روہڑی کے ووٹروں کو بچانے کے لیے
لال حویلی کے ’’شیخ پتر‘‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی حساب کتاب بڑے سائنسی اور غیر جذباتی انداز میں کیا کرتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان پیپلز پارٹی سے اس بار جدائی اور مسلسل بڑھتے تناؤ کی اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔ ان وجوہات کا علم دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت میں موجود صرف چند لوگوں کو ہے۔ ہمہ وقت مستعد ہونے کا دعوے دار ہمارا جی دار میڈیا بھی ان وجوہات کا سراغ لگانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ وجہ اس عدم دلچسپی کی کم از کم میرے لیے عیاں ہے۔ رپورٹر حضرات صرف اس خبر کا تعاقب کرنے میں دلچسپی دکھاتے ہیں جو بالآخر شایع بھی ہو سکے۔
اس معاملے میں پنجابی کے ایک عوامی شاعر کا وہ مصرعہ کافی ہے جو کہتا ہے کہ سچ کہنے کے بعد اگر مجھے اپنے زخموں پر ٹکور ہی کرنا ہے تو ''فیدہ (فائدہ) کیہ''۔ بہرحال وہ محاورہ بھی یاد کر لیتے ہیں جو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہاتھیوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑ جائے تو نقصان بے چاری گھاس ہی کا ہوتا ہے۔ ان دنوں قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ مجھے محاورے والی اس گھاس کی مانند دِکھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم انھیں ''مہاجر دشمن'' قرار دینے پر تلے بیٹھی ہے۔ وہ بالآخر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو نہ ہو مگر خورشید شاہ کے سر پر آئی مصیبت نے شیخ رشید احمد کے دل میں اُمید کی لو ضرور جگا دی ہے۔
موصوف کو یقینِ کامل ہے کہ اگر ایم کیو ایم ان کے سر پر دستِ شفقت رکھ دے تو وہ خورشید شاہ کی جگہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن سکتے ہیں۔ انھیں یہ عہدہ مل جائے تو تحریک انصاف ان کی وجہ سے ''گو نواز گو'' کے بعد اپنی پسند کا چیف الیکشن کمشنر حاصل کرنے کے بعد نئے انتخاب کے لیے قائم ہونے والی عارضی حکومت کو بھی اپنے نامزدگان سے بھر سکتی ہے۔ اس سب کے لیے مگر یہ بھی تو ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی میں واپس آئیں اور ایم کیو ایم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا کوئی الحاق قائم کریں۔
لال حویلی کے ''شیخ پتر'' کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی حساب کتاب بڑے سائنسی اور غیر جذباتی انداز میں کیا کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی ''پیشگوئیاں'' اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ اگرچہ وہ ان کا اظہار وقت سے بہت پہلے کر دیتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں شیخ صاحب کے حساب کتاب کا ہرگز مداح نہیں۔ موصوف کا اصل ہنر لوگوں کی کمزور یادداشت کا اپنی زبان درازی سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ پیش گوئی تو انھوں نے بالتواتر مختلف ٹاک شوز میں آ کر یہ بھی کی تھی کہ آصف زرداری کی حکومت جنرل پاشا کو ایک سال کی توسیع دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔ عید قربان سے بہت پہلے شیخ صاحب نے ''قربانی سے پہلے قربانی'' کی دہائی بھی دینا شروع کر دی تھی۔
عید گزرنے کے بعد اب محرم الحرام شروع ہو گیا ہے۔ نواز شریف بدستور وزیر اعظم ہاؤس میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے البتہ اپنی انقلابی دکان بڑھا دی ہے۔ شیخ رشید اگر خورشید شاہ سے نجات پانے کی خاطر عمران اور ان کے ساتھیوں کو قومی اسمبلی میں واپس لے آئے تو ''آزادی دھرنے'' کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اس دوران اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں دوبارہ کوئی مفاہمت ہو گئی تو خورشید شاہ بھی اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ شیخ صاحب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کا شیخوں والا حساب کتاب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
خیر شیخ صاحب جانیں اور ان کا حساب کتاب۔ فی الحال تو مجھے حقیقی معنوں میں رحم خورشید شاہ پر آ رہا ہے۔ اپنے رحم کو سمجھانے کے لیے مجھے آپ کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ 2008 کے انتخاب لڑنے کے لیے خورشید شاہ کو سکھر کی جو سیٹ دی گئی وہ پیپلز پارٹی کی Safe سیٹ نہیں سمجھی جاتی تھی۔ سکھر کی ایسی سیٹ اسلام الدین شیخ کے فرزند کو عطا ہوئی۔ خورشید شاہ کی نئی سیٹ سے جیت اتنی غیر یقینی تھی کہ وہاں کا ٹکٹ دیتے وقت محترمہ بے نظیر نے ان سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ یہ سیٹ ہار گئے تو وہ انھیں بالآخر سینیٹ میں لے آئیں گی۔ خورشید شاہ نے جواباََ انھیں بڑے خلوص مگر شدت سے آگاہ کیا کہ قومی اسمبلی کی نشست ہار جانے کے بعد وہ ان سے سینیٹ کی سیٹ نہیں مانگیں گے۔
خورشید شاہ کی جیت یقینی نہیں سمجھی جا رہی تھی کیونکہ انھیں جو حلقہ ملا اسے ہمارے بچپن میں سکھر نہیں روہڑی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس حلقے میں ہندو بڑی کثیر تعداد میں آباد تھے۔ 1947کے بعد ہوئی ہجرت کی وجہ سے وہ علاقہ اُردو بولنے والے مہاجرین کا ایک مضبوط گڑھ بن گیا اور پیپلز پارٹی وہاں اتنی مقبول نہ تھی۔ خورشید شاہ نے وہاں سے قومی اسمبلی کا انتخاب اپنی سیاسی زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ جان کر لڑا۔ اپنی تمام تر تگ و دو کے باوجود وہ شاید پھر بھی یہ نشست نہ جیت پاتے مگر محترمہ کی شہادت نے فضا ان کے حق میں تبدیل کر ڈالی۔
2008 کے بعد ہم فوراََ 2010 میں آ جاتے ہیں جب سندھ نے اپنی حالیہ تاریخ کا ایک بدترین سیلاب بھگتا۔ ہمارے دریا جب وحشی ہو جاتے ہیں تو ان کا پانی اکٹھا ہو کر سکھر بیراج میں جمع ہوتا ہے۔ پانی کی شدت ناقابلِ برداشت ہو جائے تو اہم ترین سوال بس ایک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سیلاب کی شدت کو کم کرنے کے لیے سکھر بیراج سے پہلے کس مقام پر Cut لگایا جائے۔ اپنی سرشت میں یہ قطعی طور پر تکنیکی نوعیت کا سوال ہوتا ہے۔ مگر فیصلہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کو کرنا ہوتا ہے کیونکہ کٹ لگایا جائے تو وحشی پانی کا ایک بہت بڑا حصہ وہاں سے نکل کر دور دور تک تباہی مچا دیتا ہے۔
خورشید شاہ کی سب سے بڑی مشکل یہ بھی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی 1974 میں سکھر بیراج سے پہلے ایک مقام پر کٹ لگانے پر مجبور ہوئے تھے۔ 2010 میں لیکن بہت سارے انجینئرز کا اصرار تھا کہ اس مقام پر کٹ لگانے کی ضرورت نہیں۔ تکنیکی ماہرین کو مگر اپنی تجاویز پر عملدرآمد کے لیے بہت تگڑی سیاسی حمایت درکار ہوا کرتی ہے۔ خورشید شاہ وہ حمایت فراہم کرنے پر ڈٹ گئے۔ ان کی وجہ سے سکھر بیراج سے پہلے والے روایتی مقام پر کٹ تو نہ لگا مگر ایک اور مقام سے خالصتاََ تکنیکی کمزوریوں کی وجہ سے پانی وحشی ہو کر شکار پور سے جیکب آباد تک تباہی پھیلاتا چلا گیا۔
میں ان دنوں سندھ کے ان سیلاب زدہ علاقوں میں دو ہفتوں تک موجود رہا۔ جہاں بھی گیا وہاں پیپلز پارٹی کے رہ نما اور کارکن خورشید شاہ کو اپنی تباہی کا واحد ذمے دار قرار دیتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کا اصرار یہ بھی رہا کہ خورشید شاہ نے سکھر بیراج سے پہلے اس مقام پر جہاں حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے حکم پر کٹ لگوایا تھا اس لیے کٹ نہ لگوایا کیونکہ وہ ا پنے ''روہڑی کے ووٹروں'' کو بچانا چاہ رہے تھے۔ اتنا لکھنے کے بعد میں خورشید شاہ کی مبینہ ''مہاجر دشمنی'' کے بارے میں اور کیا لکھوں؟
اس معاملے میں پنجابی کے ایک عوامی شاعر کا وہ مصرعہ کافی ہے جو کہتا ہے کہ سچ کہنے کے بعد اگر مجھے اپنے زخموں پر ٹکور ہی کرنا ہے تو ''فیدہ (فائدہ) کیہ''۔ بہرحال وہ محاورہ بھی یاد کر لیتے ہیں جو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہاتھیوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑ جائے تو نقصان بے چاری گھاس ہی کا ہوتا ہے۔ ان دنوں قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ مجھے محاورے والی اس گھاس کی مانند دِکھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم انھیں ''مہاجر دشمن'' قرار دینے پر تلے بیٹھی ہے۔ وہ بالآخر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو نہ ہو مگر خورشید شاہ کے سر پر آئی مصیبت نے شیخ رشید احمد کے دل میں اُمید کی لو ضرور جگا دی ہے۔
موصوف کو یقینِ کامل ہے کہ اگر ایم کیو ایم ان کے سر پر دستِ شفقت رکھ دے تو وہ خورشید شاہ کی جگہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن سکتے ہیں۔ انھیں یہ عہدہ مل جائے تو تحریک انصاف ان کی وجہ سے ''گو نواز گو'' کے بعد اپنی پسند کا چیف الیکشن کمشنر حاصل کرنے کے بعد نئے انتخاب کے لیے قائم ہونے والی عارضی حکومت کو بھی اپنے نامزدگان سے بھر سکتی ہے۔ اس سب کے لیے مگر یہ بھی تو ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی میں واپس آئیں اور ایم کیو ایم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا کوئی الحاق قائم کریں۔
لال حویلی کے ''شیخ پتر'' کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی حساب کتاب بڑے سائنسی اور غیر جذباتی انداز میں کیا کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی ''پیشگوئیاں'' اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ اگرچہ وہ ان کا اظہار وقت سے بہت پہلے کر دیتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں شیخ صاحب کے حساب کتاب کا ہرگز مداح نہیں۔ موصوف کا اصل ہنر لوگوں کی کمزور یادداشت کا اپنی زبان درازی سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ پیش گوئی تو انھوں نے بالتواتر مختلف ٹاک شوز میں آ کر یہ بھی کی تھی کہ آصف زرداری کی حکومت جنرل پاشا کو ایک سال کی توسیع دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔ عید قربان سے بہت پہلے شیخ صاحب نے ''قربانی سے پہلے قربانی'' کی دہائی بھی دینا شروع کر دی تھی۔
عید گزرنے کے بعد اب محرم الحرام شروع ہو گیا ہے۔ نواز شریف بدستور وزیر اعظم ہاؤس میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے البتہ اپنی انقلابی دکان بڑھا دی ہے۔ شیخ رشید اگر خورشید شاہ سے نجات پانے کی خاطر عمران اور ان کے ساتھیوں کو قومی اسمبلی میں واپس لے آئے تو ''آزادی دھرنے'' کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اس دوران اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں دوبارہ کوئی مفاہمت ہو گئی تو خورشید شاہ بھی اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ شیخ صاحب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کا شیخوں والا حساب کتاب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
خیر شیخ صاحب جانیں اور ان کا حساب کتاب۔ فی الحال تو مجھے حقیقی معنوں میں رحم خورشید شاہ پر آ رہا ہے۔ اپنے رحم کو سمجھانے کے لیے مجھے آپ کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ 2008 کے انتخاب لڑنے کے لیے خورشید شاہ کو سکھر کی جو سیٹ دی گئی وہ پیپلز پارٹی کی Safe سیٹ نہیں سمجھی جاتی تھی۔ سکھر کی ایسی سیٹ اسلام الدین شیخ کے فرزند کو عطا ہوئی۔ خورشید شاہ کی نئی سیٹ سے جیت اتنی غیر یقینی تھی کہ وہاں کا ٹکٹ دیتے وقت محترمہ بے نظیر نے ان سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ یہ سیٹ ہار گئے تو وہ انھیں بالآخر سینیٹ میں لے آئیں گی۔ خورشید شاہ نے جواباََ انھیں بڑے خلوص مگر شدت سے آگاہ کیا کہ قومی اسمبلی کی نشست ہار جانے کے بعد وہ ان سے سینیٹ کی سیٹ نہیں مانگیں گے۔
خورشید شاہ کی جیت یقینی نہیں سمجھی جا رہی تھی کیونکہ انھیں جو حلقہ ملا اسے ہمارے بچپن میں سکھر نہیں روہڑی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس حلقے میں ہندو بڑی کثیر تعداد میں آباد تھے۔ 1947کے بعد ہوئی ہجرت کی وجہ سے وہ علاقہ اُردو بولنے والے مہاجرین کا ایک مضبوط گڑھ بن گیا اور پیپلز پارٹی وہاں اتنی مقبول نہ تھی۔ خورشید شاہ نے وہاں سے قومی اسمبلی کا انتخاب اپنی سیاسی زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ جان کر لڑا۔ اپنی تمام تر تگ و دو کے باوجود وہ شاید پھر بھی یہ نشست نہ جیت پاتے مگر محترمہ کی شہادت نے فضا ان کے حق میں تبدیل کر ڈالی۔
2008 کے بعد ہم فوراََ 2010 میں آ جاتے ہیں جب سندھ نے اپنی حالیہ تاریخ کا ایک بدترین سیلاب بھگتا۔ ہمارے دریا جب وحشی ہو جاتے ہیں تو ان کا پانی اکٹھا ہو کر سکھر بیراج میں جمع ہوتا ہے۔ پانی کی شدت ناقابلِ برداشت ہو جائے تو اہم ترین سوال بس ایک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سیلاب کی شدت کو کم کرنے کے لیے سکھر بیراج سے پہلے کس مقام پر Cut لگایا جائے۔ اپنی سرشت میں یہ قطعی طور پر تکنیکی نوعیت کا سوال ہوتا ہے۔ مگر فیصلہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کو کرنا ہوتا ہے کیونکہ کٹ لگایا جائے تو وحشی پانی کا ایک بہت بڑا حصہ وہاں سے نکل کر دور دور تک تباہی مچا دیتا ہے۔
خورشید شاہ کی سب سے بڑی مشکل یہ بھی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی 1974 میں سکھر بیراج سے پہلے ایک مقام پر کٹ لگانے پر مجبور ہوئے تھے۔ 2010 میں لیکن بہت سارے انجینئرز کا اصرار تھا کہ اس مقام پر کٹ لگانے کی ضرورت نہیں۔ تکنیکی ماہرین کو مگر اپنی تجاویز پر عملدرآمد کے لیے بہت تگڑی سیاسی حمایت درکار ہوا کرتی ہے۔ خورشید شاہ وہ حمایت فراہم کرنے پر ڈٹ گئے۔ ان کی وجہ سے سکھر بیراج سے پہلے والے روایتی مقام پر کٹ تو نہ لگا مگر ایک اور مقام سے خالصتاََ تکنیکی کمزوریوں کی وجہ سے پانی وحشی ہو کر شکار پور سے جیکب آباد تک تباہی پھیلاتا چلا گیا۔
میں ان دنوں سندھ کے ان سیلاب زدہ علاقوں میں دو ہفتوں تک موجود رہا۔ جہاں بھی گیا وہاں پیپلز پارٹی کے رہ نما اور کارکن خورشید شاہ کو اپنی تباہی کا واحد ذمے دار قرار دیتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کا اصرار یہ بھی رہا کہ خورشید شاہ نے سکھر بیراج سے پہلے اس مقام پر جہاں حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے حکم پر کٹ لگوایا تھا اس لیے کٹ نہ لگوایا کیونکہ وہ ا پنے ''روہڑی کے ووٹروں'' کو بچانا چاہ رہے تھے۔ اتنا لکھنے کے بعد میں خورشید شاہ کی مبینہ ''مہاجر دشمنی'' کے بارے میں اور کیا لکھوں؟