پاکستان ایک نظر میں تباہی کا انتظار

جتنا شکرادا کیا جائے کم ہے کہ خطے میں آنے والے گاہے بگاہے طوفانوں سے پاکستان کے ساحلی علاقے ہمیشہ ہی محفوظ رہے ہیں۔


فہیم پٹیل October 28, 2014
بھلا دنیا میں کونسی قوم ہے جو تباہی کا اِس بے چینی سے انتظار کرتی ہے؟ یہاں لوگوں کے مستقبل کا دارومدار اِس طوفان سے لگا ہوا ہے، جو اپنی جانوں سے بھی جا سکتے ہیں اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے بھی، مگر لوگ ہیں کہ ‘نیلوفر’ کو دیکھنے کیلئے بے تاب ہورہے ہیں۔۔۔ فوٹو: رائٹرز

اپنی بات شروع کرنے سےپہلے یہ بات واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ نہ تو میرا تعلق موسمیات کے شعبے سے ہے اور نہ ہی میں موسم اور طوفان کے حوالے سے کوئی معلومات رکھتا ہوں ۔۔۔ بس بارشوں اور کسی بھی قدرتی آفات کی آگہی کے لیے اکثریت کی طرح حکومت اور حکومتی اداروں کی جانب سے پہنچائی جانے والی خبروں پر ہی انحصار کرتا ہوں۔

ہم اپنے رب کا جتنا شکر ادا کریں اُتنا ہی کم ہے کہ خطے میں آنے والے گاہے بگاہے طوفانوں سے پاکستان کے ساحلی علاقے ہمیشہ ہی محفوظ رہے ہیں یا اگر نقصان ہوا بھی تو اِس قدر نہیں جتنا طوفان عام طور پر مچایا کرتے ہیں۔

موضوع اِس وقت آنے والا طوفان نہیں بلکہ موضوع تو وہ لوگ ہیں جو تباہی کا اِس طرح انتظار کررہے ہیں جیسے اِس ملک میں لاپتہ افراد کا اُن کے لواحقین کررہے ہیں۔ میں گزشتہ روز سے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر 'نیلوفر' لفظ کا بے تحاشہ استعمال دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ کہیں نیلوفر کو لوفر کہا جارہا ہے تو کوئی نیلوفر کو ماضی کی مشہور اداکارہ کہہ رہا ہے اور کوئی نیلوفر کو خوبصورت صنف نازک سے تشبیہ دے کر بے تابی سے انتظار کررہا ہے جبکہ کسی کو شکایت کرتا بھی پایا کہ نیلوفر آئی اور بغیر ملاقات ہی چلے گئی۔حالانکہ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ موجودہ حالات میں جس 'نیلوفر' لفظ کا استعمال کیا جارہا ہے، اگر اُس کی آمد ہوگئی تو پاکستان کے لیے کس قدر خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے مگر پھر بھی ناجانے ہم کیوں مسلسل غیر سنجیدگی کا مسلسل مظاہرہ کررہے ہیں۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا تو اپنی جگہ مگر ہمارے منتخب نمائندے جن کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں وہ بھی اِس 'نیلوفر' کو مذاق کے زمرے میں لیتے رہے۔سندھ اسمبلی میں جب ایک رکن اسمبلی نے یہ سوال کیا کہ حکومت بتائے کہ اُس نے 'نیلوفر' سے بچاو کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں تو اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے انتہائی غیر سنجیدہ جواب دیا کہ نیلوفر تو ماضی کی مشہور اداکارہ ہوا کرتی تھی ، بات یہاں نہیں رُکتی بلکہ وہ اپنی نالائقی کو چھپاتے ہوئے فرمانے لگے کے کراچی کے ساحل پر شاہ عبداللہ غازی کا مزار ہے اِس لیے شہر قائد میں نہ پہلے تباہی آئی ہے اور نہ مستقبل میں آئے گی ۔ یعنی کے بات ہی ختم ۔ ۔۔۔حکومت ایک طرف سے تو بالکل مطمئن ہوچکی ہے کہ مزار کی وجہ سے کسی تباہی کا امکان ہی نہیں ۔۔۔ اسپیکر کی اِس بات پر لب کشائی کا دل تو بہت چاہ رہا ہے مگر کسی تنازع سے بچنے کے لیے اِس بیان پر رائے کا اختیار قارئین کو دینے کو ترجیح دینا چاہوں گا۔

بات ہورہی تھی قدرتی آفات اور ہمارے انتہائی غیر سنجیدہ رویے کی۔بھلا دنیا میں کونسی قوم ہے جو تباہی کا اِس بے چینی سے انتظار کرتی ہے؟۔ ۔۔ یہاں تو جیسے ہی کسی طوفان کے لیے الرٹ جاری ہوتا ہے تو لوگ سمندر کا رُکھ کرلیتے ہیں کہ ذرا دیکھیں تو طوفان آتا کیسے ہے۔۔۔ اِس معصومیت پر کون نہ مرجائے ۔۔۔۔ ارے لوگوں ، تباہی دیکھنے کے لیے نہیں ہوتی سبق حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر آپ کراچی کے محلہ وقوع سے واقف ہوں تو آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگی کہ یہ شہر سطح سمندر سے کس قدر نیچے ہے ، یہاں طوفان کی جھلک بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن شاید ہم اِس لیے اتنے غیر سنجیدہ ہیں یا تباہی عرف طوفان کے منتظر ہیں کہ اب تک ہم نے ایسی کسی تباہی کا خود مشاہدہ نہیں کیا۔سمجھدار قومیں تو وہ ہوتی ہیں جو دوسرے کے حال سے اپنا رویہ بہتر کرلیتی ہیں مگر شاید ہم اُن قوموں سے تعلق نہیں رکھتے کہ جب تک تباہ و برباد نہ ہوجائیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ تباہی کس چڑیا کا نام ہے۔

اِس لیے آخر میں اُن تمام لوگوں سے التجا کرنا چاہوں گا جو محض 'نیلوفر' کے نام سے متاثر ہوکر اِس کی آمد کے متمنی ہیں کہ خدارا اِس سنجیدہ موضوع کو اپنے مزاح کے لیے غیر سنجیدگی سے نہ لیں۔ اگر یہ پاکستان میں پہنچ بھی گیا تو شاید آپ محفوظ رہیں گے مگر ذرا اُن لوگوں کے بارے میں بھی کچھ سوچ لیں جن کے مستقبل کا دارومدار اِس طوفان سے لگا ہوا ہے، جو اپنی جانوں سے بھی جا سکتے ہیں اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے بھی۔ باقی جہاں تک بات ہے نیلوفر کی تو اِس شہر میں ایسی بے تحاشہ نیلوفریں موجود ہیں جن سے آپ ملاقات کا شرف حاصل کرسکے اپنے دل کی آرزوئیں پوری کرسکتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں