بات کچھ اِدھر اُدھر کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں

زرا سی کوشش سے ہم لوگوں کو زندگی کی وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں فراہم کرسکتے ہیں جو محض خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔

زرا سی کوشش سے ہم لوگوں کو زندگی کی وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں فراہم کرسکتے ہیں جو محض خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔

آج اس گلوبلائیزیشن کے دور میں اشتہارات کا ایک اہم کردار ہے اوران ہی اشتہارات کی بدولت ہی بڑے بڑے میڈیاگروپس چل رہے ہیں جب کہ یہ اشتہارات بھی انہی میڈیا گروپ کو زیادہ ملتے ہیں جن کی ریڈرشپ اور ویورشپ اچھی ہوجس طرح میڈیا کمپنیز بہتر ریٹینگ کے لئے تگ ودو کرتی ہیں ایسے ہی اشتہارات دینے والی اور اشتہارات بنانے والی کمپنیاں بھی عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے نت نئے طریقے متعارف کرتی ہیں، ان اشتہارات کا مقصد عوام تک محض ایک مخصوص پیغام پہنچانا ہے، کسی بھی کمپنی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان اشتہارات کے سامعین پر مثبت یا منفی کس طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

لیکن کچھ اشتہارات دیکھ کر مجھے اپنا موقف بدلنا پڑتا ہے۔ کچھ اشتہارات دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ جو فلاحی کام حکومتوں کو کرنا چاہئے وہ پرائیویٹ کمپنیاں کر رہی ہیں۔ کچھ روز قبل میں نے بستروں کے فوم بنانے والی ایک نامور کمپنی کا ایک اشتہار دیکھا، جس میں بتایا گیا کہ ملک کے بڑے شہروں میں ہزاروں غریب لوگ ہیں جو ہر رات سڑک کنارے سخت پتھروں پر ہی اپنی خواب گاہ سجاتے ہیں، ان تمام لوگوں کے لئے کمپنی نے خصوصی بل بورڈ نصب کئے ہیں، جو دن کو بورڈ اور رات کو آرام دہ بستر بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں تقریباََ 40 ہزار بستر پورے پاکستان میں لگائے گئے ہیں۔ ایسے اشتہار جس سے غریب کا بھلا ہو بے شک کارِ خیر ہیں۔ میری نظر میں ایسے اشتہارات اور کمپنیوں کو جتنا سپورٹ کیا جائے کم ہے۔سرمایہ درانہ نظام میں اگر کمپنیاں نفع کے ساتھ ساتھ غریب عوام کے لئے ڈائریکٹ انویسٹمنٹ بھی شروع کریں تو بیشک یہ ایک مثبت عمل ہے او ر ہمیں ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔




اسی طرح مشروب بنانے والی ایک مشہور کمپنی عرب ممالک کے میں ہمارے مزدوروں کویہ آفر دیتا ہے کہ وہ بوتل کا کیپ سنبھال کر رکھیں، کمپنی کے ٹیلی فون بوتھ پر جا کر کیپ کو سِکے کے طور پر استعمال کریں اور اپنے پیاروں سے 3 منٹ بات کریں۔ گھروالوں سے محض 3 منٹ بات کرنا کوئی بڑی بات نہیں لگتی، لیکن جومحنت کش طبقہ اپنے گھر سے ہزاروں میل دور ہوں، اور ان کی آمدن ہزار درہم یا ریال سے زیادہ نہ ہو ،جو مہینے بعد سخت محنت کرکے ملتی ہو اُن کے لئے اپنے پیاروں سے 3 منٹ بات کرنا کسی نعمت سے کم نہیں۔





مجھے خود یاد ہے جب میں میٹرک کے بعد پشاور چلا گیا تو ماں سے بات کرنے کے لئے بڑا بے تاب ہوتا تھا،لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے یہ خواہش بار بار پوری نہیں ہو سکتی تھی،دراصل گھر والوں کی محبت دور جا کر ہی محسوس ہوتی ہے، میرے اپنے بچے جب کچھ دنوں کے لئے گاؤں جاتے ہیں تو میں دن میں کئی بار فون کرتا ہوں کہ بیٹی بیٹا کیسے ہیں؟ ٹھیک سے کھانا کھاتے ہیں؟ سوتے ہیں؟ مجھے یاد کرتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اب وہ لوگ جو پردیس جاکر سالوں سال گھر نہیں آسکتے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مفت میں بات کریں تو کتنی خوشی محسوس کرتے ہوں گے، کمپنی کی یہ آفر یقیناًقابلِ ستائش ہےاسی کمپنی کے دوسرے اشتہار میں کمپنی کا بوتھ استعمال شدہ مشروب کی بوتل کے بدلے چھوٹے چھوٹے تحائف دیتا ہے۔ایک اوپننگ کے ذریعے لوگ خالی بوتل ڈالتے ہیں اور دوسری اوپننگ میں اُن کو گفٹ ملتا ہے۔ یعنی پلاسٹک کی بوتل پلوشن کا باعث بھی نہیں بنتی اور بدلے میں لوگوں کو تحائف بھی ملتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اس سے عوامی شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری جانب کافی بنانے والی ایک کمپنی کے کمرشل بھی یہ سکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ سماجی اور نفسیاتی دباؤ کے شکار لوگوں کے احساسات کیسے ہوتے ہیں،ہر کوئی عامر خان کی طرح آل از ویل کہہ کر اپنا ذہنی دباؤ کم نہیں کرسکتا۔ کچھ لوگوں کو معاشرے کی طرف سے مثبت ریسپانس ملے تو ان کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔

چلیں ایک اور اشتہار کے بارے میں بتایا ہوں لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ مجھے بینک سیکٹر سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے شاید اس کی ایک خاص وجہ میرے ماضی کے تجربات ہیں۔ خیر چھوڑیں اصل بات تو ہے کہ میں بینک کا ایک انوکھا اشتہار دیکھ کر حیران رہ گیا جس میں ATMکے ذریعے بینک اپنے کلائنٹس کو مختلف گفٹس دیتا ہے۔ ایک عورت جس کی بیٹی بیمار ہے جب وہ ATMسے پیسے نکالتی ہے تو اُس کو جہاز کے ٹکٹس دیئے جاتے ہیں ۔ دوسری عورت کو بچوں کو ڈزنی لینڈ گھمانے کے لئے ہزار ڈالر ملتے ہیں، غرض کے مختلف لوگوں کو مختلف تحائف دیئے جاتے ہیں اور ان چیزوں کا احساس تب ہوتا ہے جب انسان کے ذاتی تجربات ان اشتہاروں سے ملتے ہوں۔




مشکل وقت میں جب قریبی لوگ بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ایسے میں اگر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کچھ امداد کریں تو یقیناًعوام کا سسٹم پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ میں ان تمام کمپنیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو ناصرف لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر رہی ہیں بلکہ زرا سی کوشش سے انہیں زندگی کی وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں فراہم کررہی ہیں جو محض خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story