مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جالوت کا لشکر جنوبی ڈھلان پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ سب آزمودہ کار جنگی سپاہی تھے۔
''پر خداوند نے سموئیل سے کہا کہ تو اس کے چہرے اور اس کے قد کی بلندی کو نہ دیکھ، اس لیے کہ میں نے اسے ناپسند کیا ہے، کیوں کہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا، اس لیے کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خدا دل پر نظر کرتا ہے۔'' (1 سموئیل 16:7)
لشکر میں سے ایک لمبا تڑنگا، دیوہیکل جنگجو باہر آیا۔ اس نے دھاتی خود پہن رکھا تھا۔ سارا جسم زرہ بکتر میں محفوظ تھا۔ اس کا قد بت، طاقت اور رعونت اچھے اچھے لڑاکوں کا پِتہ پانی کر دینے والی تھی۔ وہ نیزے، برچھی اور تلوار سے لیس تھا۔ اس کے ہمراہ گٹھے ہوئے جسم کا ایک کوتاہ قامت اس کی ڈھال سنبھالے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ طاغوتی لشکر سے برآمد ہونے والے اپنے وقت کے اس ماہر لڑاکا کا نام جالوت تھا۔ میدان میں پہنچ کر اس نے طالوت کے لشکر کو للکارا ''تم میں سے کوئی ایک آ کر مجھ سے مقابلہ کر لے، اگر وہ مجھے ہرا دے گا تو میں اور میری ساری فوج تمھارے غلام ہوں گے اور اگر میں نے اس کی گردن مار دی تو تم سب ہماری غلامی میں آ جاؤ گے۔''
طالوت کے سپاہیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی ایک بھی حرکت میں نہیں آیا۔ ایسے دیوزاد سے کون لڑائی کرتا؟ ایسے میں ایک کم عمر گڈریا آگے بڑھا۔ وہ اپنے بھائیوں کو کھانا پہنچانے آیا تھا۔ اس نے طالوت سے مبارزت کی اجازت چاہی۔ ''تمھیں لڑائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، وہ ایک خطرناک لشکری ہے اور تم ایک لڑکے ہی ہو، تمھاری عمر جتنا تو اس کا تجربہ ہی ہو گا۔ تم اس سے کیسے لڑو گے؟'' چرواہے کے عزائم آہنی تھے۔ اس نے کہا ''میں اس سے بھی زیادہ خطرناک دشمنوں سے نبرد آزما رہتا ہوں۔
جب جنگل میں جہاں میرے اور میرے ریوڑ کے علاوہ صرف رب عظیم ہوتا ہے، کوئی شیر یا ریچھ ریوڑ پر حملہ کر دے تو میں اسے چیر کر رکھ دیتا ہوں، اسی طرح آج میں اس عفریت کو ہلاک کر دوں گا۔'' بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ طالوت کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ اس نے نوجوان چرواہے کو مبارزت کی اجازت دی۔ وہ بے خوف ڈھلان سے دوڑتا ہوا اترا اور تیر کی طرح مسلح سلاخ پوش کی جانب بڑھتا چلا گیا۔
یہ واقعہ اب سے صدیوں قبل کا ہے۔ یوں تو ارضِ مقدس فلسطین پر کئی جنگیں اور لڑائیاں لڑی گئی ہیں، لیکن صدیوں قبل لڑی جانی والی یہ لڑائی آج تک کی عجیب اور انوکھی ترین لڑائی ہے۔ وادی شیفلہ میں ایلاہ کا مقام جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے 12 ویں صدی میں صلیبی جنگیں لڑیں۔ یہ اس سے بہت پہلے کا وقت ہے۔ گیارہویں صدی قبلِ مسیح کا۔ جالوت کا لشکر جنوبی ڈھلان پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ سب آزمودہ کار جنگی سپاہی تھے، جب کہ بنی اسرائیل کا لشکر طالوت کی قیادت میں کم تعداد کے غیر تربیت یافتہ ایسے افراد پر مشتمل تھا جن میں سے کئی تو جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔
ان حالات میں ایک چرواہے کو ایک دیو سے لڑنے کی اجازت ناگزیر تھی۔ ممولے کو باز سے لڑانے والی بات تھی۔ ''جلد میری طرف آؤ تا کہ میں تمھارا گوشت جنت کے پرندوں کو اور وادی کے درندوںکو کھلا سکوں۔'' جالوت اونچی آواز میں للکارا۔ یوں تاریخ کی عجیب ترین اور مشہور جنگ شروع ہوتی ہے۔ جالوت کے مقابل آنے والے گڈریے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام تھے۔
اسباب اور حالات پر نظر رکھنے والے، جنگی تکنیک اور لڑائیوں کے ماہر اس قسم کی کسی بھی لڑائی کے انجام کے بارے میں جو رائے دیں گے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی ٹاک شو کے فاضل اینکر پرسن کی رائے کیا ہو گی، عسکری ماہرین اعداد و شمار اور جدید عسکری اصطلاحات میں اسے کس طرح ایک ہاری ہوئی جنگ قرار دیں گے۔ نفسیات دان کس طرح اسے خودکشی بتائیں گے، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ تاریخ کا یہ باب دہرایا ہے ''میلکلم گلیڈ ویل'' نے اپنی نمبر 1 انٹرنیشنل بیسٹ سیلر کتاب ''ڈیوڈ اینڈ گولیتھ'' میں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب جالوت نے بنی اسرائیل کو باآواز بلند مبارزت کے لیے پکارا تھا تو یہ دور قدیم میں جنگ کا ایک جانا مانا طریقہ تھا۔ جب خون خرابے سے بچنے اور دیگر مصالح کی بنا پر دو مخالف لشکروں کا ایک ایک مقابل آپس میں لڑ کر جنگ کا فیصلہ کر لیا کرتے تھے۔
جالوت نے بھی یہ ہی کیا۔ گلیڈ ویل لکھتے ہیں کہ وہ یہ سمجھا تھا کہ مقابلے پر کوئی اسی جیسا تلوار اور نیزہ باز سپاہی آئے گا۔ ایک کم عمر چرواہے کو مقابل پا کر اسے بہت عجیب لگا۔ جالوت کے پاس نیزہ اور برچھی تھی۔ تلوار اس کی کمر سے لٹک رہی تھی۔ مضبوط ڈھال اس کے پاس رکھی تھی۔ وہ خود زرہ بکتر پہنے تھا۔ اس نے حضرت داؤد علیہ السلام کو تلوار پیش کی کہ تم مجھ سے مقابلے کے لیے تلوار لے لو۔ لیکن آپؑ نے انکار کر دیا۔ آپؑ نے کہا کہ نہ تو میں تلوار چلانا جانتا ہوں اور نہ میں تلوار لے کر چل سکوں گا۔
آپ کے ہاتھ میں چرواہوں والی چھڑی تھی اور کاندھے پہ جھولا۔ ''میلکلم گلیڈ ویل'' لکھتے ہیں کہ جالوت چلایا کہ کیا میں ایک کتا ہوں جو تم مجھے ڈنڈوں سے مارنے آ رہے ہو۔ ادھر آپؑ نے جالوت کی جانب بڑھتے ہوئے راستے سے 5 پتھر اٹھائے۔ ایک پتھر کو اپنے جھولے میں سے چمڑے کی فلاخن میں رکھا۔ تیزی سے دوڑتے ہوئے جالوت کی جانب بڑھے۔ فلاخن گھما کے جو پتھر مارا تو جالوت کی برہنہ پیشانی پر پڑا۔ وہ گر پڑا، مبہوت رہ گیا۔ آپ دوڑتے ہوئے اس کے قریب تو پہنچ ہی چکے تھے، اسی کی تلوار نکالی اور ایک ہی وار میں سر دھڑ سے جدا کر دیا۔ جالوت کے لشکریوں نے جو یہ معاملہ دیکھا تو بائبل کے الفاظ میں سب بھاگ لیے۔
