ریلوے جنکشن

قادری صاحب کاعجیب ساوصف تھا۔وہ لوگوں کے درمیان انتہائی خوبصورت اوردیدہ زیب کپڑے پہنتے تھے۔


راؤ منظر حیات October 28, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: یہ ''بابے''اور''درویش''انتہائی شفیق قسم کے ظالم لوگ ہوتے ہیں!آپکاسب کچھ چراکراپنے لمبے سے کرتے کی دونوں جیبوں میں چھپالیتے ہیں۔پھرخداکے حکم کے مطابق آپکوحسبِ توفیق عطاکرتے رہتے ہیں!یہ عجیب لوگ ہیں۔ لارنس روڈکے قادری صاحب توعرصہ ہوا،دنیاسے رخصت ہوگئے۔

دہائیوں سے اپنے اوپرپابندی لگانے والاشخص پردہ کرنے کے بعدبھی اس پابندی سے باہرنہیں آیا۔لحدبھی وہی بنوائی اورتدفین بھی اسی لکیر میں!1940ء سے معمول تھاکہ ہرجمعرات کوپوراتانگہ کرائے پرلیتے تھے۔ پھول اورہار خریدتے تھے۔حضرت علی ہجویری کے مزارسے شروع ہوتے تھے۔قبرپرکھڑے ہوکردعامانگتے تھے اورپھول چڑھاتے تھے۔یہ طرزِعمل رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ حضرت میاں میراوراَن گنت ولیوں کی قیام گاہوں کوپھولوں سے بھردیتے تھے۔یہ دور کئی دہائیاں تک جاری رہا۔ مگرپھرایک دم اپنے آپکولارنس روڈکے ایک کمرے اوراس کے ساتھ ملحقہ صحن میں مقیدکرڈالا۔پتہ نہیں کیوں؟

میں سائنس کاطالبعلم ہوں۔ایم بی بی ایس کے دوران اَناٹومی سے لے کرہروہ مضمون انتہائی محنت سے پڑھاجوانسان کے جسم سے وابستہ ہوتاہے۔ دقیق تعلیم کے باوجودانسانی ذہن کے متعلق سائنس کافی حدتک خاموش ہے۔اگرکوئی گرہ موجودہے تووہ انسان کے دماغ کی اس سوچ سے منسلک ہے جس نے ہرشخص اورقوم کوایک دوسرے سے مختلف بناڈالا ہے۔انسانی رویے کے مسائل کوجاننے کے علم یعنی Psychiatryمیں بے انتہامحنت کی گئی ہے۔مگرآج تک اس کے ہرپہلوکوسمجھا نہیں جاسکا۔

مجھے کئی بارایسے محسوس ہوتاہے کہ یہ ''بابے'' اور ''درویش''انسانی ذہن کی الجھنوں اورگرہوں کوآسانی سے کھولنے پرمعمورکیے جاتے ہیں۔یہ ایسا کیوں کرتے ہیں!یہ ایساکیسے کرلیتے ہیںاورانھیں کون یہ سب کچھ بتاتا ہے! میرے پاس ان سوالوں کاکوئی جواب نہیں!مگریہ کسی نظرنہ آنے والے نظام کاحصہ ضرورہیں۔

جب قدرت اللہ شہاب کی کتاب ''شہاب نامہ ''پڑھنے کاموقعہ ملاتواس کے کچھ حصوں سے بے انتہافکری اختلاف رہا۔''نائنٹی''کاتذکرہ توبے حدعجیب لگا۔ ''شہاب نامہ''کئی بارپڑھامگر نائنٹی(90)والاحصہ مکمل طورپرچھوڑکر!توہمات اوروہم کی اجنبی دنیامیں جانے سے مکمل اجتناب کرتارہا!یہ سلسلہ بہت عرصہ جاری رہا!پوچھتاتھاکہ یہ کسیے ممکن ہے کہ قدرت اللہ شہاب سوال کریں اورکچھ عرصے کے بعداچانک الماری یاکسی اورجگہ سے اس کا لکھا ہوا کاغذ پرجواب موصول ہوجائے۔

نہ جواب بھیجنے والے کانام ،پتہ اورنہ ہی اسکاادراک!نہیں ایسابالکل ممکن نہیں!بلکہ شائدیہ لکھتے وقت قدرت اللہ شہاب اپنے آپ میں نہیں تھے؟ڈاکٹر کی حیثیت سے عرض کرنا چاہوں توبے دھڑک کہہ سکتاہوں کہ کسی ذہنی بیماری جیسےPsychosisکاشکارہوچکے تھے؟مگرشائد اُس وقت میں حقیقت کو تنگ نظری سے دیکھ رہاتھا۔ مگر درویش کی صحبت نے ذہن کی نظرنہ آنے والی وہ دوررس آنکھ کھول دی ہے۔ ادراک توآج بھی کامل نہیں ہے مگریہ احساس ضرورہوچکاہے کہ ہرنکتہ حواسِ خمسہ کی بنیادپرحل نہیں کیا جاسکتا!

قادری صاحب کاعجیب ساوصف تھا۔وہ لوگوں کے درمیان انتہائی خوبصورت اوردیدہ زیب کپڑے پہنتے تھے۔ مگرجیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوتے،ٹاٹ کے کھردرے لباس میں ملبوس ہوجاتے تھے۔یہ بات صرف ان لوگوں کومعلوم تھی جوان کے کمرے میں جانے کی اجازت پاچکے تھے۔میں کبھی ان کے کمرے میں جانے کی جرات نہیں کرپایا۔ وہ قرآن کی ایک آیت پر کلی طورپرعمل کرتے تھے اوروہ تھی،خداکوقرض دینایعنی اجنبی لوگوں،مسافروں اورغرباء کوکھاناکھلانا!ان کے متعین کردہ ایک حصہ میں ہروقت نوکرکھاناپکاتے رہتے تھے۔جوبھی ان کے پاس دوپہریاشام کوآتاتھا،میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ قادری صاحب نے اسے کھاناکھائے بغیرجانے کی اجازت دی ہے!سیکڑوں لوگوں کوکھاناکھلانے کے لیے بے انتہامالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔میرے علم میں نہیں کہ انھوں نے کسی سے ایک پیسہ بھی اس کام کے لیے مانگاہویاطلب کیاہو!یہ سلسلہ چارسے پانچ دہائیاں چلتا رہا۔ یعنی چالیس سے پچاس سال!

میں محکمہ زراعت میں ڈپٹی سیکریٹری تھا۔ایک دن دوپہرکوقادری صاحب سے ملنے گیا۔ سرکاری جیپ میں آٹا،چینی،دالیں اوردیگراشیاء رکھ لیں۔وہ اپنے کمرے میں ہی موجود تھے۔نوکرباہرسے تھیلے میں چند چیزیں ڈال کرسائیکل پرآرہاتھا۔اسے روک کرکہاکہ کھانے پینے کی تمام اشیاء جیپ سے نکال کر لے جائے تاکہ وہ لوگوں کوکھاناپکانے کے عمل میں استعمال ہوسکیں۔نوکرنے ہنسنا شروع کردیا۔ کہنے لگاکہ وہ تیس سال سے اس جگہ پر کام کررہاہے۔آج تک قادری صاحب نے کسی سے کوئی بھی عطیہ یاہدیہ قبول نہیں کیا!عرض کی کہ میں قادری صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔پندرہ بیس منٹ میں قادری صاحب سفاری سوٹ پہنے باہرآئے۔

انتہائی ادب سے آنے کامدعابیان کیا! مسکرائے اورکہنے لگے کہ بیٹا،یہ اخراجات کامعاملہ میرے اورمیرے خداکے درمیان ہے۔اسکاکسی سے کوئی تعلق نہیں۔مگرمسکراکردعادی اورکہنے لگے کہ ڈاکٹر!ایک کام کرو۔تم اب باغ جناح میں"ترت میر"کے مزارپرچلے جاؤ۔وہاں دائیں جانب چبوترے پرایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوگی۔یہ ساراسامان اسے دے دینا۔میں جب ترت میرکے مزارپرپہنچاتوایک بوڑھی سی عورت،پلاسٹک کے چندلفافے لیے مزارکے باہرچبوترے پر براجمان تھی۔میں نے گاڑی سے تمام چیزیں نکال کراس عورت کے حوالے کردیں۔ بزرگ خاتون نے صرف ایک جملہ کہا،کہ یہ ساراسامان قادری سرکارنے بھجوایاہے؟میراذہن ایک دم بھک سے اڑگیا!یہ سارامعاملہ کیاہے!میرے پاس اپنے ہی کسی سوال کا رتی بھربھی کوئی جواب نہیں تھا۔

عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس دن سے لے کرآخر تک قادری صاحب نے مجھ سے یہ نہیں پوچھاکہ کیامیں نے وہ سامان بوڑھی عورت کے حوالے کیایا نہیں کیا؟انکوعلم تھاکہ ان کے حکم کی تعمیل کردی گئی ہے۔اس تمام واقعہ کاایک اورپہلوبھی ہے۔وہ بزرگ عورت دہائیوں سے باغ جناح سے باہر نہیں نکلی تھی۔رات کو"ترت میر"کے مزارپرسوجاتی تھی یاباغ کے کسی بینچ پرنیندپوری کرلیتی تھی۔یہ سب کیسے ہوتاہے اورکیوں ہوتاہے!یقین فرمائیے کہ میرے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں ہے!ایک دن قادری صاحب مجھے کہنے لگے!کہ علی ہجویری کوکیاہوگیاہے؟میں شروع میں سمجھ ہی نہیں پایا۔ کہنے لگے کہ آج کل انھیں ایک نیاشوق شروع ہوگیاہے۔

کہنے لگے،کہ ڈاکٹر!غیرملکی پتھراورٹائلوں کاشوق انکوپہلے نہیں تھا؟ 1940ء سے میں ان سے ملتا رہا ہوں۔ پہلے تومزارکے ہرجانب صرف اورصرف کچی مٹی تھی اورلوگ مرقدکی ہرجانب دیے جلادیتے تھے! قیمتی پتھرکاشوق انھیں ابھی ابھی ہواہے!میں ان کی باتیں سن کر خاموش ہوگیاکیونکہ ہربات میری عقل کے اوپرسے گزر رہی تھی۔ واپسی پرحضرت داتاگنج بخشؒکے مزارکی جانب گیاتووہاں تعمیرکاکام جاری تھا۔کئی مزدور فرش پرغیرملکی پتھر اورٹائلیں لگارہے تھے!میں مکمل خاموشی سے واپس آگیا! میرے پاس اس کے سواکوئی راستہ بھی نہیں تھا!

جمعہ کوشام نوبجے آئرلینڈ کے صوفی کافون آیا۔کہنے لگے ' بلائے جارہے ہو۔درویش نے حکم دیاکہ ڈاکٹر کوبلاؤ!میں نے پہلے توکئی بہانے تراشنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔کیونکہ بلاواواقعی حقیقی تھا۔جب درویش کی خدمت میں حاضرہواتوفرمانے لگے کہ ساتھ چلناہے۔میں گھبرا سا گیا کہ پتہ نہیں کہاں جاناہے!ذہن میں یہ سوال بھی آیاکہ کیوں جاناہے!درویش کے اردگردچنداورلوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔تمام انتہائی پڑھے لکھے لوگ!تمام باوضو تھے! آئرلینڈ کے صوفی کے چہرے پراتنی بشاشت اورتازگی تھی کہ میں حیران رہ گیا!

خیردرویش کے ساتھ ہم دس بارہ لوگ روانہ ہوگئے!آگے کے مناظرلکھنے کی مجھے اجازت نہیں!جہاں گئے،اس جگہ کاذکرکرنے کی بھی ممانعت ہے۔شائدممانعت مناسب لفظ نہیں!مجھ میں بتانے کی ہمت ہی نہیں!وہ دوگھنٹے کیسے گزرے!میں عرض نہیں کرسکتا!فقط یہ لکھ سکتاہوں بلکہ میرے لیے یہ تجربہ خیرہ کن تھا۔ واپسی پردرویش نے میرے اوپرخاص مہربانی کی!گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھ گئے۔میں نے انجانے میں صرف ایک فقرہ کہہ دیاکہ جناب!یہ سب کچھ توبڑی ریاضت سے حاصل کردہ ہے؟جواب ملا!کہ ریاضت توکچھ بھی نہیں!یہ سب کچھ توآقاؐکی رحمت اورمالک کی محبت کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے!اس میں انسان کی کسی محنت کاکوئی تعلق نہیں!میںخاموش ہوگیا۔گھرآکر پوری رات جاگتارہا۔بلکہ سوچتارہا!کہ یہ سب کچھ کیاہے؟

واپسی پر آئرلینڈ کاصوفی مکمل استغراق میں تھا۔کہنے لگاکہ گھرجاکرایک کام کرنا۔دونفل ضرور اداکرنا۔ مگر کیوں! میں نے قطعاًنہیں پوچھا؟گھرآکرمیں نے اپنی اسٹڈی میں مصلہ بچھاکرصوفی کے اس حکم کی تعمیل کردی۔عجیب قلبی سکون ملاجوپہلے کبھی بھی محسوس نہیں کیاتھا!

مگریہ کون لوگ ہیں!یہ درویش،یہ آئرلینڈ کاصوفی حقیقت میں کیاہیں!ان کی اصلیت کیاہے!یہ سب کچھ ایساکیوں کررہے ہیں!میرے پاس ان سوالات کاکوئی جواب نہیں ہے!سچ پوچھیے،تواب کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا!مگر ان لوگوں نے مجھے ایک ریلوے اسٹیشن پرلکڑی کے بینچ پربٹھادیاہے۔ہرجانب سے ٹرینوں کی آمدورفت کاشور ہے! لوگوں کاایک ہجوم ہے!مگردرویش نے مجھے نہیں بتایاکہ میں نے کس ٹرین میں سوارہوناہے!مجھے توایسے لگتاہے کہ ریلوے جنکشن پرمیں بالکل اکیلابیٹھاہواہوں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں