پاکستان ایک نظر میں نئے پاکستان کے لیے نئی تاریخ
عمران خان نےروایتی سیاست کوہلا دیا ہےاب یہ انکی سیاست کا ثمرہے یاشخصت کا سحریا بھرپورمیڈیا کوریج کا اثر، کہنا مشکل ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی عروج پر پہنچ گئے ہیں یا اس جانب گامزن ہیں تاہم اٹھارہ سالہ سیاست میں خان صاحب اس اسٹیج پر تو ضرور ہی پہنچ گئے ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد انہیں دیکھنے اور سننے کی تمنا میں گھنٹوں موسم کی شدتیں برداشت کرتی ہے۔
مینار پاکستان کے کامیاب جلسے کے بعد سے تحریک انصاف نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا۔ 2013 کے انتخابات نے تحریک انصاف کو ملک کی تیسری بڑی جماعت بنادیا اورایک صوبے کی حکومت بھی دلوادی لیکن نہ قیادت مطمئن ہوئی اورنہ ووٹر، دھاندلی کیخلاف تحریک انصاف کا احتجاج پہلے دن سے آج تک جاری ہے۔ 70 سے زائد دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دئے بیٹھے خان صاحب بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اسٹیٹس کو اور دھاندلی سے قوم کوآزاد کروا کر رہینگے۔
تین سال پہلے تک عمران خان کو غیر سنجیدگی سے لینے والے بھی اب نہ صرف انکو غورسے سنتے ہیں بلکہ یہ مان رہے ہیں کہ فی الوقت تحریک انصاف ہی تبدیلی کی واحد علامت ہے۔ کپتان کو یہ مقام انکے کھلاڑیوں نے دلوایا ہے جو انکے منہ سے نکلی ہر بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ اسمبلی میں فقط ایک سیٹ اور' فیس بک پرائم منسٹر' سے لیکر آج تاریخی جلسوں تک کا یہ سفر کپتان کے حامیوں کے عزم اوراپنے قائد پرغیرمتزلزل ایمان کا ثبوت ہے۔
حیرت انگیز طور پر 62 سالہ خان صاحب کے دیوانوں میں نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہے۔ جہاں انکا شاندار کرکٹ کیرئیر، پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانا، سوشل ویلفئرسیکٹرمیں شوکت خانم اسپتال کا کامیاب سفرانکا پبلک امیج بہتر بناتا ہے وہیں کرپشن سے پاک کردارانکو پرستاروں میں مقبول کئے ہوئے ہے۔ اپنے موقف پر ڈٹ جانے اور رسک لینےکو حامی خان صاحب کی سب سے بڑی خوبی گردانتے ہیں۔ عمران خان بھی اس چیز سے ناواقف نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ روز شام کو کنٹینر سے مخالفین کو للکارتے بھی ہیں اور کرپشن کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں ۔
دوسری طرف خان صاحب کے ناقدین انکو نا پختہ سیاستدان کہتے ہیں جو غیر مقبول اور جلد بازی میں لئے گئے فیصلوں پر اڑ کر اپنی پارٹی کا نقصان کرواتا ہے۔ اُن پراعتراض ہے کہ خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کو کامیابی سے چلاکر رول ماڈل بنانے کے بجائے لاحاصل دھرنوں سے عمران خان جمہوری اداروں اورغیر یقینی معاشی صورتحال کو مزید خراب کررہے ہیں۔ اُن پریہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ جب مذاکرات کے دوران جب حکومت کچھ شرائط مان رہی تھی تو عمران خان کو اتفاق کرلینا چاہئے تھا اوراسمبلی میں واپس آکرزیرک سیاستدان کی طرح اسکو اپنی جماعت کے فائدے کیلئے استعمال کرتے نا کہ اسٹبلشمنٹ کے آلۂ کار کا طوق گلے میں ڈال لیا ساتھ ہی جاوید ہاشمی جیسے باغی سے ہاتھ بھی دھودیے۔
ہم دیکھتےہیں کہ کپتان ہمیشہ سولو فلائٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر محتاط زبانی حملے اکثر غیرجانبدارعناصر کو بھی انکا مخالف بنادیتے ہیں۔ یہ سنگین سیاسی غلطیاں بھی کرتے ہیں اور گھسے پٹے مہروں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کرکے تبدیلی کا وعدہ پورے وثوق سے کرتےہیں۔ یہ اپنے فیصلوں پر یوٹرن لیتے ہیں جیسے مشرف کی حمایت، شیخ رشید سے اتحاد، وزیرستان میں فوجی کرروائی وغیرہ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان نے روایتی سیاست کو ہلا دیا ہے اب یہ انکی سیاست کا ثمرہے یا شخصت کا سحریا بھرپورمیڈیا کوریج کا اثر، کہنا مشکل ہے لیکن نوجوان انہی کی طرح سیاست کو محدود دائرے سے باہر ضرور نکالنا چاہتا ہے۔
اب عمران خان ںےایک بار پھر 30 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے۔ اگرعوام نے انکی کال پر لبیک کہا تو خان صاحب کی سیاست ایک نیا موڑ لیگی بصورت دیگر نئے سال کا سورج شاید کپتان کیلئے ایک اور یو ٹرن لیکر طلوع ہو ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مینار پاکستان کے کامیاب جلسے کے بعد سے تحریک انصاف نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا۔ 2013 کے انتخابات نے تحریک انصاف کو ملک کی تیسری بڑی جماعت بنادیا اورایک صوبے کی حکومت بھی دلوادی لیکن نہ قیادت مطمئن ہوئی اورنہ ووٹر، دھاندلی کیخلاف تحریک انصاف کا احتجاج پہلے دن سے آج تک جاری ہے۔ 70 سے زائد دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دئے بیٹھے خان صاحب بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اسٹیٹس کو اور دھاندلی سے قوم کوآزاد کروا کر رہینگے۔
تین سال پہلے تک عمران خان کو غیر سنجیدگی سے لینے والے بھی اب نہ صرف انکو غورسے سنتے ہیں بلکہ یہ مان رہے ہیں کہ فی الوقت تحریک انصاف ہی تبدیلی کی واحد علامت ہے۔ کپتان کو یہ مقام انکے کھلاڑیوں نے دلوایا ہے جو انکے منہ سے نکلی ہر بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ اسمبلی میں فقط ایک سیٹ اور' فیس بک پرائم منسٹر' سے لیکر آج تاریخی جلسوں تک کا یہ سفر کپتان کے حامیوں کے عزم اوراپنے قائد پرغیرمتزلزل ایمان کا ثبوت ہے۔
حیرت انگیز طور پر 62 سالہ خان صاحب کے دیوانوں میں نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہے۔ جہاں انکا شاندار کرکٹ کیرئیر، پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانا، سوشل ویلفئرسیکٹرمیں شوکت خانم اسپتال کا کامیاب سفرانکا پبلک امیج بہتر بناتا ہے وہیں کرپشن سے پاک کردارانکو پرستاروں میں مقبول کئے ہوئے ہے۔ اپنے موقف پر ڈٹ جانے اور رسک لینےکو حامی خان صاحب کی سب سے بڑی خوبی گردانتے ہیں۔ عمران خان بھی اس چیز سے ناواقف نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ روز شام کو کنٹینر سے مخالفین کو للکارتے بھی ہیں اور کرپشن کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں ۔
دوسری طرف خان صاحب کے ناقدین انکو نا پختہ سیاستدان کہتے ہیں جو غیر مقبول اور جلد بازی میں لئے گئے فیصلوں پر اڑ کر اپنی پارٹی کا نقصان کرواتا ہے۔ اُن پراعتراض ہے کہ خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کو کامیابی سے چلاکر رول ماڈل بنانے کے بجائے لاحاصل دھرنوں سے عمران خان جمہوری اداروں اورغیر یقینی معاشی صورتحال کو مزید خراب کررہے ہیں۔ اُن پریہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ جب مذاکرات کے دوران جب حکومت کچھ شرائط مان رہی تھی تو عمران خان کو اتفاق کرلینا چاہئے تھا اوراسمبلی میں واپس آکرزیرک سیاستدان کی طرح اسکو اپنی جماعت کے فائدے کیلئے استعمال کرتے نا کہ اسٹبلشمنٹ کے آلۂ کار کا طوق گلے میں ڈال لیا ساتھ ہی جاوید ہاشمی جیسے باغی سے ہاتھ بھی دھودیے۔
ہم دیکھتےہیں کہ کپتان ہمیشہ سولو فلائٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر محتاط زبانی حملے اکثر غیرجانبدارعناصر کو بھی انکا مخالف بنادیتے ہیں۔ یہ سنگین سیاسی غلطیاں بھی کرتے ہیں اور گھسے پٹے مہروں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کرکے تبدیلی کا وعدہ پورے وثوق سے کرتےہیں۔ یہ اپنے فیصلوں پر یوٹرن لیتے ہیں جیسے مشرف کی حمایت، شیخ رشید سے اتحاد، وزیرستان میں فوجی کرروائی وغیرہ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان نے روایتی سیاست کو ہلا دیا ہے اب یہ انکی سیاست کا ثمرہے یا شخصت کا سحریا بھرپورمیڈیا کوریج کا اثر، کہنا مشکل ہے لیکن نوجوان انہی کی طرح سیاست کو محدود دائرے سے باہر ضرور نکالنا چاہتا ہے۔
اب عمران خان ںےایک بار پھر 30 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے۔ اگرعوام نے انکی کال پر لبیک کہا تو خان صاحب کی سیاست ایک نیا موڑ لیگی بصورت دیگر نئے سال کا سورج شاید کپتان کیلئے ایک اور یو ٹرن لیکر طلوع ہو ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