یہ زندہ قوم ہے
دنیا جہاں پر نئی تخلیق کے متعلق سوچ رہی ہو گی وہ کارنامہ ہمارے یہاں پہلے ہو چکا ہو گا۔
بچپن میں اماں کہانیاں سُنا سُنا کر سب بچوں کو سُلاتی تھیں اور ہم روز یہ سوچ کر سو جاتے تھے کہ ہم بھی شہزادے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ہم اجتماعی طور پر روز یہ کہانیاں سُن سُن کر سو جاتے ہیں کہ اگلے دن اٹھتے ہی انقلاب آ چکا ہو گا اور ہم سب کی زندگیاں تبدیل ہو چکی ہوں گی۔ پورے ملک میں امن کی گھنٹیاں بج رہی ہوں گی ہر جگہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہو گا۔ اس ملک سے لسانی او ر فرقہ ورانہ نفرت ختم ہو چکی ہو گی۔ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے۔
محمود و ایاز کی تفریق کا نام و نشان نہیں ہو گا۔ ایک ہی رات میں سب لوگ تعلیم یافتہ ہو چکے ہونگے۔ پلک جھپکتے ہی بیماروں کو شفا ہو جائے گی، بوڑھے جوان لگنے لگ جائیں گے۔ دنیا جہاں پر نئی تخلیق کے متعلق سوچ رہی ہو گی وہ کارنامہ ہمارے یہاں پہلے ہو چکا ہو گا۔ ہر روز کی تقریروں میں کم از کم آپ کو سیاسی لیڈر جو مفکر زیادہ لگتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم سوتے ہیں سب ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ اور اگلے دن پھر وہی ٹوٹی ہوئی سڑکیں، وہی لوڈ شیڈنگ، وہی ہر لمحے کسی انجانی گولی کا انتظار اور پھر وہی رات کو پرائم ٹائم کے ششکے۔
آپ تھوڑا سا غور کریں آپ کو ایسا لگے گا کہ جس طرح ہم غریبوں کی دعا ہوتی ہے کہ ہمارے دن بدل جائیں، لیکن نسلیں گزرنے کے باوجود بھی دن نہیں بدلتے اسی طرح یہ سیاسی اور سماجی مسئلہ ہیں جو کبھی نہیں بدلتے۔ میں دور کی کوڑیاں نہیں ملانا چاہتا اور نہ ہی زمانے بھر کے قصے سُنانا چاہتا ہوں۔ وہ جو نظمیں پڑھتے تھے کہ چیف کی بحالی کے بعد یہاں دودھ کی نہریں ہونگی وہ کہاں گئے۔ سابق چیف نے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا وقت مکمل کیا اور وہ وہ فیصلہ دیے جس پر تاریخ میں ہمیشہ سوال اٹھایا جائے گا، لیکن وہ سب کہاں گئے جو نعرے لگاتے تھے۔ چیف تیرے جاںنثار۔ ایک طرف ہم تھے جو روز ٹی وی اسکرین پر یہ دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ہم مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ اب دنیا بدلنے والی ہے۔ جو اس آس میں قربان ہو گئے کہ اب ہمارے لہو سے چراغ جل اٹھیں گے۔ غور کیجیے اور غور سے سمجھیں کہ کیا ہوا؟ کس کے دن بدلے اور کس کے وہی رہے۔
منظر نامے پر غور کیجیے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگست میں ستم گروں پر ایسا ہتھوڑا چلے گا کہ پھر ہر سمت سے انالحق کی آوازیں آئیں گی۔ وہ وقت دور نہیں تھا جب ہر جانب سے تخت گرنے کی باز گشت ہو گی۔ مگر کیا ہوا؟ جب لاہور سے قافلے نکلیں تو لوگوں کی نگاہیں ٹی وی کی اسکرین سے نہیں ہٹ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی نگاہوں سے دیکھیں گے کہ تاج کیسے اچھالے جاتے ہیں۔ جب وہ خود دیکھیں گے کہ بُت کیسے گرائیں جائیں گے۔ اُن کے چاہنے والے اُن کے ایک ایک قدم کو اپنی جانوں سے بڑھ کر سمجھ رہے تھے۔ وہ زندگی کا مقصد اس راہ میں قربان ہونا بنا بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دم سے شور تھم گیا۔ ہر طرف خاموشی ہو گئی۔ لیکن کیوں ...؟
