اگر ہمارے ساتھ ظلم نہ روکا گیا تو اس کا عوامی رد عمل آسکتا ہے الطاف حسین

صوبہ بنانے پراعتراض ہے تو سندھ ون اور ٹو کردیا جائے جو 1973میں دیہی اورشہری کی بنیاد پر کیا جاچکاہے، قائد ایم کیوایم


ویب ڈیسک October 29, 2014
سندھ حکومت نے اپنی من مانیوں کے مطابق حلقہ بندیاں کیں جس کےبعد سپریم کورٹ نے یہ کام الیکشن کمیشن کو سونپا،قائد ایم کیوایم ۔ فوٹو:فائل

ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ظلم نہ روکا گیا تو اس کا عوامی رد عمل آسکتا ہے جبکہ کوئی بھی بلا جواز نئے انتظامی یونٹس یا صوبے کا مطالبہ نہیں کرتا اور اگر نیا صوبہ بنانے پر اعتراض ہے تو سندھ ون اور ٹو کردیا جائے۔

کراچی میں ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر ٹیلی فونک پریس کانفرنس کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ آج سندھی بولنے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کا گھر سے نکلنا دوبھر کردیا گیا ہے، کچھ نوجوانوں سندھی طلبا کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو آج سندھ حکومت کررہی ہے،ہمارے سندھی بولنے والے کارکنوں کا تحفظ کیا جائے اگر ظلم نہ روکا گیا تو اس پر عوامی رد عمل آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیاں نہ روکی گئیں تو اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی و مذہبی جماعتیں ہمارے رد عمل پر واویلا نہ مچائیں، کبھی کبھی چھوٹی سی چنگاری بڑی جنگ کو بھی جنم دے سکتی ہے اگر فوجی قیادت نے انصاف سے کام نہ لیا تو اس کا ممکنہ عوامی رد عمل ہوسکتا ہے۔

الطاف حسین نے فوج کی نگرانی میں مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے اپنی من مانیوں کے مطابق حلقہ بندیاں کیں جس کےبعد سپریم کورٹ نے یہ کام الیکشن کمیشن کو سونپا، اب صوبے میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں اور آبادی کا تناسب دیکھا جائے، دنیا بھر میں آبادی کی بنیاد پر مردم شماری کا عمل تسلسل سے جاری ہے لیکن ہمارے یہاں بد قسمتی سے اس عمل سے راہ فرار اختیار کی جاتی ہے، اس کے بارے میں ریاستی قوتوں سے پوچھا جائے کہ وہ مردم شماری کے عمل میں ہمیشہ رکاوٹ کیوں بنتے ہیں، مردم شماری نہ ہونے سے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں جو سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں لوکل باڈیز سسٹم رائج ہے جسے جمہوریت کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جمہوری حکومتیں اس کا نفاذ کرنے سے قاصر کیوں رہتی ہیں اور عوام کو نچلی سطح پر اختیار منتقل کرنے سے کیوں گریز کیا جاتا ہے۔

قائد ایم کیوایم کا کہنا تھا کہ غیر منتخب افسرشاہی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو چلایا جاتا ہے جو نہ تو عوام کو دستیاب ہوتے ہیں اور عوام میں سے ہوتے ہیں، ملک میں سالہا سال سے قیادت اسٹیٹس کو کا شکار ہے، 98 فیصد عوام غلاموں، نوکروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ نا انصافی جاری رہی تو کیا احتجاج کا رخ اختیار نہیں کیا جاسکتا اور کوئی بلا جواز نئے انتظامی یونٹس اور صوبے کا مطالبہ نہیں کرتا اگر صوبے بنانے پر اعتراض ہے تو سندھ ون اور ٹو کردیا جائے جو 1973 میں دیہی اور شہری کی بنیاد پر کیا جاچکا ہے۔

الطا حسین کا کہنا تھا کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی کے رہنما مسائل کے حل کے لیے موثر اور مہذبانہ طریقے سے مذاکرات کریں اوربرا بھلا کہنے کی بجائے دلائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قائل کریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں