دھرنا اور سنہرے خواب

قادری صاحب’’دیوانہ بکار خویش‘‘نوعیت کے انقلابی ہیں خوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ہرقسم کے تماشے بآسانی لگائے جاتے ہیں


Nusrat Javeed October 30, 2014
[email protected]

قادری صاحب نے اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کیے بغیر اسلام آباد کے ریڈ زون میں بسایا ''شہر انقلاب'' بڑھا دیا تو ان کی مداحوں سے کہیں زیادہ دُکھ ان لوگوں کو ہوا جو تحریک منہاج القرآن کے تربیت یافتہ غلیل بازوں کی بدولت ''عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت'' کے دارالحکومت میں ''دن نوں راج فرنگی دا تے رات نوں راج ملنگی دا'' جیسی فضاء بنائے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے بہت ہی غم زدہ اپنے شیخ رشید بھی نظر آرہے ہیں۔

آزادی اور انقلاب کی خاطر بے رحم موسم اور ماحول کا بہادری سے مقابلہ کرتے دھرنے بازوں کو انھوں نے دھیلا بھی نہیں دیا۔ خود کو ''فرزندِ راولپنڈی'' کہا کرتے تھے مگر دھرنوں سے خطاب کے لیے ہمیشہ اکیلے آئے اور پولیس جب بھی جارح ہوتی نظر آئی تو غائب ہوجانے میں کبھی دیر بھی نہ لگائی۔ ہینگ اور پھٹکڑی لگائے بغیر انھوں نے خود کو 14 اگست سے چلی تحریک کا مگر اصلی تے وڈا نظریہ ساز تسلیم کروا لیا۔ کئی دنوں تک اچھے بھلے ''باخبر'' رپورٹر بھی اس مغالطے میں مبتلا رہے کہ شیخ صاحب ''وہاں'' سے پیغامات لے کر آتے ہیں اور ان کی بدولت تحریک انصاف اور منہاج القرآن کے قائدین نظریاتی دوریوں اور اختلافات کے باوجود یک جان ہوئے۔

اصولی طور پر یہ نواز شریف کے حامیوں کا حق بنتا تھا کہ وہ قادری صاحب کے انقلابی خیموں کے اُٹھ جانے کا کریڈٹ لیتے اور میڈیا میں موجود اپنے دوستوں کی مدد سے اس حوالے سے چسکے دار کہانیاں پھیلاتے۔ حقیقت مگر یہ رہی کہ وزیر اعظم نے اپنے وزیروں کو سختی سے حکم دیا کہ قادری صاحب کے بارے میں طنز بھری باتیں نہ کی جائیں۔ وزیروں کا تعمیلِ حکم تو سمجھ میں آتا ہے۔ اصل حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب اس حکومت کے بہت قریب سمجھے جانے والے دو سرکاری افسران نے از خود مجھے اس تاثر کو پھیلانے سے باز رکھنا چاہا کہ قادری صاحب نے دیت وغیرہ کے نام پر کسی مالی مک مکا کی وجہ سے اپنی بستیٔ انقلاب کو اٹھا لیا ہے۔

وزیر اعظم اور ان کے معتمدین کی قادری صاحب کے ساتھ ایسی شفقت نے مجھے شک میں مبتلا کردیا۔ دل خواہ مخواہ کچھ تحقیق کرنے کو مچل گیا۔ پوری کہانی ابھی تک پتہ نہیں چل پائی۔ مگر ایک بات ہر حوالے سے ثابت ہو رہی ہے کہ کم از کم اس وقت تک قادری صاحب کے ساتھ پیسے کا کوئی لین دین یا وعدہ وعید نہیں ہوا۔ کیمروں کے سامنے غیض وغضب سے بھرے لہجے میں انقلاب دشمنوں کو للکارنے والے قادری صاحب کو بلکہ بڑی ہوشیاری سے اس شیر کی مانند گھیرے میں لیا گیا جسے شور مچاتے لوگوں کو ہجوم ہانکا دے کر مچان پر بیٹھے شکاری کے سامنے لے آتا ہے۔

قادری صاحب کی اصل کمزوری یہ ہے کہ انھوں نے برسوں کی محنت سے خود کو ''داعش'' جیسی تنظیموں سے خائف رہنے والے مغربی ممالک کے سامنے اسلام کے ایک Soft اور صوفیانہ سوزوگداز سے بھرے پیغام برکے طور پر متعارف کروایا تھا۔ اپنی یہ پہچان بناتے ہوئے پچاس کے قریب ملکوں میں قادری صاحب نے سمندر پار پاکستانیوں کی مدد سے ایک وسیع تر نیٹ ورک بنایا جسے کئی طاقتور ملکوں نے Interfaith Harmony کی مد میں گرانقدر رقومات بھی فراہم کیں۔ مسئلہ مگر یہ ہوگیا کہ اسلام آباد میں ریڈ زون تک پہنچنے کے لیے ان کی سپاہ نے نہایت جارحانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جو کیمروں میں ریکارڈ بھی ہوئے۔ ریڈ زون تک پہنچ جانے کے بعد قادری صاحب کے پاس اپنے Soft Image کو بحال کرنے کے بے تحاشہ مواقع موجود تھے مگر پارلیمان کے لان پر قبضہ اور اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ وہ حملہ ثابت ہوا جو ان کے رضا کاروں نے پاکستان ٹیلی وژن کے اسلام آباد مرکز پر کیا۔

