مقامی حکومتوں کے انتخابات کے مسائل

الیکشن کمیشن پر بھی ملک میں تنقید بڑھتی جارہی ہے اور بعض جماعتیں نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کی حامی ہیں۔


سلمان عابد October 29, 2014
[email protected]

پاکستان کے جمہوری نظام اور جمہوری حکمرانوں کے حالیہ دورمیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے مسائل ایک سنگین صورتحال اختیار کرگئے ہیں۔ حکمران طبقات اگرچہ جمہوریت اور جمہوری نظام سمیت قانون کی حکمرانی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں ، لیکن عملی طور پر ان کا طرز عمل جمہوری نظام اور بالخصوص مقامی حکومتوں کے نظام کے برعکس نظر آتا ہے ۔ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات صوبائی حکومتوں کی عدم ترجیحات اور کمزور سیاسی کمٹمنٹ کے باعث ممکن نظر نہیں آرہے ۔ اگرچہ بلوچستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ضرور ہوئے ہیں ، لیکن یہ انتخابات مکمل نہیں ہوسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ابتدائی مراحل کے انتخابات کے باوجود وہاں پر بھی مقامی حکومتوں کا نظام ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے بقول مقامی حکومتوں کے انتخابات کی ذمے داری وفاقی نہیں ، بلکہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ جب کہ صوبائی حکومتیں ، عدلیہ ، الیکشن کمیشن اور حکمران سیاسی جماعتیں مقامی انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کرنے کی ذمے داری خود قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن عملی طور پر بڑ ی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے ، جو مقامی حکومتوں کے انتخابات میں جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کرکے خود جمہوری نظام اور مقامی اداروں کے نظام کی اہمیت سے انکار کررہی ہیں جو آئینی ذمے داری سے بھی انحراف ہے ۔ کیونکہ صوبائی حکومتیں آئین کی شق140-Aکی نفی کررہی ہیں ۔ آئین کی شق 140-Aکے تحت'' صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کرایں ۔ اسی طرح عوام کے منتخب نمایندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر ان اداروں کو مضبوط کرنا ہے ۔''

مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل اور حالیہ انتخابات نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ان اداروں کو آئین میں قانونی تحفظ کی عدم فراہمی ہے ۔ مثال کے طور پرآئین میں درج ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے بعد90دن میں ان اداروں کے انتخابات کا انعقاد قانونی پابندی کے زمرے میں آتا ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد میں ایسی کوئی شرط نہیں کہ ان اداروں کی مدت کے خاتمہ یا وقت سے پہلے ان کو ختم کرنے کے بعد یہ انتخابات کتنے دن میں کرانے ضروری ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 2008کے انتخابات کے بعد جو جمہوری نظام آیا اور اب جو 2013 کا جمہوری نظام ہے ، مقامی انتخابات کا انعقاد سیاسی اشرافیہ اور عام لوگوں میں محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت عملی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں مقامی انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔کیونکہ اس وقت وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اداروں میں شامل منتخب افراد کی ساری سیاسی توجہ ترقیاتی فنڈ ز پر ہوتی ہے ۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان سمجھتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل کے بعد ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہو گی اور ترقیاتی فنڈز پر مقامی اداروں اور ان کے نمایندوں کا زیادہ کنٹرول ہو گا ۔حالانکہ وفاقی ا ور صوبائی حکومتوں سمیت ان کے ارکان کی ذمے داری قانون سازی پر ہونی چاہیے ، جب کہ ترقیاتی عمل مقامی اداروں سے منسلک ہونا چاہیے ۔

حالیہ سیاسی بحران جو ملک میں موجود ہے ، اس سے نمٹنے کی ایک حکمت عملی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے تناظر میں دیکھی جارہی ہے ۔ بعض سیاسی دانشوروں اور حکومت میں موجود سیاسی افراد نے حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقامی انتخابات کو یقینی بنا کر اس بحران کی شدت کو کم کرسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بعض حکومتی ارکان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ آنے والے چند ماہ میں ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا سیاسی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اس مسئلہ پر کچھ تیزی دکھائی اور پنجاب ، سندھ میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کرکے الیکشن کمیشن کو یہ ذمے داری دی ہے کہ وہ 90دن میں نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو یقینی بنائیں ۔اسی طرح الیکشن کمیشن کو یہ بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ نئی ووٹر فہرستوں کے معاملہ کا بھی جائزہ لے ۔لیکن الیکشن کمیشن نے خود عدالت سے رجوع کرکے درخواست کی ہے کہ وہ 90دن کے بجائے کم ازکم چھ ماہ کا وقت دیں ، کیونکہ اس سے پہلے نئی حلقہ بندی کا عمل مکمل نہیں کرسکیں گے ۔

