پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر

تضمین نگاری ایک مشکل فن اور تخلیقی حوالے سے دوسرے درجے کا کام ہے کیونکہ اول درجے کی تخلیق ہمیشہ طبع زاد ہوتی ہے۔

RAJANPUR:
ڈاکٹر عزیز احسن اپنی کتاب ''پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر'' کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں کن کن شعرا کی شعری کاوشیں منظر عام پر آئیں، کن شعرا نے نعت کو باقاعدہ صنف سخن کے طور پر اپنایا اور وہ شاعر کون ہیں جو مدحیہ شاعری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ نعت گوئی کا علمی سطح پر کہاں تک تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لیا گیا اور یہ کام کس طرح اطمینان بخش ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا مختلف شعرا کے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کے اجتماعی انتخاب بھی مرتب ہوئے، کن اہل فکر و نظر نے اس کام کی طرف توجہ دی اور کیا ان کی کاوشوں سے نعتوں کو ادبی سطح پر روشناس کرانے میں کوئی مدد ملی؟

ڈاکٹر عزیز احسن نے پاکستان کے ابتدائی دور کے نعت گو شعرا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تمام شعرا جن میں انھوں نے حفیظ جالندھری، ماہر القادری، اثر صہبائی، صبا اکبر آبادی، رسول محشر نگری، رعنا اکبر آبادی، اقبال صفی پوری کو شامل کیا ہے، شعر و سخن کی کلاسیکی قدروں کے محافظ تھے۔ ان کی نعتوں میں زبان کی صفائی ہے اور قادر الکلامی کی شان بھی۔

ڈاکٹر عزیز احسن بتاتے ہیں کہ 1967 کی دہائی میں تقریباً ستر نعتیہ مجموعے شایع ہوئے۔ ان میں سے کچھ تو اس سے پہلے شایع ہوچکے تھے اور کچھ پہلی بار شایع ہوئے۔ جن معروف شعرا کے نعتیہ مجموعے شایع ہوئے ان میں رعنا اکبر آبادی، حافظ لدھیانوی، ساغر، جعفر طاہر، احسان دانش اور عاصی کرنالی شامل ہیں۔ نعتیہ شاعری میں تضمین نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں ''تضمین نگاری ایک مشکل فن اور تخلیقی حوالے سے دوسرے درجے کا کام ہے کیونکہ اول درجے کی تخلیق ہمیشہ طبع زاد ہوتی ہے لیکن یہی دوسرے درجے کا تخلیقی کام بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے کیونکہ جس شاعر کے کلام کی تضمین کی جاتی ہے، تضمین نگار کو اس کے تخلیقی تجربے کو پہلے اپنے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے، پھر اصل شاعر کے ہر شعر پر کم ازکم تین مصرعے ایسے بہم پہنچانے پڑتے ہیں جو تضمین نگار کے مصرعوں سے پیوستہ ہوکر من و تو کا احساس دور کردیں۔ بلال جعفری نے یہ کوشش کی ہے کہ لگ بھگ 105 شاعروں کے کلام پر بالالتزام تضمین کہی ہے اور بیشتر ان کی کاوش کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے۔''

پاکستان میں اردو نعت کے ادبی سفر کے اگلے عشرے یعنی 1977 سے 1986 کے دوران میں ڈاکٹر عزیز احسن کی تحقیق کے مطابق 230شعری مجموعے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ادبی رسائل میں بھی نعتوں کے اوراق وقف کیے جانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''مدحت مصطفیؐ کی طرف شاعروں کی توجہ مبذول ہونے میں اس دور کے مقتدر طبقے بالخصوص صدر ضیا الحق مرحوم کی فروغ نعت میں دلچسپی کو بھی دخل تھا۔ بہرحال جذبہ محرکہ کچھ بھی ہو نعت کو اس عہد میں خوب خوب فروغ ملا اور ادبی سطح پر اس صنف شعر کی پذیرائی ہونے لگی جب کہ اب تک شعرا اور ادبا مدحیہ شاعری کی طرف مجرمانہ غفلت کا شکار تھے۔''

عزیز احسن بتاتے ہیں کہ 1978 میں حفیظ تائب کا مجموعہ نعت شایع ہوا اور اس کے ساتھ ہی حفیظ تائب نعت کے لیے مختص ہوگئے پھر سرور کیفی کا پہلا شعری مرقع ''چراغ حرا'' اور مظفر وارثی کا ''باب حرم'' شایع ہوا۔ اعجاز رحمانی کی طویل مسدس ''سلامتی کا سفر'' اور خالد احمد کی ''تشبیب'' منظر عام پر آئی۔ سید قمر ہاشمی کی آزاد نظموں کا مجموعہ ''مرسل آخر''، عارف عبدالمتین کی نعتیں ''بے مثال'' اور صہبا اختر کا نعتوں کا مجموعہ ''اقرا'' مقبول عام ہوا۔ ''قاب قوسین'' اقبال عظیم کا پہلا مجموعہ نعت تھا۔


نعتیہ ادب میں اساتذہ فن کی شمولیت کے عنوان کے تحت ڈاکٹر عزیز احسن نے جن شعرا کے نعتیہ کلام کا ذکر کیا ہے ان میں راغب مراد آبادی تابش دہلوی اور اثر زبیری شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ 1986 سے1997 کے عشرے میں تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی سطحوں پر کام مزید آگے بڑھا۔ تنقیدی جہت تو بالخصوص اسی عشرے میں روشن ہوئی۔ اس دورانیے میں کم و بیش پونے 4سو نعتیہ مجموعے شایع ہوئے۔ اس عہد میں چھپنے والا کلام ادبی خوبیوں کے لحاظ سے وقیع تر، آہنگ، لہجے اور اسلوب کے حوالے سے جدید تر اور نئی شعریات کے شعور کے پھیلاؤ اور نعت میں اس کے بھرپور ادراک کے سلسلے میں لائق اعتنا ہے۔ اس دہائی میں سامنے آنیوالی کتابیں ظاہر کرتی ہیں کہ اب باقاعدہ سنجیدہ ادب تخلیق کرنیوالے شعرا بھی صف نعت گویاں میں شامل ہونے کو سعادت سمجھنے لگے ہیں چنانچہ سعید وارثی کی کتاب ''ورثہ'' جدید لہجے میں نعتیہ شعر تخلیق کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔

اسی طرح نعیم صدیقی کا نام مدحت سرکار مدینہؐ کو ادب کے عصری تقاضوں کے لحاظ سے شعری پیکر دینے میں ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ سرشار صدیقی کی کتاب ''اساس'' نئے طرز احساس اور جدید نظریہ فن کی مظہر ہے اور احمد ندیم قاسمی کی کتاب ''جمال'' مدحت نگاری میں شعری جمالیات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ صبیح رحمانی کے بارے میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں کہ وہ ''ادبی خلوص، شاعرانہ سچائی اور تخلیقی لطافت کے ساتھ نعت گوئی میں مصروف ہیں۔ فن میں جدت پسندی اور خلاقانہ قوت کے راست استعمال نے انھیں وہ مقام دلادیا ہے جس کے لیے لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں، پھر بھی حاصل نہیں ہوتا۔ صبیح کی شاعری میں شاعرانہ مصوری کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔''

حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری کی نعتوں کے دو مجموعے منظر عام پر آئے ہیں، ایک ''زخمہ دل'' اور دوسرا ''ثنائے خواجہ'' ان کی نعتوں میں خیال کی پاکیزگی اور اظہار کی نفاست نمایاں ہے۔ 1990 سے 2000 تک نعتوں کے جو مجموعے شایع ہوئے ان میں ڈاکٹر عبدالخیر کشفی، طاہر سلطانی، اقبال عظیم، مسعود چشتی، شمیم تھراوی، علیم النسا ثنا، وقار اجمیری، علیم ناصری، خالد شفیق، مسرور جالندھری کے مجموعے قابل ذکر ہیں۔ پیر صاحب گولڑہ شریف، سید نصیرالدین کے بارے میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں کہ انھوں نے متین لہجے اور ثقہ متن کے اہتمام سے نعتیں کہی ہیں۔ ان کا شعری مذاق غزل کے کلاسیکی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ ''دیں ہمہ اوست'' ان کا مجموعہ نعت ہے۔ 1900 کے عشرے میں لالہ صحرائی کے متعدد نعتیہ مجموعے منظرعام پر آئے۔ ڈاکٹر عزیز احسن کہتے ہیں کہ ''موضوعاتی تنوع کے باعث لالہ صحرائی کی نعتیہ شاعری کو ایک منفرد مقام حاصل ہوگیا ہے۔'' اس دور میں قمر یزدانی کی نعتوں کے چار مجموعے شامل ہوئے۔

ڈاکٹر عزیز احسن کہتے ہیں ''پاکستان میں جب نعتیہ شاعری کا غلغلہ بلند ہوا تو اس فن شریف کی آبیاری کرنے والے شعرا نے موضوع کی عظمت کو شعری رفعتوں سے آشنا کرنے کے لیے غالب کی زمینوں میں نعتیں کہہ کر نعتیہ شاعری کو شاعری کے اعلیٰ نمونوں سے ہم کنار کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ متعدد نعتیہ مجموعے اس رجحان کی عکاسی کا مظہر بن کر منصہ شہود پر آئے۔ ساجد اسدی نے غالباً سب سے پہلے غالب کے پورے دیوان کی غزلوں پر نعتیہ غزلیں کہیں۔''

نعتیہ ادب میں ہیئتی تنوع کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں ''نعتیہ شاعری کا غالب حصہ تو غزل کی ہیئت(Form) میں ہے لیکن مدح سرور دو جہاںؐ کسی صنف سخن کے دائرے میں محدود نہیں۔ اظہار و ابلاغ کی جتنی صورتیں اور شعر کی جتنی اصناف ہیں وہ سب کی سب نعتیہ شاعری میں برتی جاتی ہیں اور شعرا نے ہر صنف سخن میں نعت کہی ہے۔''

دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی نعتوں کے اردو میں ترجمے بھی ہوئے ہیں۔ منظوم سیرت کی کتابیں بھی اچھی خاصی تعداد میں شایع ہوئی ہیں۔ احادیث کے منظوم ترجمے بھی سامنے آئے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں ''پاکستان کے مختلف شہروں میں نعتیہ شاعری کی رفتار اتنی تیز رہی ہے کہ اب بعض شہروں کے حوالے سے نعت کے دبستان تشکیل پاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔'' اس دوران میں تخلیق کے علاوہ تحقیق، تنقید اور تدوین کا عمل بھی نعتیہ سرمائے میں اضافے اور اعتبار کا سبب بنا ہے جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اجمالی طور پر اپنی کتاب میں کیا ہے۔
Load Next Story