لاڑکانہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کا آئینہ
صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے باعث شہری منتخب نمائندوں سے مایوس
لاڑکانہ سیاسی اعتبار سے انفرادی حیثیت کا حامل اور پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ضلع لاڑکانہ کی تزین و آرائش پر پچاس ارب روپوں سے زاید کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود شہر میں ٹوٹے پھوٹے روڈ، گندگی، نکاسی آب کا ناقص نظام اور اس کی وجہ سے پھوٹنے والے موذی امراض، اسٹریٹ لائیٹس کی عدم دستیابی، بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات کی بھر مار کی وجہ سے لاڑکانہ کچرا کنڈی اور کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔
ان دنوں بھی لاڑکانہ کے گجن پور محلہ، کوثر مل، حسینی محلہ، علی گوہر آباد، سمیع آباد، جیلس بازار، بھینس کالونی، نظر محلہ کے علاوہ گنجان آباد علاقے گندگی اور غلیظ پانی کی زد میں ہیں جس سے خواتین، اسکول جانے والے بچے اور نمازی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب سیاسی چپقلش اور منتخب نمائندوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے گذشتہ چھے ماہ سے لاڑکانہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن جیسے اہم ادارے میں ٹی ایم او تعینات نہیں کیا جاسکا ہے۔
لاڑکانہ میں صفائی ستھرائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جب کہ نساسک اور ضلعی انتظامیہ کے افسران بجائے شہری مسائل پر توجہ دینے کے وی وی آئی پیز ڈیوٹیوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ایم اے لاڑکانہ میں بھرتیوں پر شدید بدعنوانیاں بھی ماضی کی شہ سرخیوں میں رہی ہیں تاہم پیپلز پارٹی کے راہ نما اویس مظفر سمیت شرجیل انعام میمن نے بھی بدعنوانیوں کے نوٹس لیے تاہم کوئی خاطر خواہ کارروائی اس لیے عمل میں نہیں آئی کہ مبینہ بد عنوانی بھی پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت ہی میں کی گئیں۔
ٹی ایم اے لاڑکانہ کی حالت زار پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ذرایع کے مطابق کوئی فرض شناس افسر لاڑکانہ میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بھرتیوں میں کی گئی بدعنوانیوں کا یہ عالم ہے کہ ٹی ایم اے کی ہر سرکاری گاڑی پر پچیس سے زاید ڈرائیور بھرتی ہیں جب کہ بارہ سو سے زاید خاکروبوں کی بھرتی میں بھی بیشتر افراد سیاسی سفارشی تھے۔
اداروں میں بے جا سیاسی اور سفارشی کلچر نے اداروں کی کارکردگی کو نہ صرف ناقص بنایا ہے بلکہ ان کو تباہی کے دہانے پر بھی پہنچادیا ہے۔ ٹی ایم اے لاڑکانہ کو جاری کیے گئے تمام فنڈز ملازمین کی تن خواہوں ہی کے لیے مختص ہو جاتے ہیں تاہم ترقیاتی امور کے لیے ادارے کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچتی۔
دوسری جانب حالیہ دھان کی فصل اترنے کے بعد کسان طبقہ شش و پنج کا شکار ہے کیوںکہ گذشتہ برس حکومت کی جانب سے دھان کے فی من پر جہاں بارہ سو پچاس روپے قیمت ادا کی گئی تھی آج ایک سال کے بعد وہی دھان کسان سے سات سو پچاس روپے فی من بیچنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس قمیت میں کسان کی فصل پر لگائی گئی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ایوان زراعت کے چیئرمین سراج احمد راشدی کسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کی ناقص پالیسی کے خلاف اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
لاڑکانہ شہر کے نکاسی آب کے متعلق بات کی جائے تو اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی لاڑکانہ کسی سہولت سے فیض یاب نہیں ہو پایا۔ آج بھی مرکزی شاہراؤں سمیت گلی محلوں میں گندے پانی کے جوہڑ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ جب کہ نکاسی کاسسٹم تباہ ہونے کے باعث زیر زمین پانی میں ''آرسینیک'' جیسا زہر بھی شامل ہوچکا ہے جس سے لاڑکانہ کا زیر زمین پانی پینے کے لائق نہیں رہا۔
پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ لاڑکانہ کی رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ کا زیر زمین پانی ہیپاٹائیٹس اور کینسر سمیت دیگر مہلک امراض کے پھیلائو کی ایک بڑی و جہ ہے، اس کے باوجود حکومت کے پاس نہ تو واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے کوئی مثبت نظام ہے اور نہ ہی نکاسی کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو لاڑکانہ میں کھیل کود کے لیے اسٹیڈیم تو موجود ہے لیکن اس میں کسی بھی طرح کا کھیل کسی صورت بھی کھیلنا ممکن نہیں۔ کیوںکہ اسٹیڈیم میں مٹی اور پتھر ہی دکھائی دیتے ہیں۔
سابقہ حکومتوں میں اسٹیڈیم کے لیے بھی کروڑوں روپے فنڈز جاری کیے گئے تھے جن کا آج تک کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ وہ آخر کہاں خرچ ہوئے۔ تعلیم اور صحت کی بات کی جائے تو آج بھی سینکڑوں پرائمری اسکول بنیادی سہولتوں سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ بیشتر کی تو حالت اتنی خستہ ہے کہ کسی وقت بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کا اندیشہ ہے۔
جامعہ بے نظیر آج تک مکمل نہیں ہو سکی اور بی بی آصفہ ڈینٹل کالج تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تصدیق سے بھی محروم ہے، جس کے باعث وہاں تعلیم حاصل کرنے والے ایک سو پچاس سے زاید طلبا و طالبات شہید محترمہ کے مزار پر دھرنا دے کر احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ جب کہ جامعہ بے نظیر بھی ماضی میں سیاسی عمل دخل کے باعث نہ صرف جنگ کا میدان بنی رہی ہے بلکہ سینڈیکیٹ کی جانب سے بدعنوانیوں پر مبنی شہ سرخیاں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں، جب معاملہ طول پکڑ گیا تو مجبورا سابق وائس چانسلر جامعہ بے نظیر سے زبردستی استعفیٰ مانگ لیا گیا۔
جامعہ بے نظیر سیپکو کی اٹھارہ کروڑ سے زاید کی نادہندہ بھی ہوچکی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لاڑکانہ میں پولیس، ریونیو، شعبۂ صحت سمیت تعلیم اور دیگر تمام محکموں کی کارکردگی صفر ہے۔ پیپلز پارٹی کی وہ کارکردگی جو وہ عوام سے ووٹ مانگتے وقت بیان کرتے ہیں نظر نہیں آتی تاہم بلاول بھٹو زرداری کے سیاست میں سرگرم ہونے اور لاڑکانہ کے دور ے کے بعد عوام میں پارٹی چیئرمین کو دیکھ کر ایک نئی امید کی کرن ضرور روشن ہوئی ہے لیکن لوگ پارٹی کے منتخب نمائندوں سے کوئی امید نہیں رکھتے۔
ان دنوں بھی لاڑکانہ کے گجن پور محلہ، کوثر مل، حسینی محلہ، علی گوہر آباد، سمیع آباد، جیلس بازار، بھینس کالونی، نظر محلہ کے علاوہ گنجان آباد علاقے گندگی اور غلیظ پانی کی زد میں ہیں جس سے خواتین، اسکول جانے والے بچے اور نمازی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب سیاسی چپقلش اور منتخب نمائندوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے گذشتہ چھے ماہ سے لاڑکانہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن جیسے اہم ادارے میں ٹی ایم او تعینات نہیں کیا جاسکا ہے۔
لاڑکانہ میں صفائی ستھرائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جب کہ نساسک اور ضلعی انتظامیہ کے افسران بجائے شہری مسائل پر توجہ دینے کے وی وی آئی پیز ڈیوٹیوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ایم اے لاڑکانہ میں بھرتیوں پر شدید بدعنوانیاں بھی ماضی کی شہ سرخیوں میں رہی ہیں تاہم پیپلز پارٹی کے راہ نما اویس مظفر سمیت شرجیل انعام میمن نے بھی بدعنوانیوں کے نوٹس لیے تاہم کوئی خاطر خواہ کارروائی اس لیے عمل میں نہیں آئی کہ مبینہ بد عنوانی بھی پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت ہی میں کی گئیں۔
ٹی ایم اے لاڑکانہ کی حالت زار پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ذرایع کے مطابق کوئی فرض شناس افسر لاڑکانہ میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بھرتیوں میں کی گئی بدعنوانیوں کا یہ عالم ہے کہ ٹی ایم اے کی ہر سرکاری گاڑی پر پچیس سے زاید ڈرائیور بھرتی ہیں جب کہ بارہ سو سے زاید خاکروبوں کی بھرتی میں بھی بیشتر افراد سیاسی سفارشی تھے۔
اداروں میں بے جا سیاسی اور سفارشی کلچر نے اداروں کی کارکردگی کو نہ صرف ناقص بنایا ہے بلکہ ان کو تباہی کے دہانے پر بھی پہنچادیا ہے۔ ٹی ایم اے لاڑکانہ کو جاری کیے گئے تمام فنڈز ملازمین کی تن خواہوں ہی کے لیے مختص ہو جاتے ہیں تاہم ترقیاتی امور کے لیے ادارے کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچتی۔
دوسری جانب حالیہ دھان کی فصل اترنے کے بعد کسان طبقہ شش و پنج کا شکار ہے کیوںکہ گذشتہ برس حکومت کی جانب سے دھان کے فی من پر جہاں بارہ سو پچاس روپے قیمت ادا کی گئی تھی آج ایک سال کے بعد وہی دھان کسان سے سات سو پچاس روپے فی من بیچنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس قمیت میں کسان کی فصل پر لگائی گئی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ایوان زراعت کے چیئرمین سراج احمد راشدی کسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کی ناقص پالیسی کے خلاف اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
لاڑکانہ شہر کے نکاسی آب کے متعلق بات کی جائے تو اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی لاڑکانہ کسی سہولت سے فیض یاب نہیں ہو پایا۔ آج بھی مرکزی شاہراؤں سمیت گلی محلوں میں گندے پانی کے جوہڑ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ جب کہ نکاسی کاسسٹم تباہ ہونے کے باعث زیر زمین پانی میں ''آرسینیک'' جیسا زہر بھی شامل ہوچکا ہے جس سے لاڑکانہ کا زیر زمین پانی پینے کے لائق نہیں رہا۔
پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ لاڑکانہ کی رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ کا زیر زمین پانی ہیپاٹائیٹس اور کینسر سمیت دیگر مہلک امراض کے پھیلائو کی ایک بڑی و جہ ہے، اس کے باوجود حکومت کے پاس نہ تو واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے کوئی مثبت نظام ہے اور نہ ہی نکاسی کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو لاڑکانہ میں کھیل کود کے لیے اسٹیڈیم تو موجود ہے لیکن اس میں کسی بھی طرح کا کھیل کسی صورت بھی کھیلنا ممکن نہیں۔ کیوںکہ اسٹیڈیم میں مٹی اور پتھر ہی دکھائی دیتے ہیں۔
سابقہ حکومتوں میں اسٹیڈیم کے لیے بھی کروڑوں روپے فنڈز جاری کیے گئے تھے جن کا آج تک کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ وہ آخر کہاں خرچ ہوئے۔ تعلیم اور صحت کی بات کی جائے تو آج بھی سینکڑوں پرائمری اسکول بنیادی سہولتوں سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ بیشتر کی تو حالت اتنی خستہ ہے کہ کسی وقت بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کا اندیشہ ہے۔
جامعہ بے نظیر آج تک مکمل نہیں ہو سکی اور بی بی آصفہ ڈینٹل کالج تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تصدیق سے بھی محروم ہے، جس کے باعث وہاں تعلیم حاصل کرنے والے ایک سو پچاس سے زاید طلبا و طالبات شہید محترمہ کے مزار پر دھرنا دے کر احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ جب کہ جامعہ بے نظیر بھی ماضی میں سیاسی عمل دخل کے باعث نہ صرف جنگ کا میدان بنی رہی ہے بلکہ سینڈیکیٹ کی جانب سے بدعنوانیوں پر مبنی شہ سرخیاں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں، جب معاملہ طول پکڑ گیا تو مجبورا سابق وائس چانسلر جامعہ بے نظیر سے زبردستی استعفیٰ مانگ لیا گیا۔
جامعہ بے نظیر سیپکو کی اٹھارہ کروڑ سے زاید کی نادہندہ بھی ہوچکی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لاڑکانہ میں پولیس، ریونیو، شعبۂ صحت سمیت تعلیم اور دیگر تمام محکموں کی کارکردگی صفر ہے۔ پیپلز پارٹی کی وہ کارکردگی جو وہ عوام سے ووٹ مانگتے وقت بیان کرتے ہیں نظر نہیں آتی تاہم بلاول بھٹو زرداری کے سیاست میں سرگرم ہونے اور لاڑکانہ کے دور ے کے بعد عوام میں پارٹی چیئرمین کو دیکھ کر ایک نئی امید کی کرن ضرور روشن ہوئی ہے لیکن لوگ پارٹی کے منتخب نمائندوں سے کوئی امید نہیں رکھتے۔