پہلا قدم
اگرآپ اپنی بدحالی،غربت، افلاس،بے اختیاری میں خوش وخرم ہیں توکوئی بھی آپکو اپنےحالات تبدیل کرنےکے لیےاصرارنہیںکرے گا۔
ISLAMABAD:
''کولمبس نے امریکا دریافت کیا''۔ اس جملے کو ایک شخص چند سیکنڈ میں اپنی زبان سے ادا کر سکتا ہے مگر اس واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس کو 20 سال صرف کرنے پڑے۔ یہ ہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہر کامیابی طویل المدتی محنت مانگتی ہے، اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ نیل آرم اسٹرانگ پہلا شخص ہے جس نے چاند کا سفر کیا۔ 21 جولائی 1969ء کو انھوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اتر کر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔
اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا، چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ''ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے''۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ وقت آئے گا جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفر کرنے لگیں گے، جس طرح وہ زمین پر کرتے ہیں۔ ہر بڑا کام اسی طرح ہوتا ہے، ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں، اس طرح وہ دوسرے انسانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔
یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے، وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنیٰ ہے، مگر جب یہ ابتدائی کام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہوتا جاتا ہے۔ بس اس کے لیے زیادہ ہمت، جرأت، حوصلے، لگن، ولولے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا، بس ناممکن اور ممکن کے درمیانی فاصلے کو طے کرنے کے لیے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت اور جرأت پیدا کرنا ہوتی ہے۔
قیصر ولیم دوم 1888ء سے لے کر 1918ء تک جرمنی کا بادشاہ تھا، اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر ناقص اور چھوٹا تھا۔ قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی، اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔ آخرکار جرمنی کو شکست ہوئی، اس کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہوگئی، قید اور قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا، وہ نیدرلینڈ چلا گیا، اور خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گزارتا رہا یہاں تک کہ وہ 1941ء میں مرگیا۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔
قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سوئٹزرلینڈ گیا، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزرلینڈ اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے، اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزرلینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے اگر تمہارے ملک پر حملہ کر دے تو تم کیا کرو گے؟ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ''سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے''۔ سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے، وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں، آپ کی تعداد اگر فریق کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کر کے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔
نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے، عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے ''جوکچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں''۔ ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پر پوری اترتی ہے۔ خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم ہیں کہ ناشکری پر ناشکری کرتے جا رہے ہیں، ہم سے زیادہ بدترین مسائل کے شکار لوگوں نے اپنا نصیب خود اپنے ہاتھوں بدل ڈالا۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا، ان کا حل ڈھونڈا اور ہمت، حوصلے کو اپنی ذات میں جمع کیا، اور ترقی و خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس راستے پر انھیں بے پناہ مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلے کو پست ہونے دیا، اور آخرکار پریشانیوں، مسائل، مصیبتوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں۔
کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے، صرف برا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کو کوستے رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے۔ صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں، اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوسکتے تو ہمارے حالات نجانے کب کے بدل چکے ہوتے۔ دوسروں کو الزام دینا بزدلی، کم ہمتی اور اعترا ف شکست ہوتا ہے۔ دعائیں بھی اس وقت اثر کرتی ہیں جب دوا بھی ساتھ ساتھ جاری ہو۔ اگر آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوجائیں گے تو بیٹھے رہیے، انتظار کرتے رہیے، آخر وہ وقت آہی جائے گا جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لیے دعاگو ہورہے ہوں گے۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گزارنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ اپنی بدحالی، غربت، افلاس، بے اختیاری میں خوش و خرم ہیں تو کوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے اصرار نہیں کرے گا۔ آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجیے، خوش و خرم رہیے، ذلت برداشت کرتے رہیے، کڑھتے رہیے، دوسروں کو برا بھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خوشیاں، عیش و آرام، نعمتیں، سکون، آپ کو دنیا میں نصیب نہ ہوسکا وہ خدا آپ کو جنت میں نوازے۔ لیکن اگر مر کے بھی چین نہ آیا تو پھر کیا کیجیے گا۔ ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی دونوں کو سنوار سکتا ہے اور وہ راستہ ہے ہمت، جرأت، حوصلے کا۔ آئیں کم ہمتی، بزدلی، ڈرپوکی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں اور غاصبوں، ظالموں، لٹیروں سے اپنے حقوق، خوشحالی، چین، سکون، اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے، دوسرے مظلوموں کے لیے چھین لیں۔ اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں، مجبوروں، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں۔ کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں، اگر آپ مجرم بن کر جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مرضی، اور اگر نہیں تو پھر دیر نہ کریں اور اٹھ کھڑے ہوں۔