ایک خاموشی سی ہے آخر ایسا کیا ہو گیا کہ طاہر القادری نے دھرنا ختم کر دیا۔ کسی کے پاس کوئی منطقی جواب موجود نہیں ہے۔ مگر دیکھنے اور سُننے کے ساتھ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کیوں خاموش ہے؟ جو ہر تقریر کے بعد ایک جواب ضرور بھیجتی تھی۔ سیاسی دانش میں اس طرح سے معاملہ کو ٹھنڈا کرنا اور پیسوں کا الزام عائد کرنا بہت ہی سطحی ہے۔ وہ ٹھوس وجوہات کی تلاش ضرور ہے جس سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے؟ طاہر القادری صاحب کو سیاست میں ایک عمر ہو چکی ہے اور وہ سیاسی طور پر بازیوں کو کھیلنے اور سمجھنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ کسی طور پر اپنی اتنی بڑی تحریک کو چند سطحی اور عارضی مفادات کی خاطر داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ حالیہ پوری تحریک کا ماحول انھوں نے ایک دو دن میں نہیں بلکہ پورے چار ماہ کی تیاری کے بعد پیدا کیا۔ یا پھر یہ ماحول پیدا ہوا کہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کر سکے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اکثر لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس پوری تحریک کے پیچھے کو ئی تھا جو چلا رہا تھا۔ اگر یہ بات ہے تو سوال یہ ہے کہ آخر کون تھا اور اُس کا اب کون سا ایسا مفاد پورا ہو چکا ہے کہ اُس نے فوری طور پر سب ختم کرا دیا۔ مگر میرا سوال یہ کہ طاہر القادری ہو یا پھر کوئی بھی سیاسی رہنما حالات اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ختم کرنے کا فیصلہ ایک دم ہو گیا ہے۔ ماحول ایسا نہیں جیسا لگ رہا ہے۔ یہ اندرونی یا بیرونی طور پر کسی بڑے خفیہ طوفان کا عکس پیش کرتا ہے۔
پاکستان میں رونما ہونے والے ہر بڑے سیاسی واقعے کی کڑیاں سالوں بعد کھول کر سامنے لائی جاتی ہے جیسے ابھی چھُپائی جا رہی ہیں ۔ وہ کون سے راز ہیں جو ان سینوں میں دفن ہیں جو تمام فریق خاموش ہیں۔ عمران اپنا ساتھ چھوڑنے والوں کے لیے کون سا طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن اُن کی جانب سے بھی زبان بندی ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات حکومت کی جانب سے ہے۔ اگر آپ غور کریں تو دھرنے سے جلسوں کی جانب جانے سے پہلے ہی حکومت خاموش ہو گئی تھی۔ اور اب بھی انھوں نے زبان بند ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اب لفظوں میں گرماہٹ نہیں ہے۔
میں بس اتنا کہوں گا کہ اس ملک میں سیاسی ہلچل کو جو اب تک سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں عوام کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ محلات میں بننے والی سازشیں اور تحریکیں ان کی ایک دوسرے کے خلاف اور زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ جس کے لیے صرف اور صرف عوام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن عوام استعمال کیوں ہوتے ہیں۔ ؟ جب میں نے یہ سوال سابقہ ادوار میں سیاسی طور پر سرگرم اور سابق دور میں ہی وفاقی وزیر رہنے والے درویش سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ بیچارے کیا کریں ہر ایک پر اعتبار کرنے کے علاوہ اُن کے پاس دوسرا راستہ کیا ہے؟ انھیں تو جہاں امید نظر آتی ہے وہ اُن کے ساتھ چل پڑتے ہیں چاہے وہ وردی والے ہوں، کوٹ والے ہوں، جھنڈوں والے ہوں یا پھر چادروں والے۔ اُن کا کیا قصور ہے۔
ایک نجی محفل میں جب ANP کے رہنما بشیر جان سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر دھوکا ہو رہا ہو اور ہمارے نوجوان کو آنے والوے دنوں میں انقلاب کے نام سے نفرت ہو جائے۔ لیکن میرا خیال ہے ہم پختگی کی طرف بڑھ رہے ہیں کئی ایسے نوجوانوں سے بات ہوئی جنھیں معلوم ہی نہیں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے لیکن وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ جب تک غریب کے حالات ایسے ہی رہیں گے، چاہے یہ عوام کتنے ہی دھوکے نہ کھا لیں لیکن یہ اپنی تبدیلی کی چاہ کے لیے ہر بار نکلیں گے۔ انھوں نے سب پر بھروسہ کیا۔ اور سب کریں گے۔ عوام نے ہی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، عوام نے ہی شیر کو جتایا۔ بھلے ان سے اس بار دھوکا ہوا، بھلے ان سے ناانصافی ہو، کوئی بات نہیں جو انھیں بیچ میں لا کر چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ عوام مخلص ہیں۔ جو اپنے اور اپنے ملک کے حالات بدلنا چاہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ایک بار پھر انھیں اُسی دلدل میں ڈال دیا جائے۔ لیکن ان کے حوصلے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ کیوں کہ یہ زندہ قوم ہے۔
محمود و ایاز کی تفریق کا نام و نشان نہیں ہو گا۔ ایک ہی رات میں سب لوگ تعلیم یافتہ ہو چکے ہونگے۔ پلک جھپکتے ہی بیماروں کو شفا ہو جائے گی، بوڑھے جوان لگنے لگ جائیں گے۔ دنیا جہاں پر نئی تخلیق کے متعلق سوچ رہی ہو گی وہ کارنامہ ہمارے یہاں پہلے ہو چکا ہو گا۔ ہر روز کی تقریروں میں کم از کم آپ کو سیاسی لیڈر جو مفکر زیادہ لگتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم سوتے ہیں سب ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ اور اگلے دن پھر وہی ٹوٹی ہوئی سڑکیں، وہی لوڈ شیڈنگ، وہی ہر لمحے کسی انجانی گولی کا انتظار اور پھر وہی رات کو پرائم ٹائم کے ششکے۔
آپ تھوڑا سا غور کریں آپ کو ایسا لگے گا کہ جس طرح ہم غریبوں کی دعا ہوتی ہے کہ ہمارے دن بدل جائیں، لیکن نسلیں گزرنے کے باوجود بھی دن نہیں بدلتے اسی طرح یہ سیاسی اور سماجی مسئلہ ہیں جو کبھی نہیں بدلتے۔ میں دور کی کوڑیاں نہیں ملانا چاہتا اور نہ ہی زمانے بھر کے قصے سُنانا چاہتا ہوں۔ وہ جو نظمیں پڑھتے تھے کہ چیف کی بحالی کے بعد یہاں دودھ کی نہریں ہونگی وہ کہاں گئے۔ سابق چیف نے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا وقت مکمل کیا اور وہ وہ فیصلہ دیے جس پر تاریخ میں ہمیشہ سوال اٹھایا جائے گا، لیکن وہ سب کہاں گئے جو نعرے لگاتے تھے۔ چیف تیرے جاںنثار۔ ایک طرف ہم تھے جو روز ٹی وی اسکرین پر یہ دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ہم مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ اب دنیا بدلنے والی ہے۔ جو اس آس میں قربان ہو گئے کہ اب ہمارے لہو سے چراغ جل اٹھیں گے۔ غور کیجیے اور غور سے سمجھیں کہ کیا ہوا؟ کس کے دن بدلے اور کس کے وہی رہے۔
منظر نامے پر غور کیجیے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگست میں ستم گروں پر ایسا ہتھوڑا چلے گا کہ پھر ہر سمت سے انالحق کی آوازیں آئیں گی۔ وہ وقت دور نہیں تھا جب ہر جانب سے تخت گرنے کی باز گشت ہو گی۔ مگر کیا ہوا؟ جب لاہور سے قافلے نکلیں تو لوگوں کی نگاہیں ٹی وی کی اسکرین سے نہیں ہٹ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی نگاہوں سے دیکھیں گے کہ تاج کیسے اچھالے جاتے ہیں۔ جب وہ خود دیکھیں گے کہ بُت کیسے گرائیں جائیں گے۔ اُن کے چاہنے والے اُن کے ایک ایک قدم کو اپنی جانوں سے بڑھ کر سمجھ رہے تھے۔ وہ زندگی کا مقصد اس راہ میں قربان ہونا بنا بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دم سے شور تھم گیا۔ ہر طرف خاموشی ہو گئی۔ لیکن کیوں ...؟
ایک خاموشی سی ہے آخر ایسا کیا ہو گیا کہ طاہر القادری نے دھرنا ختم کر دیا۔ کسی کے پاس کوئی منطقی جواب موجود نہیں ہے۔ مگر دیکھنے اور سُننے کے ساتھ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کیوں خاموش ہے؟ جو ہر تقریر کے بعد ایک جواب ضرور بھیجتی تھی۔ سیاسی دانش میں اس طرح سے معاملہ کو ٹھنڈا کرنا اور پیسوں کا الزام عائد کرنا بہت ہی سطحی ہے۔ وہ ٹھوس وجوہات کی تلاش ضرور ہے جس سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے؟ طاہر القادری صاحب کو سیاست میں ایک عمر ہو چکی ہے اور وہ سیاسی طور پر بازیوں کو کھیلنے اور سمجھنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ کسی طور پر اپنی اتنی بڑی تحریک کو چند سطحی اور عارضی مفادات کی خاطر داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ حالیہ پوری تحریک کا ماحول انھوں نے ایک دو دن میں نہیں بلکہ پورے چار ماہ کی تیاری کے بعد پیدا کیا۔ یا پھر یہ ماحول پیدا ہوا کہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کر سکے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اکثر لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس پوری تحریک کے پیچھے کو ئی تھا جو چلا رہا تھا۔ اگر یہ بات ہے تو سوال یہ ہے کہ آخر کون تھا اور اُس کا اب کون سا ایسا مفاد پورا ہو چکا ہے کہ اُس نے فوری طور پر سب ختم کرا دیا۔ مگر میرا سوال یہ کہ طاہر القادری ہو یا پھر کوئی بھی سیاسی رہنما حالات اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ختم کرنے کا فیصلہ ایک دم ہو گیا ہے۔ ماحول ایسا نہیں جیسا لگ رہا ہے۔ یہ اندرونی یا بیرونی طور پر کسی بڑے خفیہ طوفان کا عکس پیش کرتا ہے۔
پاکستان میں رونما ہونے والے ہر بڑے سیاسی واقعے کی کڑیاں سالوں بعد کھول کر سامنے لائی جاتی ہے جیسے ابھی چھُپائی جا رہی ہیں ۔ وہ کون سے راز ہیں جو ان سینوں میں دفن ہیں جو تمام فریق خاموش ہیں۔ عمران اپنا ساتھ چھوڑنے والوں کے لیے کون سا طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن اُن کی جانب سے بھی زبان بندی ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات حکومت کی جانب سے ہے۔ اگر آپ غور کریں تو دھرنے سے جلسوں کی جانب جانے سے پہلے ہی حکومت خاموش ہو گئی تھی۔ اور اب بھی انھوں نے زبان بند ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اب لفظوں میں گرماہٹ نہیں ہے۔
میں بس اتنا کہوں گا کہ اس ملک میں سیاسی ہلچل کو جو اب تک سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں عوام کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ محلات میں بننے والی سازشیں اور تحریکیں ان کی ایک دوسرے کے خلاف اور زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ جس کے لیے صرف اور صرف عوام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن عوام استعمال کیوں ہوتے ہیں۔ ؟ جب میں نے یہ سوال سابقہ ادوار میں سیاسی طور پر سرگرم اور سابق دور میں ہی وفاقی وزیر رہنے والے درویش سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ بیچارے کیا کریں ہر ایک پر اعتبار کرنے کے علاوہ اُن کے پاس دوسرا راستہ کیا ہے؟ انھیں تو جہاں امید نظر آتی ہے وہ اُن کے ساتھ چل پڑتے ہیں چاہے وہ وردی والے ہوں، کوٹ والے ہوں، جھنڈوں والے ہوں یا پھر چادروں والے۔ اُن کا کیا قصور ہے۔
ایک نجی محفل میں جب ANP کے رہنما بشیر جان سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر دھوکا ہو رہا ہو اور ہمارے نوجوان کو آنے والوے دنوں میں انقلاب کے نام سے نفرت ہو جائے۔ لیکن میرا خیال ہے ہم پختگی کی طرف بڑھ رہے ہیں کئی ایسے نوجوانوں سے بات ہوئی جنھیں معلوم ہی نہیں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے لیکن وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ جب تک غریب کے حالات ایسے ہی رہیں گے، چاہے یہ عوام کتنے ہی دھوکے نہ کھا لیں لیکن یہ اپنی تبدیلی کی چاہ کے لیے ہر بار نکلیں گے۔ انھوں نے سب پر بھروسہ کیا۔ اور سب کریں گے۔ عوام نے ہی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، عوام نے ہی شیر کو جتایا۔ بھلے ان سے اس بار دھوکا ہوا، بھلے ان سے ناانصافی ہو، کوئی بات نہیں جو انھیں بیچ میں لا کر چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ عوام مخلص ہیں۔ جو اپنے اور اپنے ملک کے حالات بدلنا چاہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ایک بار پھر انھیں اُسی دلدل میں ڈال دیا جائے۔ لیکن ان کے حوصلے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ کیوں کہ یہ زندہ قوم ہے۔