ایوبی آمریت پر ایک نظر
ایوب خان نے آمریت مخالف لوگوں کو پوری طاقت سے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام تو اسی وقت پیدا ہوچکا تھا جب 16اکتوبر 1951 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران شہید کردیا گیا۔ غلط یہ بھی ہوا کہ سید اکبر جو کہ ان کا قاتل تھا اس کو بھی اسی مقام پر گرفتار کرنے کی بجائے قتل کردیا گیا گویا نہ ہوگا بدبخت قاتل نہ ہوگی لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات البتہ ان کے قتل میں ملوث خفیہ طاقتیں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکی تھیں جس کا عملی مظاہرہ قوم نے 1951 سے 1958 تک دیکھا۔
ان سات برسوں میں آٹھ وزراء اعظم تبدیل ہوئے حد تو یہ کہ 1957 میں تین وزرا اعظم تبدیل کردیے گئے۔ گویا گورنر جنرل غلام محمد اور ان کے جانشین اسکندر مرزا نے عہد کر رکھا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں پیدا ہونے دینا۔ ہوس اقتدار کا یہ عالم تھا کہ 9 برس تک قانون سازی پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور 1956تک برٹش گورنمنٹ کا 1935 کا نافذ کردہ انڈیا ایکٹ ہی پاکستان کا آئین تھا خدا خدا کرکے۔1956 میں 23 مارچ کو دستور ساز اسمبلی کا منظور کردہ آئین اسکندر مرزا کے دستخط سے نافذ ہوگیا۔
اس آئین کے تحت گورنر جنرل کی جگہ صدر کا عہدہ تخلیق ہوا اور اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر قرار پائے، اسی آئین کے تحت نومبر 1958 میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں خواتین کو بھی دستور ساز اسمبلی میں نمایندگی ملتی اور ہر صوبے سے پانچ پانچ خواتین کی دستور ساز اسمبلی تک رسائی ہوتی۔ مگر اقتدار پرست اسکندر مرزا نے انتخابات کی تاریخ مارچ 1959 تک بڑھا دی، لیکن انتخابات کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ اسکندر مرزا نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے 1958 میں 7 اکتوبر کو آئین منسوخ کردیا۔ مرکزی وصوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور بری فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔
ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو ملک کے طول و عرض میں مارشل لا لاگو کردیا اور صدر اسکندر مرزا کو معزول کرکے خود منصب صدارت سنبھال لیا۔ ایوب خان کا یہ اقدام بنگلہ دیش کے قیام کی عمارت کا پہلا پتھر ثابت ہوا۔ کیونکہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے لوگوں میں احساس محرومی جنم لے چکا تھا تمام تر حکومتی اختیارات کا محور ایوب خان کی شخصیت بن چکی تھی۔ ایوب خان نے آمریت مخالف لوگوں کو پوری طاقت سے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی چنانچہ 13 نومبر 1960 کو لاہور کے شاہی قلعے میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما حسن ناصر کی اذیت ناک موت اس بات کا بڑا واضح ثبوت ہے۔
یکم مارچ 1962 کو ملک میں نیا صدارتی آئین نافذ ہوا۔ اس آئین میں ایوب خان کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ اسی آئین کے تحت 28 مارچ 1962 کو 80 ہزار B.Dممبرز منتخب ہوئے جنھوں نے 8 جون 1962 کو مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا انتخاب کیا مرکزی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 156 تھی۔ جن میں 6 خواتین بھی شامل تھیں ۔ان ارکان کا انتخاب مشرقی و مغربی دونوں حصوں سے مساوی طور پر کیا گیا۔
اس اسمبلی کی مدت 3برس تھی۔1962 کے صدارتی آئین کے نفاذ سے سیاسی جماعتوں پر اگرچہ پابندی لگادی گئی تھی مگر ستمبر 1962 کو سرکاری سیاسی جماعت کنونشن مسلم لیگ معرض وجود میں آگئی اور ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتیں جو پابندی کا شکار تھیں بحال ہوگئیں ماسوائے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جس پر 1954 میں پابندی لگا دی گئی تھی چلو ادھر کو جدھر کی ہوا چلے کے فارمولے کے تحت ملک کے جاگیردار سرمایہ دار و موقع پرست و اقتدار پرست لوگ سرکاری جماعت کنونشن مسلم لیگ میں شریک ہوتے چلے گئے جب کہ 5 جنوری 1965 کو ملک میں صدارتی انتخاب کا اعلان کیا گیا۔
متحدہ حزب اختلاف نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ امیدوار نامزد کردیا۔ اس انتخابی مہم میں محترمہ فاطمہ جناح کے پاس ایوب خان کے خلاف بولنے کے لیے بہت مواد تھا چنانچہ محترمہ فاطمہ جناح نے زور خطابت خوب آزمایا جب کہ ایوب خان محترمہ کے خلاف اگر ایک لفظ بھی بولتے تو خود کو ذلیل کرنے کے مترادف تھا مگر 5 جنوری 1965 کو صدارتی انتخاب کا نتیجہ ایوب خان کے حق میں چلا گیا ۔
1968 تک کیفیت یہ تھی کہ ملک کے مشرقی حصے میں احساس محرومی جب کہ مغربی حصے میں ایوبی آمریت کے خلاف غم و غصہ اپنے عروج پر تھا مگر ایوب خان کے اردگرد خوشامدی لوگوں کا ٹولہ ایوب خان کو سب اچھے کی رپورٹ دے رہا تھا۔ خوشامدانہ جملے ایوب خان کو خوب مرغوب تھے۔ چنانچہ ایوان صدر میں یہ فیصلہ ہوا کہ ایوبی آمریت کے دس برس مکمل ہونے پر پورے ملک میں جشن منایا جائے۔ چنانچہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے من پسند پرنٹ میڈیا کو خوب نوازا گیا مگر یہ جشن منانا ہی ایوب خان کی سنگین ترین غلطی تھی کیونکہ مسائل سے دوچار پوری قومی ایوبی آمریت کے خلاف سڑکوں پر آچکی تھی اور سراپا احتجاج تھی۔
اس احتجاجی تحریک میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شریک تھے بالخصوص صنعتی مزدور و طلبا نے اس ملک گیر تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ آمر ایوب خان تمام تر معاشی ترقی کے دعوؤں کے باوجود عوامی تحریک کا سامنا نہ کرسکے اور 25 مارچ 1969 کو امور مملکت یحییٰ خان کے سپرد کرکے اپنے آبائی گاؤں ریحانہ تحصیل ہری پور کی راہ لی۔ مناسب اقدام یہ تھا کہ ایوب خان عام انتخابات کروا دیتے اور اقتدار عوامی نمایندوں کے سپرد کرکے رخصت ہوتے مگر ان کی انا پرستی نے انھیں ایسا نہ کرنے دیا ۔
چنانچہ دس برس پانچ ماہ تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے ایوب خان نے اپنی زندگی کے چند برس اپنے آبائی گاؤں میں بسر کیے اور بالآخر اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کرکے ریحانہ گاؤں میں سڑک کنارے دفن ہوگئے اور آج عام پاکستانی ایوب خان کے بارے میں اتنا باخبر بھی نہیں کہ وہ کس تاریخ کو فوت ہوئے تھے آخر میں اتنا ضرور عرض کرونگا کہ آمر ایوب خان نے جو غیر آئینی قدم 27 اکتوبر 1958 کو اٹھایا اور جو طرز حکومت اپنایا اور ان کے طرز حکومت کو جس طرح ان کے جانشین جناب یحییٰ خان نے جاری رکھا اس سے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پیدا ہوا اور اسی احساس محرومی کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ آج ملک میں جاگیرداری و سرمایہ داری آمریت قائم ہے۔ کاش یہ لوگ آمر ایوب خان جیسے لوگوں کے انجام سے کوئی سبق حاصل کرلیں۔