بلاول بھٹو پاکستان کا مستقبل
پیپلزپارٹی کو قومی سیاست میں دوبارہ ماضی جیسا با وقار و بلند مقام حاصل کرنے کے لیے سخت اور مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔
ISLAMABAD:
یہ 18 اکتوبر 2007 کا دن تھا جب تمام تر خدشات، خطرات، تحفظات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کرکے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتی ہوئی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور کروڑوں غریب عوام کو مسائل سے نجات دلانے کا جذبہ لیے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق وطن واپس پہنچی تو کراچی ایئرپورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد وہ خوشی و انبساط اور فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئیں۔
لاکھوں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے شارع فیصل پر موجود تھا، چاروں صوبوں سے آنے والے جیالوں، کارکنوں، ہمدردوں، جمہوریت پسندوں اور بھٹو ازم کے پرستاروں کے جم غفیر کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کا استقبالی کارواں مزار قائد کی طرف پرجوش انداز سے رواں دواں تھا کہ رات تقریباً 12 بجے کے قریب کارساز روڈ پر اندیشوں اور وسوسوں کے عین مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کا یہ تاریخ ساز جلوس دہشت گردی کا نشانہ بن گیا، خودکش حملہ آور بی بی کو ٹارگٹ کرنا چاہتا تھا۔
چونکہ ان کے استقبالی ٹرک کو جانثاران بے نظیر بھٹو نے اپنے حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا اس لیے خوش قسمتی سے محترمہ اس حملے میں محفوظ رہیں، البتہ 100 سے زائد جیالے، کارکن ہلاک اور 500 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے اور مزار قائد پر جلسہ کرنے کا محترمہ کا خواب بھی ادھورا رہ گیا، ٹھیک سات سال بعد 18 اکتوبر 2014 کو شہید بی بی کے جواں سال، پر عزم، پرجوش اور بہادر بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے مزار قائداعظم پر ایک نہایت شاندار اور عظیم الشان جلسہ کرکے شہید بی بی اور اپنی والدہ کا ادھورا خواب پورا کردیا۔
اگرچہ جلسے سے قبل میڈیا میں یہ خبریں آتی رہیں کہ 18 اکتوبر کو کراچی میں دہشت گردی کا خطرہ ہے اور بلاول بھٹو کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن بہادر ماں کے بہادر بیٹے نے اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور تمام تر خطرات کے باوجود مزار قائد پر جلسہ کرکے دہشت گردوں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ اپنے خاندان کی قربانی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان، جمہوریت اور غریب عوام کی خاطر اپنے نانا اور والدہ کی طرح وطن عزیز پر اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہے۔
کراچی میں پی پی پی کا فقید المثال جلسہ درحقیقت بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی کیریئر کے باقاعدہ آغاز کا اعلان ہے جس کی واضح جھلک ان کی پرجوش، متوازن اور جاندار تقریر میں دیکھی جاسکتی ہے، مبصرین و تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے خطاب کو مستقبل کے ایک کامیاب سیاست دان کی تقریر سے تعبیر کررہے ہیں، جس میں انھوں نے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات، مسائل و مشکلات اور حکومت و سیاست دانوں سے وابستہ عوامی توقعات کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا۔
انھوں نے قومی سیاست میں جاری تازہ ہلچل اس کے پس پردہ مقاصد و عوامل اور اپنے مقابل سیاست دانوں کے قول و عمل کے تضادات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہاکہ بھٹو ازم کی سیاست ہی سے قومی و عوامی مسائل کے حل کی راہ کا تعین کیا جاسکتا ہے نہ کہ ضیا و مشرف کی آمریت سے، انھوں نے دھرنا سیاست دانوں اور پاک فوج کو بد نام کرنے والے بزدل عناصر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں لگے ہوئے ہیں، دھرنوں کے خول سے باہر نکلیں دہشت گردی کا مقابلہ کرکے دکھائیں، ہم کبھی ایمپائر کی انگلی کی سیاست نہیں کرتے، کٹھ پتلیاں پہلے نیا خیبر پختونخوا تو بنالیں۔
