وہ خواتین جو خبر دیتے ہوئے خبر بن گئیں۔۔۔

کارزارِ صحافت میں جانیں دینے والی چند خواتین کی کتھا


رقیہ اقبال October 27, 2014
کارزارِ صحافت میں جانیں دینے والی چند خواتین کی کتھا۔ فوٹو: فائل

خواتین کی شمولیت کے بغیر ہر شعبہ اب نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں بھی ہمیں نیوز ڈیسک سے لے کر رپورٹنگ، اینکرنگ ہر سطح تک خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ خواتین کے عکس بندی میں بڑھتے ہوئے رجحان نے ''کیمرہ مین'' کی اصطلاح کو کیمرہ ومین سے تبدیل کر دیا اور کئی خواتین کیمرے کی آنکھ سے حقائق کی اِبلاغ کرنے میدان میں آئیں اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ اس شعبے میں خواتین محض شوقیہ نہیں، بلکہ ایک جذبے سے آتی ہیں اور اپنی آخری سانس تک اس شعبہ سے وابستگی کا حق ادا کرتی ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں اپنی جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

جنگ کا میدان ہو یا کسی ملک کا اندرونی سیاسی خلفشار۔۔۔ یہ صحافی خواتین اپنی جان پر کھیل کر ناظرین کو براہ راست لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتی رہیں اور پھر یوں ہوا کہ خبر دیتے دیتے ایک دن خود خبر بن گئیں۔ اس پُرپیچ اور پرخطر گھاٹی میں داخل ہوتے وقت انہیں تمام حالات کا بہ خوبی اندازہ تھا، لیکن ان کے تجسس، ان کے جذبے نے کسی چیز کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے پر مجبور کیا، کبھی ان کے قلم خون میں نہلا دیے گئے، تو کبھی ان کے کیمرے کی آنکھ کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا، لیکن ان کا جذبہ مرا نہیں بلکہ تروتازہ ہی رہا۔

ان کی بہادری، حوصلے اور ہمت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔۔۔ آزادیِ اظہار اور سچ کی سربلندی کے لیے جان دینے والی یہ خواتین امر ہوگئیں اور تاریخ صحافت میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام رقم کر گئیں۔ ان میں سے چند ایک ایسی خواتین صحافیوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے

پلوشہ طوخی

افغانستان کی27 سالہ پلوشہ طوخی اپنی ناگہانی موت سے محض دو مہینے قبل مستقبل کے حوالے سے لاکھوں سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے تھائی لینڈ کی ایک جامعہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر کے لوٹی تھیں۔ پلوشہ طوخی چھے سال سے بیان ریڈیو کے لیے کام کررہی تھیں، بیان شمل نامی یہ میڈیا آرگنائزیشن 2004ء میں جرمنی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی۔ جس کے تحت ایک ویب سائٹ، ریڈیو اسٹیشن، پرنٹ پبلی کیشن اور ایک ٹیلی ویژن پروڈکشن کمپنی کام کر رہی ہے۔



وطن لوٹنے کے بعد انہیں مسلسل دھمکیوں کا سامنا تھا، جس کے باعث انہوں نے جرمن شہریت کے حصول کے لیے درخواست دے رکھی تھی، لیکن تقدیر میں شاید کچھ اور ہی لکھا تھا، 16 ستمبر 2014ء کی رات انہیں مزارشریف میں ان کے گھر کے باہر نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان میں آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہار کی بالادستی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ''نائی'' کے اعداد وشمار کے مطابق ہلاک ہونے والی خاتون صحافی پانچویں افغان صحافی ہیں، جب کہ اس سے قبل دو غیر ملکی صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لہٰذا سال 2014ء افغانستان میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے مہلک ترین ثابت ہوا ہے۔

Anja Niedringhaus

جرمنی سے تعلق رکھنے والی انجا نیدرنگ ہوس کو 4 اپریل 2014ء کو افغانستان میں نشانہ بنایا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے کام کرنے والی اس خاتون فوٹوگرافر کے ساتھ ایک اور خاتون رپورٹر کیتھی گینون بھی زخمی ہوئیں۔ انجا نیدرنگ نے اپنے کیریئر کا آغاز فری لانس فوٹو گرافر کی حیثیت سے محض 16 برس کی عمر سے کیا اور کئی اخبارات اور میگزین کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔



1990ء سے 2001ء تک انہوں نے یورپین پریس ایجنسی کے لیے کام کیا۔ 2002ء میں اے پی سے وابستہ ہو کر انہوں نے کام یابی کی کئی منازل طے کیں۔ دیوار برلن کے انہدام، یوگوسلاویہ کی تحلیل سے لے کر انہوں نے افغانستان، عراق، غزہ، اسرائیل، کویت اور ترکی غرض ہر اس متنازع خطے میں کام کیا، جہاں کہیں سیاسی بحران یا خانہ جنگی نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ 11 افراد پر مشتمل اے پی فوٹو گرافرز کی ٹیم میں انجا واحد خاتون فوٹو گرافر تھیں، اسی ٹیم نے 2005 ء میں (pulitzer prize) بھی اپنے نام کیا۔

