دھرنوں نے حکومت کو عوام سے کئے وعدے یاد دلا دئیے
طاہر القادری کے دھرنا ختم کرنے سے عمران خان کو بڑا دھچکا لگا ہے لیکن حکومت کوریلیف مل گیا ہے۔
KARACHI:
حکومت ملک میں جاری دھرنا سیاست کے بحران اوردبائو سے نکلتے ہی ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کیلئے کمربستہ ہوگئی ہے۔
عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد اس کا مظہر ہے جس میں امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ سمیت مختلف ملکوں کے 350 کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار و مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم نے کیا جبکہ دو روزہ کانفرنس میں چھ مختلف سیشن ہوئے جس میں سرمایہ کاروں کو آئل اینڈ گیس، توانائی، انفراء سٹرکچر، زراعت ولائیو سٹاک، بینکنگ ومالیاتی شعبہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں موجود سرمایہ کاری کے پُرکشش مواقع بارے بریفنگ دی گئی اورسرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں 'قلیل اور طویل مدت کے منصوبے لگانے کا اس سے زیادہ اچھا موقع آپ کو دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتا جہاں حکومت سرمایہ کاروں سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی خریدنے کی تحریری ضمانت دینے کو تیار ہے۔
کانفرنس کے نتائج کو تو خیر کو وقت لگے گا جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کانفرنس کے نتیجے میں سرمایہ کاری ملک میں آئی یا نہیں آئی ۔ البتہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کے موجودہ ماحول میں جب چین کے صدر سمیت دیگر اہم شخصیات دورے منسوخ کرچکی ہوں ، کانفرنس کا ہوجانا اور اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کاروں و مندوبین کا آنا بہر حال حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
حکومتی کامیابی اپنی جگہ مگر مضبوط اپوزیشن کا کردار بھی بہت ضروری ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خطاب میں جو ایشوز اٹھا رہے ہیں وہ عوام کی آواز ہیں اور یہ عوامی آواز کی طاقت ہی کا ثمر ونتیجہ ہے کہ حکومت جوابدہ ہونے پر مجبور ہوئی اور اسے نہ صرف ووٹ لینے کیلئے انتخابی نعروں اور پارٹی منشور میں عوام سے کئے گئے وعدے یاد آگئے بلکہ ان وعدوں و نعروں کے ذریعے منتخب ہونیوالے عوامی نمائندوں کے احتساب کا خیال آگیا۔
یہی وجہ وزیراعظم نے اپنی کابینہ میں شامل وفاقی وزراء سے ایک سال کی کارکردگی رپورٹ مانگ لی۔ اس طرح وزیراعظم شفاف احتساب کی بنیاد ڈالنے جارہے ہیں جو کہ ایک بڑا بریک تھرو ہے۔ اب تمام وزراء کو اپنی ایک سالہ کارکردگی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سب کی موجودگی میں پیش کرنا ہوگی اور بتانا ہوگا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں آنے سے پہلے عوام کو جو اپنا منشور دیا تھا اور عوام سے وعدے کئے تھے ان کا کیا بنا۔ اگر عوام سے کئے گئے وعدوں و کارکردگی کی بنیاد پر وزراء کی جزاء و سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے تو یہ حقیقی انقلاب ہوگا۔
یہی وہ جمہوری گزر گاہ ہے جس سے گزر کر کوئی معاشرہ دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں خودکو شمار کرنے میںکامیاب ہوتا ہے کیونکہ آج پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان رات دن جن مہذب اور ترقی یافتہ قوموں وممالک کے حوالے دیتے ہیں وہ اسی طویل جمہوری مسافت کا ہی ثمر ہیں۔
ہمارے ہاں تو جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور اب جبکہ ہم اس مرحلے میں داخل ہونے جا رہے ہیں کہ جہاں جمہوری سفر کودوام مل سکے تو کچھ قوتیں اس میں رخنہ ڈالنے کے درپہ ہوگئی ہیں اور حکومت اگر ان غیر جمہوری قوتوں کی سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس کا سہرا بھی جمہوری قوتوں کے سر جاتا ہے جو جمہوریت کو بچانے کیلئے متحد رہی ہیں۔ اسی اتحاد کے باعث ملک میں دھرنا سیاست کرنیوالی جماعتوں کے دھرنے اختلافات و ٹوٹ پھوٹ کی نذر ہوگئے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری دھرنا ختم کرکے اب بیرون ملک روانہ ہونے کو ہیں جبکہ ان کے ساتھ چلنے والی مذہبی جماعتیں پہلے سے ہی اعلانیہ و غیر اعلانیہ علیحدگی اختیار کر چکی تھیں اور مبصرین و سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دینے والی بعض مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم ہونے سے کافی دیر پہلے طاہر القادری کی کسی ڈیل بارے کوئی مخبری ہوگئی تھی جس کے باعث وہ پیچھے ہٹ گئے اور وحدت المسلمین کی جانب سے تو علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا تھا اور پاکستان عوامی تحریک پر واضح کردیا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ الگ سے مذاکرات کریں کیونکہ وحدت المسلمین عوامی تحریک کا حصہ نہیں ہے جبکہ دوسری جماعت سُنی اتحاد کونسل نے کوئی دو ٹوک اعلان تو نہیں کیا مگر فاصلے بڑھالئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد کے جلسے میں بھی سُنی اتحاد کونسل کی قیادت نظر نہیں آئی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ڈیل نہ ہونے اور ڈیل ثابت کرنے پر پانچ کروڑروپے دینے سے متعلق خواہ کتنے بھی اعلانات کرتے رہیں لیکن ان کے اعلانات کو لوگ اسی تناظر میں دیکھتے ہیں جو وہ دھرنے میں کبھی کفن ہاتھ میں پکڑ کر تو کبھی گولی کیلئے سینہ پیش کرکے کرتے رہے ہیں۔
رہی بات طاہر القادری کے بیرونی دوروں کی تو سیاسی پنڈت اسے بھی پیکج ڈیل کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کا نام ای سی ایل پر نہ آنا اس ڈیل کی باتوں کو تقویت دیتا ہے کیونکہ طاہر القادری پر ایسے سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں جن کی قانون میں بہت سخت سزائیں ہیں ۔ ایسے سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے جاتے ہیں مگر طاہر القادری کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا تاکہ وہ ڈیل کے تحت بیرون ممالک جاتے اور واپس آتے رہیں ۔
طاہر القادری کے دھرنا ختم کرنے سے عمران خان کو بڑا دھچکا لگا ہے لیکن حکومت کوریلیف مل گیا ہے۔ مگر عمران خان کے دھرنے کی صورت میں مسئلہ ابھی مکمل ختم نہیں ہوا ہے اور گیم ابھی آن ہے ۔ اسلام آباد میں ہونیوالی سرمایہ کاری کانفرنس میں وزیراعظم نے بھی اس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سکیورٹی معاملات کا حل تو فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے ذریعے نکالا جا رہا ہے لیکن ملک کا اصل مسئلہ عمران خان کا دھرنا ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں مثبت تاثر پیدا ہوا تھا جسے اس سیاسی احتجاج نے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیرِاعظم نواز شریف نے عمران خان سے احتجاجی سیاست ترک کر کے ملکی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اب اس اپیل کا عمران خان پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر لگ یہ رہا ہے کہ عشق کے امتحان ابھی اور بھی ہیں کیونکہ پہلے سے کھڑے مسئلے ابھی پورے حل نہیں ہوئے کہ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تنازعہ نے حکومت کیلئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔
اگرچہ حکومت اس مسئلے کو بھی مذاکرات و بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اورگزشتہ روز ایم کیو ایم کے وفد نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے جس میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بحث و مباحثے سے ہی ختم کرنے چاہئیں اور سندھ کی ترقی کے لئے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوکر کام کریں۔
وزیر اعظم نے کراچی کے اہم ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے سیاسی رہنماوں اور سینئیر بیوروکریٹس پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تاہم اگر یہ تنازعہ حل نہیں ہوتا اور طول پکڑتا ہے اور استعفوں کی بات میچور ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہڑتالوں کا سلسلہ طوالت اختیار کرتا ہے تو اس سے حکومت کیلئے نئے انتظامی و قانونی امتحانات شروع ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پہلے سے استعفٰے دے چُکی ہے اب اگر ایم کیو ایم بھی اسی راستے پر چلتی ہے تو اس صورت میں مڈم ٹرم الیکشن کی باتیں کرنے والوں کو پھر سے ایک ایشوء مل جائے گا۔
حکومت ملک میں جاری دھرنا سیاست کے بحران اوردبائو سے نکلتے ہی ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کیلئے کمربستہ ہوگئی ہے۔
عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد اس کا مظہر ہے جس میں امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ سمیت مختلف ملکوں کے 350 کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار و مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم نے کیا جبکہ دو روزہ کانفرنس میں چھ مختلف سیشن ہوئے جس میں سرمایہ کاروں کو آئل اینڈ گیس، توانائی، انفراء سٹرکچر، زراعت ولائیو سٹاک، بینکنگ ومالیاتی شعبہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں موجود سرمایہ کاری کے پُرکشش مواقع بارے بریفنگ دی گئی اورسرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں 'قلیل اور طویل مدت کے منصوبے لگانے کا اس سے زیادہ اچھا موقع آپ کو دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتا جہاں حکومت سرمایہ کاروں سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی خریدنے کی تحریری ضمانت دینے کو تیار ہے۔
کانفرنس کے نتائج کو تو خیر کو وقت لگے گا جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کانفرنس کے نتیجے میں سرمایہ کاری ملک میں آئی یا نہیں آئی ۔ البتہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کے موجودہ ماحول میں جب چین کے صدر سمیت دیگر اہم شخصیات دورے منسوخ کرچکی ہوں ، کانفرنس کا ہوجانا اور اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کاروں و مندوبین کا آنا بہر حال حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
حکومتی کامیابی اپنی جگہ مگر مضبوط اپوزیشن کا کردار بھی بہت ضروری ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خطاب میں جو ایشوز اٹھا رہے ہیں وہ عوام کی آواز ہیں اور یہ عوامی آواز کی طاقت ہی کا ثمر ونتیجہ ہے کہ حکومت جوابدہ ہونے پر مجبور ہوئی اور اسے نہ صرف ووٹ لینے کیلئے انتخابی نعروں اور پارٹی منشور میں عوام سے کئے گئے وعدے یاد آگئے بلکہ ان وعدوں و نعروں کے ذریعے منتخب ہونیوالے عوامی نمائندوں کے احتساب کا خیال آگیا۔
یہی وجہ وزیراعظم نے اپنی کابینہ میں شامل وفاقی وزراء سے ایک سال کی کارکردگی رپورٹ مانگ لی۔ اس طرح وزیراعظم شفاف احتساب کی بنیاد ڈالنے جارہے ہیں جو کہ ایک بڑا بریک تھرو ہے۔ اب تمام وزراء کو اپنی ایک سالہ کارکردگی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سب کی موجودگی میں پیش کرنا ہوگی اور بتانا ہوگا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں آنے سے پہلے عوام کو جو اپنا منشور دیا تھا اور عوام سے وعدے کئے تھے ان کا کیا بنا۔ اگر عوام سے کئے گئے وعدوں و کارکردگی کی بنیاد پر وزراء کی جزاء و سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے تو یہ حقیقی انقلاب ہوگا۔
یہی وہ جمہوری گزر گاہ ہے جس سے گزر کر کوئی معاشرہ دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں خودکو شمار کرنے میںکامیاب ہوتا ہے کیونکہ آج پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان رات دن جن مہذب اور ترقی یافتہ قوموں وممالک کے حوالے دیتے ہیں وہ اسی طویل جمہوری مسافت کا ہی ثمر ہیں۔
ہمارے ہاں تو جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور اب جبکہ ہم اس مرحلے میں داخل ہونے جا رہے ہیں کہ جہاں جمہوری سفر کودوام مل سکے تو کچھ قوتیں اس میں رخنہ ڈالنے کے درپہ ہوگئی ہیں اور حکومت اگر ان غیر جمہوری قوتوں کی سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس کا سہرا بھی جمہوری قوتوں کے سر جاتا ہے جو جمہوریت کو بچانے کیلئے متحد رہی ہیں۔ اسی اتحاد کے باعث ملک میں دھرنا سیاست کرنیوالی جماعتوں کے دھرنے اختلافات و ٹوٹ پھوٹ کی نذر ہوگئے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری دھرنا ختم کرکے اب بیرون ملک روانہ ہونے کو ہیں جبکہ ان کے ساتھ چلنے والی مذہبی جماعتیں پہلے سے ہی اعلانیہ و غیر اعلانیہ علیحدگی اختیار کر چکی تھیں اور مبصرین و سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دینے والی بعض مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم ہونے سے کافی دیر پہلے طاہر القادری کی کسی ڈیل بارے کوئی مخبری ہوگئی تھی جس کے باعث وہ پیچھے ہٹ گئے اور وحدت المسلمین کی جانب سے تو علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا تھا اور پاکستان عوامی تحریک پر واضح کردیا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ الگ سے مذاکرات کریں کیونکہ وحدت المسلمین عوامی تحریک کا حصہ نہیں ہے جبکہ دوسری جماعت سُنی اتحاد کونسل نے کوئی دو ٹوک اعلان تو نہیں کیا مگر فاصلے بڑھالئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد کے جلسے میں بھی سُنی اتحاد کونسل کی قیادت نظر نہیں آئی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ڈیل نہ ہونے اور ڈیل ثابت کرنے پر پانچ کروڑروپے دینے سے متعلق خواہ کتنے بھی اعلانات کرتے رہیں لیکن ان کے اعلانات کو لوگ اسی تناظر میں دیکھتے ہیں جو وہ دھرنے میں کبھی کفن ہاتھ میں پکڑ کر تو کبھی گولی کیلئے سینہ پیش کرکے کرتے رہے ہیں۔
رہی بات طاہر القادری کے بیرونی دوروں کی تو سیاسی پنڈت اسے بھی پیکج ڈیل کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کا نام ای سی ایل پر نہ آنا اس ڈیل کی باتوں کو تقویت دیتا ہے کیونکہ طاہر القادری پر ایسے سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں جن کی قانون میں بہت سخت سزائیں ہیں ۔ ایسے سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے جاتے ہیں مگر طاہر القادری کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا تاکہ وہ ڈیل کے تحت بیرون ممالک جاتے اور واپس آتے رہیں ۔
طاہر القادری کے دھرنا ختم کرنے سے عمران خان کو بڑا دھچکا لگا ہے لیکن حکومت کوریلیف مل گیا ہے۔ مگر عمران خان کے دھرنے کی صورت میں مسئلہ ابھی مکمل ختم نہیں ہوا ہے اور گیم ابھی آن ہے ۔ اسلام آباد میں ہونیوالی سرمایہ کاری کانفرنس میں وزیراعظم نے بھی اس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سکیورٹی معاملات کا حل تو فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے ذریعے نکالا جا رہا ہے لیکن ملک کا اصل مسئلہ عمران خان کا دھرنا ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں مثبت تاثر پیدا ہوا تھا جسے اس سیاسی احتجاج نے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیرِاعظم نواز شریف نے عمران خان سے احتجاجی سیاست ترک کر کے ملکی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اب اس اپیل کا عمران خان پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر لگ یہ رہا ہے کہ عشق کے امتحان ابھی اور بھی ہیں کیونکہ پہلے سے کھڑے مسئلے ابھی پورے حل نہیں ہوئے کہ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تنازعہ نے حکومت کیلئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔
اگرچہ حکومت اس مسئلے کو بھی مذاکرات و بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اورگزشتہ روز ایم کیو ایم کے وفد نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے جس میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بحث و مباحثے سے ہی ختم کرنے چاہئیں اور سندھ کی ترقی کے لئے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوکر کام کریں۔
وزیر اعظم نے کراچی کے اہم ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے سیاسی رہنماوں اور سینئیر بیوروکریٹس پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تاہم اگر یہ تنازعہ حل نہیں ہوتا اور طول پکڑتا ہے اور استعفوں کی بات میچور ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہڑتالوں کا سلسلہ طوالت اختیار کرتا ہے تو اس سے حکومت کیلئے نئے انتظامی و قانونی امتحانات شروع ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پہلے سے استعفٰے دے چُکی ہے اب اگر ایم کیو ایم بھی اسی راستے پر چلتی ہے تو اس صورت میں مڈم ٹرم الیکشن کی باتیں کرنے والوں کو پھر سے ایک ایشوء مل جائے گا۔