''کولمبس نے امریکا دریافت کیا''۔ اس جملے کو ایک شخص چند سیکنڈ میں اپنی زبان سے ادا کر سکتا ہے مگر اس واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس کو 20 سال صرف کرنے پڑے۔ یہ ہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہر کامیابی طویل المدتی محنت مانگتی ہے، اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ نیل آرم اسٹرانگ پہلا شخص ہے جس نے چاند کا سفر کیا۔ 21 جولائی 1969ء کو انھوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اتر کر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔
اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا، چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ''ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے''۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ وقت آئے گا جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفر کرنے لگیں گے، جس طرح وہ زمین پر کرتے ہیں۔ ہر بڑا کام اسی طرح ہوتا ہے، ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں، اس طرح وہ دوسرے انسانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔
یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے، وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنیٰ ہے، مگر جب یہ ابتدائی کام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہوتا جاتا ہے۔ بس اس کے لیے زیادہ ہمت، جرأت، حوصلے، لگن، ولولے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا، بس ناممکن اور ممکن کے درمیانی فاصلے کو طے کرنے کے لیے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت اور جرأت پیدا کرنا ہوتی ہے۔
قیصر ولیم دوم 1888ء سے لے کر 1918ء تک جرمنی کا بادشاہ تھا، اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر ناقص اور چھوٹا تھا۔ قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی، اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔ آخرکار جرمنی کو شکست ہوئی، اس کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہوگئی، قید اور قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا، وہ نیدرلینڈ چلا گیا، اور خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گزارتا رہا یہاں تک کہ وہ 1941ء میں مرگیا۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔
قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سوئٹزرلینڈ گیا، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزرلینڈ اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے، اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزرلینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے اگر تمہارے ملک پر حملہ کر دے تو تم کیا کرو گے؟ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ''سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے''۔ سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے، وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں، آپ کی تعداد اگر فریق کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کر کے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔
نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے، عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے ''جوکچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں''۔ ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پر پوری اترتی ہے۔ خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم ہیں کہ ناشکری پر ناشکری کرتے جا رہے ہیں، ہم سے زیادہ بدترین مسائل کے شکار لوگوں نے اپنا نصیب خود اپنے ہاتھوں بدل ڈالا۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا، ان کا حل ڈھونڈا اور ہمت، حوصلے کو اپنی ذات میں جمع کیا، اور ترقی و خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس راستے پر انھیں بے پناہ مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلے کو پست ہونے دیا، اور آخرکار پریشانیوں، مسائل، مصیبتوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں۔
کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے، صرف برا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کو کوستے رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے۔ صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں، اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوسکتے تو ہمارے حالات نجانے کب کے بدل چکے ہوتے۔ دوسروں کو الزام دینا بزدلی، کم ہمتی اور اعترا ف شکست ہوتا ہے۔ دعائیں بھی اس وقت اثر کرتی ہیں جب دوا بھی ساتھ ساتھ جاری ہو۔ اگر آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوجائیں گے تو بیٹھے رہیے، انتظار کرتے رہیے، آخر وہ وقت آہی جائے گا جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لیے دعاگو ہورہے ہوں گے۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گزارنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ اپنی بدحالی، غربت، افلاس، بے اختیاری میں خوش و خرم ہیں تو کوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے اصرار نہیں کرے گا۔ آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجیے، خوش و خرم رہیے، ذلت برداشت کرتے رہیے، کڑھتے رہیے، دوسروں کو برا بھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خوشیاں، عیش و آرام، نعمتیں، سکون، آپ کو دنیا میں نصیب نہ ہوسکا وہ خدا آپ کو جنت میں نوازے۔ لیکن اگر مر کے بھی چین نہ آیا تو پھر کیا کیجیے گا۔ ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی دونوں کو سنوار سکتا ہے اور وہ راستہ ہے ہمت، جرأت، حوصلے کا۔ آئیں کم ہمتی، بزدلی، ڈرپوکی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں اور غاصبوں، ظالموں، لٹیروں سے اپنے حقوق، خوشحالی، چین، سکون، اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے، دوسرے مظلوموں کے لیے چھین لیں۔ اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں، مجبوروں، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں۔ کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں، اگر آپ مجرم بن کر جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مرضی، اور اگر نہیں تو پھر دیر نہ کریں اور اٹھ کھڑے ہوں۔