نواز حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تخت شریف سے لاہور نہیں چل رہا وہ پاکستان کیا چلائیںگے۔ مسئلہ کشمیر پر بلاول نے جذباتی انداز میں کہاکہ جب میں نے کشمیر کی بات کی تو پورا بھارت چیخ اٹھا، ہم کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کو یرغمال نہیں بننے دیںگے، انھوں نے نعرہ لگایا کہ ''میں بیٹا ہوں کشمیر کا، بھٹو بے نظیر کا ''بلاول کا ہے اعلان، کشمیر بنے گا پاکستان''۔
بلاول بھٹو نے پوری تقریر کے دوران اپنے نانا شہید بھٹو، والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے مقبول جوش خطابت جیسا انداز اختیار کرتے ہوئے تمام وقت شرکائے جلسہ کو گرمائے رکھا اور جس مدلل انداز سے قومی، علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں وطن عزیز کو درپیش مسائل و مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بھٹو ازم کے مطابق سیاست کرنے کو ملک و قوم کے لیے لازم قرار دیا اور کھل کر اپنے عزم و یقین کا اظہار کیا اس نے پیپلزپارٹی اور بھٹو ازم کے مخالفین میں ہلچل پیدا کردی ہے اور وہ بلاول بھٹو کو کم سن و ناتجربہ کار قرار دیتے ہوئے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں حالانکہ بلاول بھٹو 25 سال کے پر عزم جواں ہوچکے ہیں اور ان کے نانا نے 28 سال کی عمر میں وزارت کا قلمدان سنبھال لیا تھا۔
بات عمر اور تجربے سے کہیں زیادہ عقل و خرد، دانش و بینش، حکمت و بصیرت اور چیلنجوں کو قبول کرنے کے بلند حوصلوں اور پختہ عزائم کی ہوتی ہے اور بلاول بھٹو میں یہ تمام چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلاول بھٹو اپنے والد سابق صدر آصف علی زرداری کی سرپرستی و رہنمائی میں بہت جلد قومی سیاست میں ایک با وقار، نمایاں اور بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔
ہر چند کہ پیپلزپارٹی کو قومی سیاست میں دوبارہ ماضی جیسا با وقار و بلند مقام حاصل کرنے کے لیے سخت اور مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے، جیالے، کارکنوں و رہنمائوں کے گلے شکوؤں سے لے کر پارٹی کی تنظیم نو اور اسے متحد ومنظم اور فعال کرنے تک اور چاروں صوبوں بالخصوص پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت ہوم ورک کی ضرورت ہے جو بلاول بھٹو کے لیے سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، تاہم مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ و ذہین ہیں وہ ملکی سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہ اور پارٹی کارکنوں، رہنمائوں اور عوام کی امنگوں اور خواہشات سے بھی واقف ہیں ان میں وہ صلاحیتیں اور کرشمہ موجود ہے کہ پی پی پی کو بھٹو دور جیسی مقبولیت اور ووٹ بینک دلانے میں کامیاب ہوجائیںگے۔
مذکورہ جلسے سے سابق صدر آصف علی زرداری نے حسب سابق مدبرانہ انداز سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے آج کا پاکستان بچانا ہے تاکہ کل کا پاکستان بہتر ہو سکے۔ نیا پاکستان بن کر رہے گا لیکن تحریک صرف جمہور ہی کی چلے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پی ٹی آئی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے سابق صدر زرداری نے کہاکہ ہمیں پتہ ہے کہ بڑے بڑے جلسے کون فنانس کرتا ہے، آمر کے ریفرنڈم کا ساتھ دے کر معافیاں مانگتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں 70 کے نیازیوں کا خیال آجائے، بات نکلے گی تو پھر دور تک چلے جائے گی۔ سابق صدر کے خطاب پر شرکائے جلسہ نے بھرپور داد دی، خوش قسمتی سے بلاول بھٹو کو اپنے والد کی بھرپور سرپرستی و رہنمائی حاصل ہے اپنی والدہ اور نانا کا فلسفۂ سیاست ان کی میراث ہے جس سے سب فیض کرکے وہ پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال اور پاکستان کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔
یہ 18 اکتوبر 2007 کا دن تھا جب تمام تر خدشات، خطرات، تحفظات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کرکے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتی ہوئی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور کروڑوں غریب عوام کو مسائل سے نجات دلانے کا جذبہ لیے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق وطن واپس پہنچی تو کراچی ایئرپورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد وہ خوشی و انبساط اور فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئیں۔
لاکھوں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے شارع فیصل پر موجود تھا، چاروں صوبوں سے آنے والے جیالوں، کارکنوں، ہمدردوں، جمہوریت پسندوں اور بھٹو ازم کے پرستاروں کے جم غفیر کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کا استقبالی کارواں مزار قائد کی طرف پرجوش انداز سے رواں دواں تھا کہ رات تقریباً 12 بجے کے قریب کارساز روڈ پر اندیشوں اور وسوسوں کے عین مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کا یہ تاریخ ساز جلوس دہشت گردی کا نشانہ بن گیا، خودکش حملہ آور بی بی کو ٹارگٹ کرنا چاہتا تھا۔
چونکہ ان کے استقبالی ٹرک کو جانثاران بے نظیر بھٹو نے اپنے حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا اس لیے خوش قسمتی سے محترمہ اس حملے میں محفوظ رہیں، البتہ 100 سے زائد جیالے، کارکن ہلاک اور 500 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے اور مزار قائد پر جلسہ کرنے کا محترمہ کا خواب بھی ادھورا رہ گیا، ٹھیک سات سال بعد 18 اکتوبر 2014 کو شہید بی بی کے جواں سال، پر عزم، پرجوش اور بہادر بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے مزار قائداعظم پر ایک نہایت شاندار اور عظیم الشان جلسہ کرکے شہید بی بی اور اپنی والدہ کا ادھورا خواب پورا کردیا۔
اگرچہ جلسے سے قبل میڈیا میں یہ خبریں آتی رہیں کہ 18 اکتوبر کو کراچی میں دہشت گردی کا خطرہ ہے اور بلاول بھٹو کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن بہادر ماں کے بہادر بیٹے نے اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور تمام تر خطرات کے باوجود مزار قائد پر جلسہ کرکے دہشت گردوں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ اپنے خاندان کی قربانی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان، جمہوریت اور غریب عوام کی خاطر اپنے نانا اور والدہ کی طرح وطن عزیز پر اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہے۔
کراچی میں پی پی پی کا فقید المثال جلسہ درحقیقت بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی کیریئر کے باقاعدہ آغاز کا اعلان ہے جس کی واضح جھلک ان کی پرجوش، متوازن اور جاندار تقریر میں دیکھی جاسکتی ہے، مبصرین و تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے خطاب کو مستقبل کے ایک کامیاب سیاست دان کی تقریر سے تعبیر کررہے ہیں، جس میں انھوں نے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات، مسائل و مشکلات اور حکومت و سیاست دانوں سے وابستہ عوامی توقعات کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا۔
انھوں نے قومی سیاست میں جاری تازہ ہلچل اس کے پس پردہ مقاصد و عوامل اور اپنے مقابل سیاست دانوں کے قول و عمل کے تضادات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہاکہ بھٹو ازم کی سیاست ہی سے قومی و عوامی مسائل کے حل کی راہ کا تعین کیا جاسکتا ہے نہ کہ ضیا و مشرف کی آمریت سے، انھوں نے دھرنا سیاست دانوں اور پاک فوج کو بد نام کرنے والے بزدل عناصر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں لگے ہوئے ہیں، دھرنوں کے خول سے باہر نکلیں دہشت گردی کا مقابلہ کرکے دکھائیں، ہم کبھی ایمپائر کی انگلی کی سیاست نہیں کرتے، کٹھ پتلیاں پہلے نیا خیبر پختونخوا تو بنالیں۔
نواز حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تخت شریف سے لاہور نہیں چل رہا وہ پاکستان کیا چلائیںگے۔ مسئلہ کشمیر پر بلاول نے جذباتی انداز میں کہاکہ جب میں نے کشمیر کی بات کی تو پورا بھارت چیخ اٹھا، ہم کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کو یرغمال نہیں بننے دیںگے، انھوں نے نعرہ لگایا کہ ''میں بیٹا ہوں کشمیر کا، بھٹو بے نظیر کا ''بلاول کا ہے اعلان، کشمیر بنے گا پاکستان''۔
بلاول بھٹو نے پوری تقریر کے دوران اپنے نانا شہید بھٹو، والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے مقبول جوش خطابت جیسا انداز اختیار کرتے ہوئے تمام وقت شرکائے جلسہ کو گرمائے رکھا اور جس مدلل انداز سے قومی، علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں وطن عزیز کو درپیش مسائل و مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بھٹو ازم کے مطابق سیاست کرنے کو ملک و قوم کے لیے لازم قرار دیا اور کھل کر اپنے عزم و یقین کا اظہار کیا اس نے پیپلزپارٹی اور بھٹو ازم کے مخالفین میں ہلچل پیدا کردی ہے اور وہ بلاول بھٹو کو کم سن و ناتجربہ کار قرار دیتے ہوئے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں حالانکہ بلاول بھٹو 25 سال کے پر عزم جواں ہوچکے ہیں اور ان کے نانا نے 28 سال کی عمر میں وزارت کا قلمدان سنبھال لیا تھا۔
بات عمر اور تجربے سے کہیں زیادہ عقل و خرد، دانش و بینش، حکمت و بصیرت اور چیلنجوں کو قبول کرنے کے بلند حوصلوں اور پختہ عزائم کی ہوتی ہے اور بلاول بھٹو میں یہ تمام چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلاول بھٹو اپنے والد سابق صدر آصف علی زرداری کی سرپرستی و رہنمائی میں بہت جلد قومی سیاست میں ایک با وقار، نمایاں اور بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔
ہر چند کہ پیپلزپارٹی کو قومی سیاست میں دوبارہ ماضی جیسا با وقار و بلند مقام حاصل کرنے کے لیے سخت اور مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے، جیالے، کارکنوں و رہنمائوں کے گلے شکوؤں سے لے کر پارٹی کی تنظیم نو اور اسے متحد ومنظم اور فعال کرنے تک اور چاروں صوبوں بالخصوص پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت ہوم ورک کی ضرورت ہے جو بلاول بھٹو کے لیے سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، تاہم مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ و ذہین ہیں وہ ملکی سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہ اور پارٹی کارکنوں، رہنمائوں اور عوام کی امنگوں اور خواہشات سے بھی واقف ہیں ان میں وہ صلاحیتیں اور کرشمہ موجود ہے کہ پی پی پی کو بھٹو دور جیسی مقبولیت اور ووٹ بینک دلانے میں کامیاب ہوجائیںگے۔
مذکورہ جلسے سے سابق صدر آصف علی زرداری نے حسب سابق مدبرانہ انداز سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے آج کا پاکستان بچانا ہے تاکہ کل کا پاکستان بہتر ہو سکے۔ نیا پاکستان بن کر رہے گا لیکن تحریک صرف جمہور ہی کی چلے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پی ٹی آئی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے سابق صدر زرداری نے کہاکہ ہمیں پتہ ہے کہ بڑے بڑے جلسے کون فنانس کرتا ہے، آمر کے ریفرنڈم کا ساتھ دے کر معافیاں مانگتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں 70 کے نیازیوں کا خیال آجائے، بات نکلے گی تو پھر دور تک چلے جائے گی۔ سابق صدر کے خطاب پر شرکائے جلسہ نے بھرپور داد دی، خوش قسمتی سے بلاول بھٹو کو اپنے والد کی بھرپور سرپرستی و رہنمائی حاصل ہے اپنی والدہ اور نانا کا فلسفۂ سیاست ان کی میراث ہے جس سے سب فیض کرکے وہ پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال اور پاکستان کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