میلکلم گلیڈ ویل اپنی کتاب کے صفحہ 22 پر عجیب بات بیان کرتے ہیں، یوں تو گلیڈ ویل کا طرزِ تحریر اور ساری کتاب ہی لائق مطالعہ ہے لیکن یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا بیان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آپ گزشتہ دو سو برس میں ہونے والی جنگوں کا حساب کریں۔ وہ جنگیں جو ایک بہت بڑے اور ایک بہت چھوٹے ملک کے مابین ہوئی ہوں۔ فرض کریں کہ بڑا ملک آبادی اور عسکری قوت میں 10 گنا زیادہ بڑا ہو۔
آپ کا کیا خیال ہے، بڑے ملک کتنی مرتبہ جیتے ہوں گے؟ گلیڈ ویل کہتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے اکثر کا جواب ہو گا 100 فیصد۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل جواب سن کر آپ یقیناً حیران رہ جائیں گے۔ معروف ماہر علم سیاسیات آئیون آریگوین ٹوفٹ نے چند برس قبل یہ تحقیق کی۔ نتیجہ تھا 71.5 فیصد۔ جی ہاں 28.5 مرتبہ کم زور ملک کی فتح ہوئی۔ ازاں بعد آریگوین ٹوفٹ نے یہ ہی سوال کسی قدر مختلف انداز میں کیا۔ جنگوں کے نتائج کیا ہوتے ہیں، جب کمزور طرف اسی طرح کرے جیسا کہ حضرت داؤد نے کیا، یعنی اس طریقہ جنگ سے انکار کر دینا جس طریقے پر طاقت ور جنگ کر رہا ہو۔ اس صورت میں کمزور کے جیتنے کا تناسب 28.5 فیصد سے بڑھ کر 63.6 فیصد تک ہو جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جینے کا اور جیتنے کا صرف وہ ہی ایک طریقہ نہیں ہے جو معروف ہو۔ ایسا قطعی نہیں ہے کہ مروجہ طریقے ہی آخری طریقے ہیں۔ یہ تو بس غلط طور پر فرض کروا دیا گیا ہے کہ معاشرت، معیشت اور سیاست کے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک فرد بھی ایسے ہولناک کارنامے انجام دے سکتا ہے جو پوری فوج بھی نہ کر پائے، جیسے لارنس آف عریبیہ وغیرہ۔
لشکر میں سے ایک لمبا تڑنگا، دیوہیکل جنگجو باہر آیا۔ اس نے دھاتی خود پہن رکھا تھا۔ سارا جسم زرہ بکتر میں محفوظ تھا۔ اس کا قد بت، طاقت اور رعونت اچھے اچھے لڑاکوں کا پِتہ پانی کر دینے والی تھی۔ وہ نیزے، برچھی اور تلوار سے لیس تھا۔ اس کے ہمراہ گٹھے ہوئے جسم کا ایک کوتاہ قامت اس کی ڈھال سنبھالے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ طاغوتی لشکر سے برآمد ہونے والے اپنے وقت کے اس ماہر لڑاکا کا نام جالوت تھا۔ میدان میں پہنچ کر اس نے طالوت کے لشکر کو للکارا ''تم میں سے کوئی ایک آ کر مجھ سے مقابلہ کر لے، اگر وہ مجھے ہرا دے گا تو میں اور میری ساری فوج تمھارے غلام ہوں گے اور اگر میں نے اس کی گردن مار دی تو تم سب ہماری غلامی میں آ جاؤ گے۔''
طالوت کے سپاہیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی ایک بھی حرکت میں نہیں آیا۔ ایسے دیوزاد سے کون لڑائی کرتا؟ ایسے میں ایک کم عمر گڈریا آگے بڑھا۔ وہ اپنے بھائیوں کو کھانا پہنچانے آیا تھا۔ اس نے طالوت سے مبارزت کی اجازت چاہی۔ ''تمھیں لڑائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، وہ ایک خطرناک لشکری ہے اور تم ایک لڑکے ہی ہو، تمھاری عمر جتنا تو اس کا تجربہ ہی ہو گا۔ تم اس سے کیسے لڑو گے؟'' چرواہے کے عزائم آہنی تھے۔ اس نے کہا ''میں اس سے بھی زیادہ خطرناک دشمنوں سے نبرد آزما رہتا ہوں۔
جب جنگل میں جہاں میرے اور میرے ریوڑ کے علاوہ صرف رب عظیم ہوتا ہے، کوئی شیر یا ریچھ ریوڑ پر حملہ کر دے تو میں اسے چیر کر رکھ دیتا ہوں، اسی طرح آج میں اس عفریت کو ہلاک کر دوں گا۔'' بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ طالوت کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ اس نے نوجوان چرواہے کو مبارزت کی اجازت دی۔ وہ بے خوف ڈھلان سے دوڑتا ہوا اترا اور تیر کی طرح مسلح سلاخ پوش کی جانب بڑھتا چلا گیا۔
یہ واقعہ اب سے صدیوں قبل کا ہے۔ یوں تو ارضِ مقدس فلسطین پر کئی جنگیں اور لڑائیاں لڑی گئی ہیں، لیکن صدیوں قبل لڑی جانی والی یہ لڑائی آج تک کی عجیب اور انوکھی ترین لڑائی ہے۔ وادی شیفلہ میں ایلاہ کا مقام جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے 12 ویں صدی میں صلیبی جنگیں لڑیں۔ یہ اس سے بہت پہلے کا وقت ہے۔ گیارہویں صدی قبلِ مسیح کا۔ جالوت کا لشکر جنوبی ڈھلان پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ سب آزمودہ کار جنگی سپاہی تھے، جب کہ بنی اسرائیل کا لشکر طالوت کی قیادت میں کم تعداد کے غیر تربیت یافتہ ایسے افراد پر مشتمل تھا جن میں سے کئی تو جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔
ان حالات میں ایک چرواہے کو ایک دیو سے لڑنے کی اجازت ناگزیر تھی۔ ممولے کو باز سے لڑانے والی بات تھی۔ ''جلد میری طرف آؤ تا کہ میں تمھارا گوشت جنت کے پرندوں کو اور وادی کے درندوںکو کھلا سکوں۔'' جالوت اونچی آواز میں للکارا۔ یوں تاریخ کی عجیب ترین اور مشہور جنگ شروع ہوتی ہے۔ جالوت کے مقابل آنے والے گڈریے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام تھے۔
اسباب اور حالات پر نظر رکھنے والے، جنگی تکنیک اور لڑائیوں کے ماہر اس قسم کی کسی بھی لڑائی کے انجام کے بارے میں جو رائے دیں گے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی ٹاک شو کے فاضل اینکر پرسن کی رائے کیا ہو گی، عسکری ماہرین اعداد و شمار اور جدید عسکری اصطلاحات میں اسے کس طرح ایک ہاری ہوئی جنگ قرار دیں گے۔ نفسیات دان کس طرح اسے خودکشی بتائیں گے، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ تاریخ کا یہ باب دہرایا ہے ''میلکلم گلیڈ ویل'' نے اپنی نمبر 1 انٹرنیشنل بیسٹ سیلر کتاب ''ڈیوڈ اینڈ گولیتھ'' میں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب جالوت نے بنی اسرائیل کو باآواز بلند مبارزت کے لیے پکارا تھا تو یہ دور قدیم میں جنگ کا ایک جانا مانا طریقہ تھا۔ جب خون خرابے سے بچنے اور دیگر مصالح کی بنا پر دو مخالف لشکروں کا ایک ایک مقابل آپس میں لڑ کر جنگ کا فیصلہ کر لیا کرتے تھے۔
جالوت نے بھی یہ ہی کیا۔ گلیڈ ویل لکھتے ہیں کہ وہ یہ سمجھا تھا کہ مقابلے پر کوئی اسی جیسا تلوار اور نیزہ باز سپاہی آئے گا۔ ایک کم عمر چرواہے کو مقابل پا کر اسے بہت عجیب لگا۔ جالوت کے پاس نیزہ اور برچھی تھی۔ تلوار اس کی کمر سے لٹک رہی تھی۔ مضبوط ڈھال اس کے پاس رکھی تھی۔ وہ خود زرہ بکتر پہنے تھا۔ اس نے حضرت داؤد علیہ السلام کو تلوار پیش کی کہ تم مجھ سے مقابلے کے لیے تلوار لے لو۔ لیکن آپؑ نے انکار کر دیا۔ آپؑ نے کہا کہ نہ تو میں تلوار چلانا جانتا ہوں اور نہ میں تلوار لے کر چل سکوں گا۔
آپ کے ہاتھ میں چرواہوں والی چھڑی تھی اور کاندھے پہ جھولا۔ ''میلکلم گلیڈ ویل'' لکھتے ہیں کہ جالوت چلایا کہ کیا میں ایک کتا ہوں جو تم مجھے ڈنڈوں سے مارنے آ رہے ہو۔ ادھر آپؑ نے جالوت کی جانب بڑھتے ہوئے راستے سے 5 پتھر اٹھائے۔ ایک پتھر کو اپنے جھولے میں سے چمڑے کی فلاخن میں رکھا۔ تیزی سے دوڑتے ہوئے جالوت کی جانب بڑھے۔ فلاخن گھما کے جو پتھر مارا تو جالوت کی برہنہ پیشانی پر پڑا۔ وہ گر پڑا، مبہوت رہ گیا۔ آپ دوڑتے ہوئے اس کے قریب تو پہنچ ہی چکے تھے، اسی کی تلوار نکالی اور ایک ہی وار میں سر دھڑ سے جدا کر دیا۔ جالوت کے لشکریوں نے جو یہ معاملہ دیکھا تو بائبل کے الفاظ میں سب بھاگ لیے۔
میلکلم گلیڈ ویل اپنی کتاب کے صفحہ 22 پر عجیب بات بیان کرتے ہیں، یوں تو گلیڈ ویل کا طرزِ تحریر اور ساری کتاب ہی لائق مطالعہ ہے لیکن یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا بیان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آپ گزشتہ دو سو برس میں ہونے والی جنگوں کا حساب کریں۔ وہ جنگیں جو ایک بہت بڑے اور ایک بہت چھوٹے ملک کے مابین ہوئی ہوں۔ فرض کریں کہ بڑا ملک آبادی اور عسکری قوت میں 10 گنا زیادہ بڑا ہو۔
آپ کا کیا خیال ہے، بڑے ملک کتنی مرتبہ جیتے ہوں گے؟ گلیڈ ویل کہتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے اکثر کا جواب ہو گا 100 فیصد۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل جواب سن کر آپ یقیناً حیران رہ جائیں گے۔ معروف ماہر علم سیاسیات آئیون آریگوین ٹوفٹ نے چند برس قبل یہ تحقیق کی۔ نتیجہ تھا 71.5 فیصد۔ جی ہاں 28.5 مرتبہ کم زور ملک کی فتح ہوئی۔ ازاں بعد آریگوین ٹوفٹ نے یہ ہی سوال کسی قدر مختلف انداز میں کیا۔ جنگوں کے نتائج کیا ہوتے ہیں، جب کمزور طرف اسی طرح کرے جیسا کہ حضرت داؤد نے کیا، یعنی اس طریقہ جنگ سے انکار کر دینا جس طریقے پر طاقت ور جنگ کر رہا ہو۔ اس صورت میں کمزور کے جیتنے کا تناسب 28.5 فیصد سے بڑھ کر 63.6 فیصد تک ہو جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جینے کا اور جیتنے کا صرف وہ ہی ایک طریقہ نہیں ہے جو معروف ہو۔ ایسا قطعی نہیں ہے کہ مروجہ طریقے ہی آخری طریقے ہیں۔ یہ تو بس غلط طور پر فرض کروا دیا گیا ہے کہ معاشرت، معیشت اور سیاست کے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک فرد بھی ایسے ہولناک کارنامے انجام دے سکتا ہے جو پوری فوج بھی نہ کر پائے، جیسے لارنس آف عریبیہ وغیرہ۔