پاکستان ایک نظر میں افواہوں کا بازار

خداراء صحافت کا جنازہ محض ایک ٹوئیٹ کی بنیاد پر نکالنے کی روایت ختم کی جائے ۔

خداراء صحافت کا جنازہ محض ایک ٹوئیٹ کی بنیاد پر نکالنے کی روایت ختم کی جائے ۔ فوٹو فائل

HYDERABAD:
شہر قائد میں افواہوں کا بازار ہر وقت سرگرم رہتا ہے ۔ اس افواہ میں کچھ لوگ اپنے پیاروں کے حوالے سے پریشان ہوجاتے ہیں تو کچھ لوگ اس صورت حال کو بھر پور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں ۔ انجوائے کرنے والے افراد چاہیے جو بھی ہوں ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح ہر افواہ کا الزام اپنے مخالفین پر لگایا جائے اور سیاسی و مذہبی پوائنٹ اسکورنگ کی جائے ۔ان دونوں طبقوں کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان افواہوں کی سچائی جاننے کا خواہش مند رہتا ہے اور اِس خواہش کو پوری طرح طریقے سے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔ مگر بے حد افسوس 2کروڑ کے اس شہر میں ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔

مورخہ 25 اکتوبر بروز ہفتہ آفس پہنچنے اور حسب معمول کام کرنے کے بعد میں نے اپنا ٹوئیٹر اکاؤنٹ لا گ ان کیا ۔ تقریبا 12بجے کے قریب ایک ٹوئیٹ نظر سے گزری کہ صرف کراچی میں تمام نیوز چینل بند ہوگئے ہیں ۔ پہلے تو یہ بعض گشت کم ہی لوگ کر رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ جو جو سو کر اٹھ کر اٹھتا گیا یہی ٹوئیٹ کرتا گیا۔ شروع میں تو لوگ حسب توقع یہ سمجھے کہ شاید بوٹ کی آواز آنے والی ہے۔ لیکن جب اس بات کی تصدیق ہوئی کہ نیوز چینل صرف کراچی کی حد تک بند ہیں تو اُن کو یقین ہوگیا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا ۔

اسی دوران وزیر اطلاعات سندھ کا ایک ٹوئیٹر پیغام موصول ہوا کہ اس کے پیچھے مافیا ملوث ہے ۔ تاہم حسب معمول وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ یہ مافیا کون سی ہے ۔ اب سب لوگ یہ یقین کر بیٹھے کہ یہ اشارہ مخصوص جماعت کی طرف ہے ۔ حتی کہ ایک نجی صحافتی ادارے نے اسکی خبر بھی بنادی اور اِس خبر کی بنیاد پر دیگر ادارے بھی یقین کر بیٹھے ۔ بغیر کسی تصدیق کے کہ یہ ٹوئیٹر آئی ڈی جعلی ہے یا اصلی آیا اس بات میں کتنی سچائی ہے۔ خیر اس بات سے تو لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں شاید تمام نیوز چینل ٹوئیٹس کے اوپر چلا کریں گے۔ چونکہ ابھی بھی ہر بلیٹن میں ایک ، دو ٹوئیٹ شامل کر ہی دیتے ہیں۔


نیوز چینل کی بندش کی خبر میرے کانوں پر پڑی تو میں نے اپنے طور پر تحقیق کا فیصلہ کیا اور اسی فیصلے کے تحت میں جو بھی لکھ رہا ہوں سچ اور حق لکھ رہا ہوں۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ جن مخصوص لوگوں سے اس واقعے کو منصوب کیا جارہا تھا وہ اسکے پیچھے دُور دُور تک ملوث نہیں ۔ چونکہ کراچی کے موجود حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میرے ذہن نے بھی اس واقعے کو سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے جوڑا تھا، اور دیگر لوگ بھی یقیناً یہی سوچ رہے ہوں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔

میں نے جب اس خبر کی تصدیق کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے تو پتا چلا کہ پیمرا اور کیبل آپریٹر کے آپسی پھڈے کا سارا ملبہ ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی مخصوص جماعت پر ڈال دیا گیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ معروف کیبل آپریٹر مستقبل میں K-21 چینل لائچ کرنے کا اداکارہ رکھتے ہیں، جس پر پیمرا نے پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کراچی کیبل آپریٹرز کے آفس پر کارروائی کی ، وہاں موجود سامان توڑ دیا گیا اور ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ۔اس تمام کارروائی کے خلاف کیبل آپریٹرز نے نیوز چیلنز کی بندش کی صورت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اور اعلی حکام کی جانب سے ہر قسم کی شکایت کے ازالے پر نیوز چینل بحال کر دئیے گئے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خداراء صحافت کا جنازہ محض ایک ٹوئیٹ کی بنیاد پر نکالنے کی روایت ختم کی جائے ۔ پہلے تو نشر کی جانے والی خبر کی تصدیق کی جائے اور اگر خبر غلط نشر ہوگئی ہے تو اسکی تصیح کے لئے دوسری خبر شائع کی جائے۔ پہلے ہم ، پہلے ہم کے چکروں میں خبروں کا معیار خراب نہ کیا جائے۔ موجودہ نیوز چینل کی بھرمار میں اگر آپ ناظرین کی دلچسپی کا باعث بننا چاہتے ہیں تو خبریں حقائق کی بنیاد پر بیان کریں ورنہ ناظرین جلد ہی آپ کے چینل کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ صحافت سچ کا نام ہے یہ نام برقرار رکھیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story