اسی طرح سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی تجویز دی ہے کہ مقامی انتخابات سے قبل ملک میں نئی مردم شمار ی کی جائے ۔ اگر الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں کرنی ہیں تو ان پر ایک بڑا سیاسی دباو خود صوبائی حکومتوں کا ہوگا ۔خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے بقول وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں ، لیکن یہ انتخابات بائیو میٹک سسٹم کے تحت ہوںگے ۔ جب کہ الیکشن کمیشن بضد ہے کہ ابھی کسی بھی صوبہ میں بائیو میٹک سسٹم کے تحت انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ۔

الیکشن کمیشن پر بھی ملک میں تنقید بڑھتی جارہی ہے اور بعض جماعتیں نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کی حامی ہیں۔ ان حالات میں اگر واقعی مقامی انتخابات ہونے ہیں توکم ازکم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ نوماہ تک مقامی انتخابات کا انعقاد آسان کام نہیں ہوگا ۔اس لیے مقامی انتخابات میں جتنی تاخیر ہوگی، اتنا ہی سیاسی بحران بھی بڑھنے کے امکانات زیادہ بڑھ جائیں گے ۔ ایسی صورت میں ملک میں مڈٹر م انتخابات کے نعرے بھی لگیں گے ۔بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول حالات ملک کو مقامی انتخابات سے زیادہ نئے عام انتخابات کی طرف بڑھنے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔

اگرچہ ہم اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام بہت ضروری ہیں اور ان اداروں کے انتخابات کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ لیکن اصل بات مقامی حکومتوں کے نظام میں اختیارات اور طاقت کی ہوتی ہے۔جو مقامی حکومتوں کے نظام چاروں صوبائی حکومتوں نے متعارف کروائے ، وہ نہ صرف کمزور نظام کی نشاندہی کرتے ہیں ، بلکہ آئین کی شق140-Aکی بھی نفی ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ان مقامی اداروں کو ایک سیاسی کٹھ پتلی کی بنیاد پر چلاکر ان کی خود مختاری کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود ہم صوبوں سے ضلع کی سطح پر اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اور عدم مرکزیت کے نظام کے دلی طور پر حامی نہیں ۔حالیہ مقامی نظام محض بلدیاتی ادارے ہیں، جب کہ ہماری ضرورت مضبوط مقامی حکومت کا نظام ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بعد مقامی حکومت کا نظام ہے ۔

اگرچہ بہت سے لوگ حکومت کو یہ مشورہ تو دے رہے ہیں کہ وہ مقامی انتخابات کی مدد سے سیاسی بحران کو ٹال سکتی ہے ۔ لیکن جس انداٖز سے حکومتوں کی طرز حکمرانی ہے او رجو ردعمل عوام میں حکمران طبقات کے بارے میں موجودہے ، اس میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے نتائج ان کے حق میں نہیں ہونگے ۔اس لیے کیونکر حکومتیں مقامی حکومتوںکے انتخابات کا سیاسی رسک لے کر اپنے مخالفین کو موقع دیں گی کہ وہ ان پر سیاسی برتری حاصل کرکے ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرسکیں۔اس لیے جو لوگ سمجھ رہے تھے کہ حکومت فوری طو رپر مقامی انتخابات کا راستہ اختیار کرکے حالیہ سیاسی بحران سے بچ سکتی ہے، اس کے امکانات کم ہیں۔ ویسے ابھی بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کی باتیں اس کی اہمیت سے زیادہ حالیہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے تناظر میں پیش کی جارہی ہیں ۔یعنی ابھی بھی مقامی حکومتوں کا نظام ہماری اصل ترجیحات کا حصہ نہیں ، بلکہ سیاسی مجبوریو ں کے زمرے میں آتا ہے ۔

ہم اصولی طور پر فوجی اور آمرانہ نظام کے خلاف ہیں ، اور جمہوری نظام سے ہماری توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جہا ں فوجی حکمرانی نے جمہوری عمل کو کمزور کیا،وہیں جمہوری حکمران اور قوتوں نے بھی جمہوری نظام کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کمزور مقامی نظام اور انتخابات سے گریز کرنے کی حکمت عملی خود جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی جانب پیش رفت ہے ۔اس لیے اول تو مقامی حکومتوں کے فوری انتخابات ممکن نہیں ، کیونکہ ابھی حکمران طبقات کی ان اداروں کے بارے میں سیاسی کمٹمنٹ کمزور ہے ، ان کا یہ عمل سیاسی مجرمانہ غفلت سے کم نہیں ۔دوئم اگر انتخابات ہو بھی جائیں تو محض کمزور نظام اوران کے اختیارات کو سلب کرکے مقامی ترقی اور خوشحالی کا عمل ہم سب کے لیے محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں