عظیم شاعر و فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور
دنیا کی جتنی بڑی یونیورسٹیوں میں رابندر ناتھ کو خطاب کرنےکے لیےدعوت دی گئیں،اتنی دعوتیں شیکسپیئر کو بھی نہیں دی گئیں۔
دنیا کے چند بڑے شعراء میں سے رابندر ناتھ ٹیگور ایک بہت بڑا نام ہے۔ ایشیا کا پہلا نوبل انعام یافتہ شاعر بھی یہی تھے، اور عظمت اس بات کی ہے کہ جب جلیانوالہ باغ، پنجاب میں جنرل ڈائر کے حکم پر فائرنگ سے ہزاروں انسانوں کا قتل ہوا تو رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا نوبل انعام واپس کردیا۔ ان کا شمار صوفی شعرا میں ہوتا ہے۔
مولانا رومی، گوئٹے، بلھے شاہ اور وارث شاہ کے ہم پلہ ہیں۔ یہ فلسفی بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'کہاں دوزخ و جنت ہے، کون کہتا ہے کہ آسمانوں کی بلندی پہ ہے؟ دوزخ و جنت انسانوں کے اندر ہی ہے۔ جب کوئی غلط کام کرتا ہے تو اکیلے میں جو کرب محسوس کرتا ہے، یہ تکلیف ہی اس کے لیے دوزخ کی تکلیف ہے اور جب اچھا کام کرتا ہے تو اکیلے میں اس کے لیے خوشی اور لطف کے جو لمحات ہوتے ہیں یہی اس کے لیے جنت ہے'۔ ایک اور جگہ ٹیگور کہتے ہیں کہ 'تیرا خدا اس بند کمرے میں نہیں ہے جہاں تم اسے یاد کررہے ہو، وہ سخت زمین پر ہل چلاتا ہوا اس کسان کے ساتھ ہے جس کے کپڑے گردآلود ہیں'۔
ٹیگور دنیا کے معروف ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ شیکسپئیر کا مشہور ڈرامہ 'کنگ لیئر' کا ایک کردار والا ہیرو جو اداکار ہے اسی طرح کا کردار رابندر ناتھ کے معروف ڈرامے میں 'روکتو کو روبی' بھی ایک ہی ہیروئن ادا کرتی ہے اور اس میں تین بار وقفہ ہوتا ہے۔ ان کا مشہور ناول 'کابلی والا' اتنا مقبول ہوا کہ دنیا کی چھتیس زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ہندی اور اردو میں تو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
پاکستان کے سینما گھروں میں لاکھوں عوام دیکھ چکے ہیں۔ افسانے تو بے شمار لکھے ہیں جو کہ امریکا سے جاپان تک کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ انگریزی زبان میں 'سونیٹ' نامی نظمیں دنیا میں خاص مقام رکھتی ہیں، اس طرح کی نظمیں بہت کم زبانوں میں لکھی گئی ہیں جب کہ بنگلہ میں ٹیگور نے لکھا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک بڑا کارنامہ 'زبان کی سائنس' نامی کتاب ہے، جس میں انھوں نے زبانوں کی تاریخ اور ارتقا پر تفصیل بیان کی ہے۔ انگریزی زبان کے معروف نقاد ملٹن نے انگریزی کے 800 الفاظ دریافت کیے جب کہ رابندر ناتھ نے بنگلہ کے 1200 نئے الفاظ دریافت کیے۔ رابندر ناتھ کا لکھا ہوا بنگلہ دیش کا قومی ترانہ دنیا کے معروف قومی ترانوں میں سے ایک ہے۔ بنگلہ زبان کے معروف انقلابی شاعر قاضی نذرالاسلام کے ادبی استاد رابندر ناتھ ٹیگور تھے۔
دنیا کی جتنی بڑی یونیورسٹیوں میں رابندر ناتھ کو خطاب کرنے کے لیے دعوت دی گئیں، اتنی دعوتیں شیکسپیئر کو بھی نہیں دی گئیں۔ آکسفورڈ، ہاورڈ، جامعہ اظہر، پیکنگ، ماسکو، جکارتہ، استنبول، منیلا، ٹوکیو، کیلی فورنیا، برلن بون، جینیوا اور سڈنی یونیورسٹی وغیرہ میں۔ ہندوستان میں بیہودہ رواج 'ستی داہ پر تھا' رائج تھا، یعنی شوہر کے مرنے پر بیوہ کو بھی آگ میں جلایا جاتا تھا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے جیو آنند کے ساتھ مل کر باقاعدہ تحریک چلائی اور اسے قانونی طور پر ختم کروایا۔
درحقیقت ادب کو کسی کونے میں قید نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمیشہ عالمی نوعیت کا ہوتا ہے، جیسا کہ اردو کے نامور ادیبوں میں کرشن چندر، منشی پریم چند، فراق گورکھ پوری کو کون نہیں جانتا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے منشی پریم چند کو اردو افسانہ نگاروں کا 'سرتاج' قرار دیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ٹیگور کے گانوں 'رابندر سنگیت' پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اس پابندی کے خلاف سابق مشرقی پاکستان کے ادیبوں، مصنفوں، شاعروں، طلبا، مزدوروں، کسانوں، پیداواری کارکنان اور شہریوں نے ہڑتالیں، مظاہرے، جلسے اور جلوس نکالے۔
آخرکار ایوب آمریت مجبور ہوئی کہ وہ اس پابندی کو ختم کرے جب کہ ہندوستان میں اب بھی علامہ اقبال کا یہ گانا گایا جاتا ہے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'۔ امیر خسرو نے ہی ستار ایجاد کیا تھا اور یہ آلہ موسیقی آج بھی برصغیر اور دنیا بھر میں بہترین آلہ موسیقی مانا جاتا ہے۔ برصغیر اور دنیا بھر کے معروف گلوکار تان سین سے کون وا قف نہیں ہے۔ مولوی برکت اﷲ بھوپالی اور مولانا محمد علی جوہر کو سنسکرت آتی تھی جب کہ کرشن چندر کو فارسی۔ زبان، ثقافت، تہذیب اور ادب کسی مذہب یا فرقے کے تابع نہیں ہوتا۔ جس طرح محبت کسی مذہب یا قوم کی سرحدوں کو نہیں مانتی۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا ناول 'کابلی والا' بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے۔
''ایک کابل کا رہنے والا پٹھان، بنگال میں آکر خشک میوہ فروخت کرتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی کو وہ اکثر میوے مفت دے جاتا ہے۔ اسی دوران پٹھان نے کسی کو پیسے ادھار دیے تھے۔ ادھار لینے والا پٹھان کو پیسے نہ لوٹانے پر اسے چاقو مار دیتا ہے۔ پولیس اسے گرفتار کرکے لے جانے لگتی ہے، پٹھان کے ہاتھ اور دامن خون سے آلودہ ہوتے ہیں اور ہاتھ میں ہتھکڑی۔ راستے میں اس بچی کا گھر نظر آنے پر پٹھان رک جاتا ہے اور پولیس سے التجا کرتا ہے کہ مجھے بات کرنی ہے، پولیس کی اجازت پر وہ اس بچی کے گھر پر دستک دیتا ہے، گھر سے بچی کا باپ نکل کر دروازہ کھولتا ہے، پٹھان بچی کے باپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ بچی 'مینی' سے ملنا ہے۔
بچی کا باپ جواب میں کہتا ہے کہ مینی کی تو شادی ہوگئی اور اب وہ اپنے سسرال میں ہے۔ خان صاحب یہ سن کر سر پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور رونے لگتا ہے۔ اس پر حیران ہو کر مینی کا باپ خان صاحب سے سوال کرتا ہے کہ خان صاحب آپ رو کیوں رہے ہیں؟ اس کے جواب میں خان صاحب کہتا ہے کہ کابل میں میری بھی ایسی ہی ایک بچی ہے، وہ مجھے بہت یاد آتی ہے''۔
یہ ہے باپ کی محبت جو کسی مذہب، قوم اور سرحد کو نہیں مانتی۔ پھر اس فطرت کو جبر سے تقسیم کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ صرف اس لیے کہ فطری حلیفوں کو حریف میں بدل دیا جائے تاکہ صاحب جائیداد طبقات، پیداواری قوتوں اور شہریوں پر قابض ہوکر ان کا استحصال جاری رکھ سکیں۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے معاشرے میں مضمر ہے۔
ایک دن ضرور آئے گا جب دنیا بھر میں ایک ہی زبان، ثقافت، تہذیب ہوگی، یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل بانٹ کر کھائیں گے۔ زندگی کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ حسد، کینہ اور قتل و غارت گری کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔ چہار طرف محبتوں اور انسانی برادری کی دوستی کے پھول کھلیں گے۔