اسی سال انہیں انٹرنیشنل ویمن میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے "courage in journalism" ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ذہانت اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے nieman fellowship in journalism بھی تفویض کیا گیا۔ انجا نے اپنی زندگی میں "Fotografien" اور "At war" کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کیں اور یوں یہ سفر تمام ہوا۔ اپنے نام کیے جانے والے بے شمار اعزازات لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون فوٹوگرافر کی زندگی کا باب 4 اپریل کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

مائدہ اشرف

مصر سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ یہ خاتون نامہ نگار 28 مارچ 2014ء کو قاہرہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کی کوریج کے دوران اپنی جان سے گئیں۔ فیلڈ مارشل فتح السیسی کی جانب سے خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیے جانے پر اخوان المسلمون کے حامیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے، انہی مظاہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تصادم میں یہ سانحہ پیش آیا۔



مائدہ الدستور ڈیلی اخبار اور العریبیہ ویب سائٹ میں ایک نامہ نگار کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ مائدہ اسی روز نشانہ بنیں جس روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے دھرنوں اور احتجاج کی کوریج میں صحافیوں کی جانب سے اہم کردار ادا کرنے پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں ریاست کی جانب سے انہیں مطلوبہ تحفظ دینے کی بات کی گئی تھی، لیکن افسوس کوئی قرارداد مائدہ اشرف کو نہ بچا سکی۔

حبیبہ احمد عبدالعزیز

مصر کی ایک باہمت، نڈر اور بہادر صحافی 26 سالہ حبیبہ احمد عبدالعزیز 14 اگست 2013ء کو رابعہ العدویہ اسکوائر میں سابق صدر مرسی کے حق میں مظاہروں کی کوریج کے دوران ہلاک ہوئیں۔ یہ مظاہرے مصری مسلح افواج کے سربراہ فتح السیسی کی جانب سے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی صورت میں کیے گئے تھے۔ حبیبہ نے امریکن یونیورسٹی آف شارجہ (AUS) سے اِبلاغ عامہ کی تعلیم حاصل کی۔



اس کے فوراً بعد ستمبر 2011ء میں گلف نیوز کے ایک اخبار XPress کا حصہ بن گئیں، اپنے کیریئر کا آغاز کرائم اور کورٹ رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ حبیبہ سالانہ تعطیلات میں اپنے عزیز واقارب سے ملنے دبئی سے مصر آئی تھی۔۔۔ مگر کیا معلوم تھا کہ اب کبھی واپس نہیں جا سکے گی۔ اگرچہ وہ اس وقت کسی اسائمنٹ پر نہیں تھی، لیکن کچھ پیشہ ورانہ تجسس تھا اور کچھ ملکی سیاست سے بہت زیادہ لگاؤ، وہ اپنی والدہ سے اصرار کر کے ان احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے لیے پہنچ گئی، اور پھر اس کا حصہ ہی بن گئی۔

تمام وقت وہ اپنی والدہ سے رابطے میں رہی اور اخوان کی کام یابی اور فتح کے لیے دعائیں کرنے پر زور دیتی رہی، پھر کچھ گولیاں چلیں اور صحافتی دنیا میں اس ابھرنے والے چمکتے ستارے کو رابعہ العدویہ اسکوائر میں ابدی نیند سلا دیا گیا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک پر کی جانے والی اس کی آخری پوسٹ کچھ یوں تھی ''موت! ہم آچکے ہیں، ہم تم سے خوف زدہ نہیں، لیکن تم ہم سے خوف زدہ ضرور ہو۔''

Mika Yamamoto

جاپان سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ مائکا یماموتو (ویڈیو اور فوٹو جرنلسٹ) 1995ء سے جاپان پریس نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ انہوں نے ایک جنگی نامہ نگار کے طور پر افغانستان اور عراق میں بھی کام کیا۔



20 اگست 2012ء کو شام میں جاری خانہ جنگی کی کوریج کے دوران شامی فورسز کا نشانہ بنیں۔ یماموتو جاپانی ٹیلی ویژن کا ایک جانا پہچانا چہرہ تھیں۔ انہیں 2003ء میں اس وقت شہرت ملی جب بغداد میں واقع فلسطین ہوٹل کی عمارت پر حملے کے بعد وہ زندہ بچ نکلیں۔ اس میں رائٹرز کا ایک صحافی اور ایک ہسپانوی صحافی مارا گیا تھا۔

Marie colvin

50 سالہ امریکی صحافی خاتون میری کولوین شام کے شہر حماص میں جاری خانہ جنگی کی کوریج کے دوران ہلاک ہوئیں۔ کولوین برٹش اخبار دی سنڈے ٹائم کے لیے 1985ء سے کام کر رہی تھیں اور اپنی آخری سانس تک اسی سے وابستہ رہیں۔



کولوین بائیں آنکھ پر سیاہ پٹی پہننے سے بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتی تھیں۔ یہ سیاہ پٹی تب سے ان کی شخصیت کا حصہ بنی، جب 2001ء میں سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران سری لنکن فوج کی جانب سے گرینیڈ پھینکے جانے کی صورت میں ان کی بائیں آنکھ کی بینائی ختم ہوگئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں