مڈٹرم الیکشن کنجی کس کے ہاتھ میں
مڈٹرم الیکشن وزیرِاعظم کی صوابدید پر منحصر ہے لیکن اس کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔
BAHAWALPUR:
پاکستان پیپلز پارٹی کے کراچی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے اپنی دانست میں بڑی ذومعنی بات کہی ہے کہ مڈٹرم الیکشن وزیرِاعظم کی صوابدید پر منحصر ہے لیکن اس کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔ گویا پیپلز پارٹی جب چاہے گی ایسے حالات پیدا کر دیگی کہ وزیرِاعظم اپنے حالیہ دورِ اقتدار کو مختصر کرکے مڈٹرم الیکشن پر مجبور ہو جائیں یہ دبے اور خفیہ لفظوں میں وزیرِاعظم کو ایک انتباہ اور وارننگ بھی ہے ۔
جو کام عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں اور جلسوں سے نہ ہوا ، وہ اعتزاز احسن کی پارٹی باآسانی کروا سکتی ہے کیونکہ لوہا تو ویسے ہی گرم ہوچکا ہے، بس ایک زبردست چوٹ لگانے کی ضرورت ہے مگر یہ آخری چوٹ وہ کب لگاتی ہے؟ شاید اسے خود بھی معلوم نہیں ۔ جب وہ دیکھے گی کہ اس کے الیکشن جیتنے کے لیے حالات سازگار اور موافق ہوچکے ہیں تو وہ یہ کام بلاتامل اور بلاتاخیر کر گزرے گی ۔
ابھی فی الحال اسے مسلم لیگ (ن) سے زیادہ تحریک انصاف سے خطرہ ہے، جو خیبر پختونخوا سے نکل کر پنجاب اور سندھ کو فتح کرنے کے لیے پر تول رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حالیہ مشکل وقت میں میاں صاحب کا جمہوریت کے نام پر جو ساتھ دیا تھا وہ ان سے کسی ہمدردی یا بھائی چارگی کی بنیادوں پر ہرگز نہیں تھا بلکہ دراصل اسے عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ تھا اور اسے معلوم تھا کہ ایسے وقت میں حکومت گرانے کے کسی عمل میں مدد دینے کا مطلب عمران خان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے مترادف ہوگا اور تمام ثمرات کا وصول کنندہ وہ نہیں کوئی اور ہوگا ۔
پی ٹی آئی کو پہلے کبھی وفاق میں حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا ہے لہٰذا وہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں جیسے الزامات سے ابھی تک مبرا اور محفوظ ہے اور اسی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اس کی جانب متوجہ ہوتی جا رہی ہے جب کہ ان کے سیاسی کزن طاہرالقادری کی پارٹی پاکستان عوامی تحریک ہنوز وہ رنگ جما نہیں پائی ہے جسے انتخابات جیتنے کی ضمانت قرار دیا جا سکے البتہ اس نے عمران خان کے ساتھ اپنی آواز ملاکے اور دھرنوں اور جلسوں کی سیاست شروع کر کے خود عمران خان کو مضبوط کرنے میں بڑا فعال کردار ادا کیا ہے ، بصورت دیگر عمران خان اکیلے شاید وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرپاتے جو وہ ابھی تک حاصل کرپائے ہیں ۔ تحریک انصاف کی جانب سے سیاسی ماحول کوگرم رکھنا اب اس کی مجبوری بن چکا ہے اسی لیے وہ اسلام آباد کے دھرنوں کو ٹھنڈا ہوتا دیکھ کر عوام الناس کو جگانے کے نام پر بڑے بڑے جلسے کرکے خود کو زندہ اور فعال رکھنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے ۔
جب ان جلسوں کی رونقیں بھی ماند پڑنے لگیں گی تو کوئی اور فارمولا آزمایا جائے گا۔ شیخ رشید تو پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک گیر ہڑتال اور پہیہ جام کرنے کی کال دی جائے گی ۔ پیپلز پارٹی ابھی فی الحال یہ سارا تماشا خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی ہے ، جب کھیر پک کے تیار ہوجائے گی تو بلی جھپٹا ضرور مارے گی۔ پی پی کے لوگ اپنے جلسوں اور سیاسی بیانات میں عمران خان سمیت مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تاکہ اپوزیشن کے کردار کا کچھ بھرم بھی باقی رہے اور میاں صاحب سے اپنی دائمی دشمنی کا حساب کتاب بھی چلتا رہے ۔
یہ میثاق جمہوریت ایک ایسا خوب صورت ہتھیار ہے جسے ان دونوں پارٹیوں میں سے جو جب چاہے استعمال کرکے اپنے مخلص اور دیانتدار ہونے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن جب سیاست میں مفادات عزیز ہوجائیں تو کوئی معاہدہ اور سمجھوتہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی پی پی پی اپنی حالیہ حکمت عملی کو جمہوریت کی بقا سے وابستہ اور منسلک کیے ہوئے ہے، اس کے اکابرین یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم صرف جمہوریت کے ساتھ ہیں، کسی شخص یا کسی فریق کی حمایت نہیں کر رہے ۔ میاں صاحب کو اب یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ ان کے اس اقتدار کو لاحق خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی حالیہ جدوجہد جب کچھ دھیمی پڑنے لگے گی تو پیپلز پارٹی سرگرم ہو کر میدان میں کود پڑیگی ۔ بہت ممکن ہے اپنی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے وہ وقتی طور پر عمران خان کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرلے ۔
ادھر عمران خان بھی جب یہ دیکھیں گے کہ کئی ماہ سے جاری ان کی تحریک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپائی ہے تو وہ زرداری صاحب سے بھی بغل گیر ہونے میں کچھ عار محسوس نہیں کرینگے ۔ ویسے بھی انھوں نے اپنی پارٹی کو ان عناصر سے بھر دیا ہے جن کے خلاف علم بغاوت لے کر وہ میدان میں اترے تھے۔ ملتان کے حالیہ ضمنی الیکشن میں عامر ڈوگر کی حمایت کرنا کرپٹ نظام کی مخالفت کے زمرے میں کسی طور گردانا نہیں جاسکتا۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید بھی اسی نظام کا حصہ تھے، جن کی مخالفت میں تحریک انصاف معرض وجود میں آئی تھی ۔
جاوید ہاشمی جیسے پاک صاف لوگ ان کی پارٹی میں کوئی جگہ بنا نہیں پائے اسی لیے وہ باغی اور داغی کہلائے۔ دنیا جاوید ہاشمی کے ماضی سے پوری طرح آشنا ہے ان پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام کوئی بھی نہیں لگا سکتا ، نہ ہی ان کے کسی رشتے دار نے ان کی سیاسی حیثیت کا کوئی فائدہ حاصل کیا ۔ وہ اپنے مزاج کا منفرد اور اکیلا ہی شخص تھا جو ضمنی الیکشن ہار کے بھی سرخرو ہوچکا ہے ۔آنے والے چند مہینوں میں پاکستان کی سیاست کیا رنگ بکھیرتی ہے یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم، لیکن اتنا ضرور ہے کہ سیاسی کشمکش کا یہ سفر اسی طور جاری رہے گا ۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہیںگے ۔ کبھی حکومت کمزوردکھائی دیگی اور کبھی اس کے مخالف ۔ سیاست میں کوئی دشمن مستقل دشمن نہیں رہتا اور کوئی دوست ہمیشہ دوست نہیں رہتا ۔ آج جمہوریت کے نام پر حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آنیوالے کل اچانک کب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ابھی کسی کو نہیں پتہ۔ پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ اس وقت تک نبھاتی رہے گی جب تک وہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کرلیتی۔
اس مقصد سے زرداری صاحب پنجاب میں مسلسل پڑاؤ ڈالنے کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اور پارٹی کے تمام عہدیداروں اور ورکروں کو مکمل فعال ہونے کا حکم بھی صادر فرما چکے ہیں مگر لگتا ہے یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ مسلم لیگ سے مایوس ہونیوالے ووٹر اب پیپلز پارٹی کی جانب مبذول ہونے کے بجائے تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول کا پہلا بڑا سیاسی شو لاہور کے بجائے کراچی میں کیا گیا مگر وہاں بھی وہ سحر نہیں دکھا سکا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔ اس سے قبل کہ بلاول زرداری اپنے پہلے سیاسی جلسے کی کامیابی کی دادیں وصول کرتے ایم کیو ایم نے ان کا سارا مزہ کرکرا کردیا ۔ انھوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنی تقریر میں عمران خان، میاں برادران اور ایم کیو ایم سمیت سب پر جو الزامات لگائے اور جو دھمکیاں دیں ان کا فوری ردعمل متحدہ کی جانب سے اچھا خاصا آچکا ہے ۔
سیاسی معرکہ آرائی کا یہ سفر نجانے کب ختم ہوگا، کون اپنے ارادوں میں کامیاب اور سرخرو ہوگا، حکومت کس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگی ، نئے الیکشن کی راہ کب اور کیسے ہموار ہوگی ، مڈٹرم الیکشن کی کنجی کس کے ہاتھ میں ہوگی ؟ اگلے چند ماہ میں واضح ہو جائے گا ۔ البتہ اس ساری کشمکش میں ہمارا غریب اور پیارا وطن یقیناً کمزور اور ناتواں ہوتا جائے گا ۔ جب کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس ساری صورتحال سے بڑا مسرور اور محظوظ ہورہا ہے ۔ ہم تنزلی اور انحطاط پذیری کی جانب مسلسل گامزن ہیں اور وہ ترقی و خوشحالی کے سفر پر تیزی سے رواں دواں ہے ۔ نجانے ہمیں کب اپنے علاوہ وطن عزیز کی فکر بھی لاحق ہوگی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کراچی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے اپنی دانست میں بڑی ذومعنی بات کہی ہے کہ مڈٹرم الیکشن وزیرِاعظم کی صوابدید پر منحصر ہے لیکن اس کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔ گویا پیپلز پارٹی جب چاہے گی ایسے حالات پیدا کر دیگی کہ وزیرِاعظم اپنے حالیہ دورِ اقتدار کو مختصر کرکے مڈٹرم الیکشن پر مجبور ہو جائیں یہ دبے اور خفیہ لفظوں میں وزیرِاعظم کو ایک انتباہ اور وارننگ بھی ہے ۔
جو کام عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں اور جلسوں سے نہ ہوا ، وہ اعتزاز احسن کی پارٹی باآسانی کروا سکتی ہے کیونکہ لوہا تو ویسے ہی گرم ہوچکا ہے، بس ایک زبردست چوٹ لگانے کی ضرورت ہے مگر یہ آخری چوٹ وہ کب لگاتی ہے؟ شاید اسے خود بھی معلوم نہیں ۔ جب وہ دیکھے گی کہ اس کے الیکشن جیتنے کے لیے حالات سازگار اور موافق ہوچکے ہیں تو وہ یہ کام بلاتامل اور بلاتاخیر کر گزرے گی ۔
ابھی فی الحال اسے مسلم لیگ (ن) سے زیادہ تحریک انصاف سے خطرہ ہے، جو خیبر پختونخوا سے نکل کر پنجاب اور سندھ کو فتح کرنے کے لیے پر تول رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حالیہ مشکل وقت میں میاں صاحب کا جمہوریت کے نام پر جو ساتھ دیا تھا وہ ان سے کسی ہمدردی یا بھائی چارگی کی بنیادوں پر ہرگز نہیں تھا بلکہ دراصل اسے عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ تھا اور اسے معلوم تھا کہ ایسے وقت میں حکومت گرانے کے کسی عمل میں مدد دینے کا مطلب عمران خان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے مترادف ہوگا اور تمام ثمرات کا وصول کنندہ وہ نہیں کوئی اور ہوگا ۔
پی ٹی آئی کو پہلے کبھی وفاق میں حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا ہے لہٰذا وہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں جیسے الزامات سے ابھی تک مبرا اور محفوظ ہے اور اسی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اس کی جانب متوجہ ہوتی جا رہی ہے جب کہ ان کے سیاسی کزن طاہرالقادری کی پارٹی پاکستان عوامی تحریک ہنوز وہ رنگ جما نہیں پائی ہے جسے انتخابات جیتنے کی ضمانت قرار دیا جا سکے البتہ اس نے عمران خان کے ساتھ اپنی آواز ملاکے اور دھرنوں اور جلسوں کی سیاست شروع کر کے خود عمران خان کو مضبوط کرنے میں بڑا فعال کردار ادا کیا ہے ، بصورت دیگر عمران خان اکیلے شاید وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرپاتے جو وہ ابھی تک حاصل کرپائے ہیں ۔ تحریک انصاف کی جانب سے سیاسی ماحول کوگرم رکھنا اب اس کی مجبوری بن چکا ہے اسی لیے وہ اسلام آباد کے دھرنوں کو ٹھنڈا ہوتا دیکھ کر عوام الناس کو جگانے کے نام پر بڑے بڑے جلسے کرکے خود کو زندہ اور فعال رکھنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے ۔
جب ان جلسوں کی رونقیں بھی ماند پڑنے لگیں گی تو کوئی اور فارمولا آزمایا جائے گا۔ شیخ رشید تو پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک گیر ہڑتال اور پہیہ جام کرنے کی کال دی جائے گی ۔ پیپلز پارٹی ابھی فی الحال یہ سارا تماشا خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی ہے ، جب کھیر پک کے تیار ہوجائے گی تو بلی جھپٹا ضرور مارے گی۔ پی پی کے لوگ اپنے جلسوں اور سیاسی بیانات میں عمران خان سمیت مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تاکہ اپوزیشن کے کردار کا کچھ بھرم بھی باقی رہے اور میاں صاحب سے اپنی دائمی دشمنی کا حساب کتاب بھی چلتا رہے ۔
یہ میثاق جمہوریت ایک ایسا خوب صورت ہتھیار ہے جسے ان دونوں پارٹیوں میں سے جو جب چاہے استعمال کرکے اپنے مخلص اور دیانتدار ہونے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن جب سیاست میں مفادات عزیز ہوجائیں تو کوئی معاہدہ اور سمجھوتہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی پی پی پی اپنی حالیہ حکمت عملی کو جمہوریت کی بقا سے وابستہ اور منسلک کیے ہوئے ہے، اس کے اکابرین یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم صرف جمہوریت کے ساتھ ہیں، کسی شخص یا کسی فریق کی حمایت نہیں کر رہے ۔ میاں صاحب کو اب یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ ان کے اس اقتدار کو لاحق خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی حالیہ جدوجہد جب کچھ دھیمی پڑنے لگے گی تو پیپلز پارٹی سرگرم ہو کر میدان میں کود پڑیگی ۔ بہت ممکن ہے اپنی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے وہ وقتی طور پر عمران خان کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرلے ۔
ادھر عمران خان بھی جب یہ دیکھیں گے کہ کئی ماہ سے جاری ان کی تحریک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپائی ہے تو وہ زرداری صاحب سے بھی بغل گیر ہونے میں کچھ عار محسوس نہیں کرینگے ۔ ویسے بھی انھوں نے اپنی پارٹی کو ان عناصر سے بھر دیا ہے جن کے خلاف علم بغاوت لے کر وہ میدان میں اترے تھے۔ ملتان کے حالیہ ضمنی الیکشن میں عامر ڈوگر کی حمایت کرنا کرپٹ نظام کی مخالفت کے زمرے میں کسی طور گردانا نہیں جاسکتا۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید بھی اسی نظام کا حصہ تھے، جن کی مخالفت میں تحریک انصاف معرض وجود میں آئی تھی ۔
جاوید ہاشمی جیسے پاک صاف لوگ ان کی پارٹی میں کوئی جگہ بنا نہیں پائے اسی لیے وہ باغی اور داغی کہلائے۔ دنیا جاوید ہاشمی کے ماضی سے پوری طرح آشنا ہے ان پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام کوئی بھی نہیں لگا سکتا ، نہ ہی ان کے کسی رشتے دار نے ان کی سیاسی حیثیت کا کوئی فائدہ حاصل کیا ۔ وہ اپنے مزاج کا منفرد اور اکیلا ہی شخص تھا جو ضمنی الیکشن ہار کے بھی سرخرو ہوچکا ہے ۔آنے والے چند مہینوں میں پاکستان کی سیاست کیا رنگ بکھیرتی ہے یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم، لیکن اتنا ضرور ہے کہ سیاسی کشمکش کا یہ سفر اسی طور جاری رہے گا ۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہیںگے ۔ کبھی حکومت کمزوردکھائی دیگی اور کبھی اس کے مخالف ۔ سیاست میں کوئی دشمن مستقل دشمن نہیں رہتا اور کوئی دوست ہمیشہ دوست نہیں رہتا ۔ آج جمہوریت کے نام پر حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آنیوالے کل اچانک کب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ابھی کسی کو نہیں پتہ۔ پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ اس وقت تک نبھاتی رہے گی جب تک وہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کرلیتی۔
اس مقصد سے زرداری صاحب پنجاب میں مسلسل پڑاؤ ڈالنے کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اور پارٹی کے تمام عہدیداروں اور ورکروں کو مکمل فعال ہونے کا حکم بھی صادر فرما چکے ہیں مگر لگتا ہے یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ مسلم لیگ سے مایوس ہونیوالے ووٹر اب پیپلز پارٹی کی جانب مبذول ہونے کے بجائے تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول کا پہلا بڑا سیاسی شو لاہور کے بجائے کراچی میں کیا گیا مگر وہاں بھی وہ سحر نہیں دکھا سکا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔ اس سے قبل کہ بلاول زرداری اپنے پہلے سیاسی جلسے کی کامیابی کی دادیں وصول کرتے ایم کیو ایم نے ان کا سارا مزہ کرکرا کردیا ۔ انھوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنی تقریر میں عمران خان، میاں برادران اور ایم کیو ایم سمیت سب پر جو الزامات لگائے اور جو دھمکیاں دیں ان کا فوری ردعمل متحدہ کی جانب سے اچھا خاصا آچکا ہے ۔
سیاسی معرکہ آرائی کا یہ سفر نجانے کب ختم ہوگا، کون اپنے ارادوں میں کامیاب اور سرخرو ہوگا، حکومت کس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگی ، نئے الیکشن کی راہ کب اور کیسے ہموار ہوگی ، مڈٹرم الیکشن کی کنجی کس کے ہاتھ میں ہوگی ؟ اگلے چند ماہ میں واضح ہو جائے گا ۔ البتہ اس ساری کشمکش میں ہمارا غریب اور پیارا وطن یقیناً کمزور اور ناتواں ہوتا جائے گا ۔ جب کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس ساری صورتحال سے بڑا مسرور اور محظوظ ہورہا ہے ۔ ہم تنزلی اور انحطاط پذیری کی جانب مسلسل گامزن ہیں اور وہ ترقی و خوشحالی کے سفر پر تیزی سے رواں دواں ہے ۔ نجانے ہمیں کب اپنے علاوہ وطن عزیز کی فکر بھی لاحق ہوگی ۔