکیں گے نہ دیگر وعدے پورے کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی کے قیام کے وقت ملک کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر یہ تینوں چیزیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی وفاق میں چار حکومتیں گزشتہ 15 سال میں قائم ہوئیں مگر روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے وعدے کا کیا ہوا یہ دنیا جانتی ہے۔
غریب عوام کو تو پی پی دور میں پینے کا صاف پانی تک نہیں ملا مگر گزشتہ 3 سال قبل سندھ میں آنے والے سیلاب کے پانی نے جنھیں برباد کیا وہ بھی اب تک بحال نہیں ہوئے اور انھیں کراچی میں فلیٹ اور پلاٹ دینے کا وعدہ کرنے والیوزیر بدین میں اپنے بنگلے میں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے کہنے پر کراچی آنے والی متاثرہ خواتین آج بھی کراچی میں مساجد کے باہر خیرات مانگتی نظر آتی ہیں۔
پاکستانی قوم کو بھلکڑ قوم کہا جاتا ہے جو سیاستدانوں کی جھوٹی باتوں میں آجاتی ہے اور سیاستدانوں کے ماضی میں کیے گئے جھوٹے وعدے بھول جاتی ہے۔ چاروں صوبوں میں اب بھی عوام کی اکثریت غربت کا شکار ہی نہیں بلکہ ان کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے مگر زمینداروں، پیروں، خانوں، چوہدریوں، سرداروں اور جھوٹ بولنے کے عادی سیاستدانوں کے چنگل میں جکڑی قوم کی حالت میں بہتری نہیں آرہی اور اب بھی ان سے جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں۔
کوئی انھیں نئے پاکستان کا خواب دکھا رہا ہے تو کوئی انھیں انقلاب کی نوید دے رہا ہے اور ڈیڑھ سال قبل مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بھی عوام کو خواب دکھا کر ووٹ لیے تھے مگر بجلی اور گیس تو وہ کیا دیتے انھوں نے مہنگائی بڑھاکر عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید دھکیل دیا ہے اور اتنا مجبور کردیا ہے کہ ملک بھر میں گو نواز گو کا نعرہ فروغ پا چکا ہے اور حکمرانوں کے تعاقب میں ہے۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں مبینہ جھوٹ بول کر امین نہ رہنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے جس پر ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ ایک شخص کو پھنسانے کا مقدمہ نہیں کہ ایک شخص نے جھوٹ بولا ہو۔ یہ بات بڑھی تو بہت آگے تک جائے گی۔ سیاستدان تو جھوٹ بول کر ہی سیاست کرتے ہیں۔ عوام سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ وعدے پورے نہیں کیے جاتے اور عدالتوں میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے۔
سیاست جھوٹ بولے بغیر چل نہیں سکتی۔ عوام سے جھوٹے وعدے نہ کیے جائیں تو وہ متاثر نہیں ہوتے۔ جو سیاسی لیڈر جتنا بڑا جھوٹ بولتا ہے عوام اس کے حق میں اتنے ہی بلند نعرے لگاتے ہیں اور لیڈر کی ہر بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ عوام تو کیا اب کسی پارٹی کا چھوٹا لیڈر بھی اپنے قائد کو جھوٹ بولنے سے روکنا نہیں چاہتا کہ کہیں قائد ناراض نہ ہوجائے اور جب عوام ہی جھوٹے وعدوں کے عادی ہوجائیں تو ہمارے رہنما جھوٹ نہ بولیں تو کیا کریں؟