ٹیلی وژن کیمروں کی بدولت دُنیا نے یہ بھی جان لیا کہ قادری صاحب کے فدائی پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد سے سرکاری طورپر جاری ہوا اسلحہ ''امانتاً'' اپنے پاس رکھ کر انھیں سپریم کورٹ جیسے ریاستی اداروں کی طرف جانے دیتے ہیں۔ فنِ ابلاغ پر اپنی کمان اور جدید ماس میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے قادری صاحب نے بین الاقوامی سرپرستوں کے سامنے اپنا Soft Image بنایا تھا۔ 70 دنوں تک پھیلی تحریک کے دوران پیدا ہوئے Visuals کی وجہ سے حقیقت مگر اس سے قطعی برعکس نظر آئی۔

قادری صاحب ''دیوانہ بکار خویش'' نوعیت کے انقلابی ہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر قسم کے تماشے بآسانی لگائے جاتے ہیں۔ ''داعش'' سے خوفزدہ اور کمزور ایمان والے یورپی اور امریکی مگر بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اسکرینوں پر نظر آنے والے Images کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ نواز شریف کے چند ہوشیار معتمدین نے ان کی اس سادگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سپاہِ قادری کی تمام تر حرکات وسکنات ''آزادنہ ذرایع'' سے اکٹھا کرنے کے بعد باقاعدہ سرکاری ذرایع سے تحریک منہاج القرآن کے عالمی مربیوں تک پہنچائی گئیں۔ قادری صاحب ہیں تو بہت سیانے مگر نجانے کیوں بھول گئے کہ 9/11 کے بعد پاکستان باقاعدہ طورپر War on Terror کے نام پر بنائے اس عالمی نیٹ ورک کا اہم ترین حصہ ہے جہاں معلومات کے مؤثر تبادلے ہوتے ہیں۔

ایئرپورٹس اور دوسرے سرحدی مقامات پر باقاعدہ پاسپورٹس پر سفر کرنے والے لوگوں کی تفصیلات بھی اکٹھا ہوتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم وہ بین الاقوامی انتظامات ہیں جن کے ذریعے دُنیا بھر میں تبلیغِ مذہب کے نام پر بنی تنظیموں کے لیے چندے کے نام پر جمع ہونے والی رقومات اور ان کے خرچ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ہماری نظروں کو مفلوج دِکھنے والی نواز حکومت نے قادری صاحب کے ضمن میں ان تمام انتظامات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بالآخر قادری صاحب کو اپنے گرد بنتا جال نظر آنا بھی شروع ہوگیا۔ اسی لیے وہ عید سے پہلے اسلام آباد سے واپس لوٹ جانا چاہتے تھے۔ مگر ان کے انقلابیوں کی قوت سے اپنی سیاسی دکان چمکانے والوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ قادری صاحب مزید کئی روز تک مخمصے کا شکار رہ سکتے تھے مگر عمران خان شہر شہر جلسے کرنا شروع ہوگئے۔

ملتان میں ایسے ہی ایک جلسے کی بدولت جاوید ہاشمی کا دھڑن تختہ بھی ہوگیا اور قادری صاحب کو دُکھ جھیلیں بی فاختہ والی فکر اور حسد نے گھیر لیا۔ خبر میرے پاس مستند یہ بھی ہے کہ اپنا دھرنا اٹھانے سے پہلے قادری صاحب نے نواز حکومت سے روابط از خود کیے۔ انھیں ''باعزت راستہ'' دلوانے میں اہم کردار پنجاب کے گورنر چوہدری سرورنے بھی کیا جو گزشتہ ہفتے کے آخری دو دن رات گئے تک اسلام آباد میں شٹل ڈپلومیسی میں مصروف رہے۔ اپنا دھرنا اٹھا لینے کے بعد قادری صاحب مگر ہمت اب بھی نہیں ہارے ہیں۔ غصے میں تلملارہے ہیں۔ مگر نواز حکومت مطمئن ہے کیونکہ اپنے آیندہ پھیرے میں نشانہ ان کا نواز شریف نہیں بتدریج وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے انھیں سنہرے خواب دکھا کر دھرنے کی طرف دھکیلا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں