تین خبریں تین سوال
سب سے بڑا سوالیہ نشان ان اہم اور حساس اداروں کی کارکردگی پر لگا ہے؟ کہ جو جائز کام میں روڑے اٹکاتے ہیں
قارئین کرام! ''جمہوریت'' کے چیمپئن اور ''بے ساکھیوں'' کے بقول ''جمہوریت'' بہترین انتقام ہے۔ شاید کسی ایسی ہی صورتحال سے دوچار میر تقی میر نے کہا ہوگا:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اسی تناظر میں 26 اکتوبر کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے جس کا تعلق وزیر اعلیٰ سندھ کے دورہ تھرپارکر سے ہے۔ یہ وہی آفت زدہ، قحط سے بے حال، بھوکے، بدنصیب لوگوں کا علاقہ ہے۔ جہاں کا دورہ کرنے قائم علی شاہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لینے جا رہے تھے۔ جونہی ان کی آمد کی خبر ملی ۔ بی بی جمہوریت کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ گزشتہ برس قحط زدہ لوگوں کی مدد کے لیے دیے گئے خیموں کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے بجائے ڈی سی آفس میں چھپا دیا گیا تھا تاکہ کھلی مارکیٹ میں انھیں مہنگے داموں بیچا جا سکے ۔ دورے کی اطلاع ملتے ہی راتوں رات ان خیموں کو سبزی منڈی کے گوداموں میں چھپا دیا گیا ۔
واضح رہے کہ متاثرین کی امداد کے لیے دی گئی منرل واٹر کی ''لاکھوں'' بوتلیں ابھی ان تک نہ پہنچیں اور گوداموں میں پڑی پڑی خراب ہوگئیں ۔ شاید سرکاری عملہ منرل واٹر کی بوتلوں کو کوئی دوسرا ''مشروب'' سمجھا ہوگا۔ اس لیے پہلے تو انھیں غائب کردیا گیا ۔ بعد میں جب حقیقت کا انکشاف ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی ۔ یہ سڑا ہوا پانی مرتے ہوئے موروں کی زندگی بھی نہ بچا سکا ۔
البتہ حکومتی عملے کی بے حسی، لالچ اور ہوس تھر کے زندہ بدست مردہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بن کر اتر گئی ۔ مجھے اس خبر پہ کوئی حیرت نہیں ہوئی ، کیونکہ گزشتہ سال بھی یہی منظر نامہ تھا، سرکاری پروٹوکول کے مارے ہوئے صدیوں کے بھوکے حکمرانوں اور ان کی ٹیم کے لیے جس طرح مقامی افسران نے ٹھنڈے خیمے لگا کر مغلوں کی یاد تازہ کردینے والی ضیافتوں کا اہتمام کرکے اپنی اپنی نوکریاں، ترقیاں اور دیگر مراعات پکی کی تھیں وہ نظارے سب نے اپنی اپنی ٹی وی اسکرین پہ دیکھے تھے۔ ولی عہد کی لانچنگ پر تقریباً ڈھائی ارب روپیہ خرچ کیا گیا۔ اگر یہ رقم سندھ کے قحط زدہ لوگوں کی زندگیاں بچانے پر خرچ کردی جاتی تو انھیں بار بار یہ بے جان احمقانہ اور بچکانہ نعرہ نہ لگانا پڑتا ۔ ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' جشن مرگ منانے یا اپنے ہونہار سپوت کی ''منہ دکھائی'' کی رسم پر ایک خطیر رقم خرچ کرنا زیادہ ضروری تھا ۔ یا بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کے حلق میں صاف پانی ڈالنا؟ علامہ اقبال نے ''جواب شکوہ'' میں شاید اپنے دیدہ بینا سے کام لے کر کہا تھا:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلام کے مدفن' تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
جمہوریت کے ثمرات جو عوام تک زور شور سے پہنچنے اس کا ایک اور نادر نمونہ یہ بھی 26 اکتوبر کے اخبار کی خبر ہے کہ، چھ ماہ گزر گئے لیکن تھرپارکر میں بے نظیر دسترخوان نہ لگ سکا۔ نمایندہ ایکسپریس کے مطابق تھر میں قحط کو ڈیرے ڈالے ہوئے 3 برس ہوچکے ہیں لیکن عوام کو سوائے حکومتی دعوؤں کے کچھ نہ ملا۔ غذائی قلت کے باعث روزانہ بچے دم توڑ رہے ہیں؟ کاش لاشوں پہ اقتدار حاصل کرنے، مقبرے بنانے اور اربوں روپیہ محض جمہوریت کی ڈگڈگی پہ بچہ جمورا کو نچانے کے بچائے تھر اور مٹھی کے لوگوں کی بھوک پیاس مٹانے پہ خرچ کردیا جاتا تو لاکھوں ووٹرز خود پارٹی کی جھولی میں آگرتے۔
کاش یہی سوچ کر ان کی زندگیاں بچا لی جاتیں کہ تھرپارکر کے لوگ بھی وہی زبان بولتے ہیں جو بی بی جمہوریت کی مادری زبان ہے لیکن کہاں کی زبان اور کہاں کی ثقافت؟ ۔ زندگیاں صرف اور صرف حکمرانوں، ان کے بیٹے بیٹیوں، دامادوں، بھائی بھتیجوں، بیویوں، داشتاؤں، رکھیل اور ان کے بطن سے جنم لینے والے بچوں کی اہم ہوتی ہیں۔ نہ کہ ان ننگے بھوکے بیمار غریب، پسماندہ، جہالت کے پروردہ اور علاقائی تعصب کی مار چپ چاپ سہنے والے ان لوگوں کی جن کو الیکشن سے پہلے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ لیکن مسند شاہی زانو تلے آتے ہی وہ لوگ اچھوت بن جاتے ہیں۔ ان کے لیے اقتدار کے ایوانوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور انھیں جب دھکے دے کر ''جمہوریت کے رکھوالے'' باہر پھینکتے ہیں تو ان بدنصیبوں پہ انکشاف ہوتا ہے کہ وعدوں کے سبز باغ جہالت اور بھوک کے اندھے کنویں تھے۔ وہی اندھے کنویں جن میں وہ کئی نسلوں سے اوندھے منہ گرے ہوئے ہیں اور یہی ان کا مقدر ہے۔
تمام مراعات، عیش و عشرت اور عیاشیاں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صرف اور صرف حکم رانوں کے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں۔ کیونکہ ان کا اتحاد مثالی ہے۔ کہاوت ہے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ ایک بھائی چوری کرتا ہے تو دوسرا پہرا دیتا ہے۔ لوٹا جانے والا مال دونوں بھائی آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ جیب کاٹنے والا ایمان داری سے آدھا حصہ اپنے چور بھائی کو دیتا ہے تاکہ اگلی بار جب چور بھائی کہیں ڈاکہ ڈالے تو وہ پہرہ دے کر ڈکیتی کو کامیاب بنانے میں اس کی پوری مدد کرے اور اس خدمت کے عوض اپنا معاوضہ اور حصہ وصول کرسکے۔ کوؤں کی طرح چوروں اور ڈاکوؤں کا اتحاد بھی ضرب المثل ہے۔
26 اکتوبر ہی کے ایکسپریس میں ایک اور شرمناک خبر چھپی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ پاکستانی اس حد تک گر سکتے ہیں۔ لیکن جب دین ایمان سب کچھ پیسے کا حصول قرار پائے تو بات پھر ختم ہوجاتی ہے۔ ایک امریکی وکیل نے مشہور زمانہ پاکستانی دہشت گرد کو اپنی بیٹی کے ذریعے ایک ہوٹل سے گرفتار کروانے والے باپ کے لیے کہا تھا کہ یہ پیسے کے لیے اپنی ماں تک کو بیچ سکتے ہیں۔ 50 ہزار ڈالر کے عوض ایک باپ نے پہلے اپنی بیٹی کا معاشقہ ایمل کانسی سے کروایا اور پھر مخبری کرکے اسے گرفتار کروا کے انعام کی رقم حاصل کرکے بیٹی سمیت کہیں غائب ہوگیا۔ ایمل کانسی کو امریکا لے گیا۔ جب باپ بھائی اور بہنیں خود بے پروا ہوجائیں تو ایسے اخلاق سوز واقعات جنم لیتے رہیں گے۔
خبر پڑھ کر یقیناً سبھی ایک دکھ اور شرم محسوس کر رہے ہوں گے۔ کیا کوئی مسلمان اس حد تک بھی گر سکتا ہے؟ آپ بھی اس پر سوچیے کہ دو سگی بہنوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی سگے بھائیوں سے پیپر میرج کرلی ۔ ایک بہن نے جعلی کاغذات پہ تمام کام مکمل کیا اور کینیڈا کی شہریت حاصل کر کے وہیں کی عدالت سے اپنے بھائی سے طلاق حاصل کر لی۔ جب کہ دوسری بہن کے جعلی کاغذات پکڑے گئے ۔ تب بھید کھلا کہ دو سگی بہنوں سے پیپر میرج کرنے والے دو بھائیوں کے علاوہ ان کا ایک تیسرا بھائی ہی دراصل ماسٹر مائنڈ ہے ۔ جہلم کی اس فیملی کے فراڈ کا انکشاف ہونے پر کینیڈین گورنمنٹ اور عدالتیں بھی حیرت زدہ رہ گئیں ۔ تیسرے بھائی کے ایف آئی اے، پاسپورٹ اور نادرا کے اہم افسران سے گہرے روابط ہیں ۔ پولیس اس کی مددگار ۔ سو اس نے ان اہم اداروں کے تعاون سے یہ کام شروع کیا۔
اسی دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ تیسرا بھائی ایک خاتون سے پیپر میرج کرنے کے عوض 15 لاکھ لے چکا ہے۔ تاکہ وہ کینیڈا شفٹ ہوسکے۔ انسانی اسمگلنگ اور ذاتی مفادات کی خاطر غیر ملکی عورتوں سے شادیاں کرنے کے لیے اپنی نکاحی بیویوں کو امریکی عدالتوں کے ذریعے طلاق کے کاغذات بھیجنا اب پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اس حد تک کہ جب وہ وطن واپس آتے ہیں تو ان ہی نکاحی بیویوں کے ساتھ اور اپنے ایمان کے ساتھ دوبارہ رہنے لگتے ہیں اور بچوں کے باپ بھی بنتے جاتے ہیں۔ ان بچوں کے، جن کی ماں کو وہ طلاق کے کاغذات بھیج چکے تھے ۔ اور اہلیہ نے وہ کاغذات وصول کرنے کے بعد دستخط کرکے واپس شوہر کو بھجوا دیے تھے ۔ یعنی وہ طلاق برضا و رغبت قبول کر رہی ہیں ۔ لیکن دو سگی بہنوں سے دونوں سگے بھائیوں سے نکاح کرنا ، خواہ وہ جعلی کاغذات پر ہی ہوا ۔ لیکن ہے تو انتہائی مکروہ اور قابل مذمت بات ۔ کوئی بھی بہن یا بھائی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو کبھی ایسی شرم ناک بات سوچ بھی نہیں سکتے۔
چہ جائیکہ مسلمان! جو خود کو بزعم خود سب سے بہتر اور ''پاکیزہ'' سمجھتے ہیں ۔ وہ جب ایسے غیر اخلاقی جرم کے مرتکب ہوں تو کیا کہا جائے؟ لیکن پھر وہی بات کہ جب نصب العین زندگی صرف دولت کا حصول ہو تو کل لوگ اپنی بیٹیوں کو بھی بیویاں بناکر غیر ملکی شہریت دلوا سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوالیہ نشان ان اہم اور حساس اداروں کی کارکردگی پر لگا ہے؟ کہ جو جائز کام میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ لیکن غیر قانونی اور ناجائز کام پورے خشوع و خضوع سے کرتے ہیں کیونکہ پیسہ ہو تو ہر شے اور ہر آدمی خریدا جاسکتا ہے ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی قیمت ہے۔
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اسی تناظر میں 26 اکتوبر کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے جس کا تعلق وزیر اعلیٰ سندھ کے دورہ تھرپارکر سے ہے۔ یہ وہی آفت زدہ، قحط سے بے حال، بھوکے، بدنصیب لوگوں کا علاقہ ہے۔ جہاں کا دورہ کرنے قائم علی شاہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لینے جا رہے تھے۔ جونہی ان کی آمد کی خبر ملی ۔ بی بی جمہوریت کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ گزشتہ برس قحط زدہ لوگوں کی مدد کے لیے دیے گئے خیموں کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے بجائے ڈی سی آفس میں چھپا دیا گیا تھا تاکہ کھلی مارکیٹ میں انھیں مہنگے داموں بیچا جا سکے ۔ دورے کی اطلاع ملتے ہی راتوں رات ان خیموں کو سبزی منڈی کے گوداموں میں چھپا دیا گیا ۔
واضح رہے کہ متاثرین کی امداد کے لیے دی گئی منرل واٹر کی ''لاکھوں'' بوتلیں ابھی ان تک نہ پہنچیں اور گوداموں میں پڑی پڑی خراب ہوگئیں ۔ شاید سرکاری عملہ منرل واٹر کی بوتلوں کو کوئی دوسرا ''مشروب'' سمجھا ہوگا۔ اس لیے پہلے تو انھیں غائب کردیا گیا ۔ بعد میں جب حقیقت کا انکشاف ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی ۔ یہ سڑا ہوا پانی مرتے ہوئے موروں کی زندگی بھی نہ بچا سکا ۔
البتہ حکومتی عملے کی بے حسی، لالچ اور ہوس تھر کے زندہ بدست مردہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بن کر اتر گئی ۔ مجھے اس خبر پہ کوئی حیرت نہیں ہوئی ، کیونکہ گزشتہ سال بھی یہی منظر نامہ تھا، سرکاری پروٹوکول کے مارے ہوئے صدیوں کے بھوکے حکمرانوں اور ان کی ٹیم کے لیے جس طرح مقامی افسران نے ٹھنڈے خیمے لگا کر مغلوں کی یاد تازہ کردینے والی ضیافتوں کا اہتمام کرکے اپنی اپنی نوکریاں، ترقیاں اور دیگر مراعات پکی کی تھیں وہ نظارے سب نے اپنی اپنی ٹی وی اسکرین پہ دیکھے تھے۔ ولی عہد کی لانچنگ پر تقریباً ڈھائی ارب روپیہ خرچ کیا گیا۔ اگر یہ رقم سندھ کے قحط زدہ لوگوں کی زندگیاں بچانے پر خرچ کردی جاتی تو انھیں بار بار یہ بے جان احمقانہ اور بچکانہ نعرہ نہ لگانا پڑتا ۔ ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' جشن مرگ منانے یا اپنے ہونہار سپوت کی ''منہ دکھائی'' کی رسم پر ایک خطیر رقم خرچ کرنا زیادہ ضروری تھا ۔ یا بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کے حلق میں صاف پانی ڈالنا؟ علامہ اقبال نے ''جواب شکوہ'' میں شاید اپنے دیدہ بینا سے کام لے کر کہا تھا:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلام کے مدفن' تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
جمہوریت کے ثمرات جو عوام تک زور شور سے پہنچنے اس کا ایک اور نادر نمونہ یہ بھی 26 اکتوبر کے اخبار کی خبر ہے کہ، چھ ماہ گزر گئے لیکن تھرپارکر میں بے نظیر دسترخوان نہ لگ سکا۔ نمایندہ ایکسپریس کے مطابق تھر میں قحط کو ڈیرے ڈالے ہوئے 3 برس ہوچکے ہیں لیکن عوام کو سوائے حکومتی دعوؤں کے کچھ نہ ملا۔ غذائی قلت کے باعث روزانہ بچے دم توڑ رہے ہیں؟ کاش لاشوں پہ اقتدار حاصل کرنے، مقبرے بنانے اور اربوں روپیہ محض جمہوریت کی ڈگڈگی پہ بچہ جمورا کو نچانے کے بچائے تھر اور مٹھی کے لوگوں کی بھوک پیاس مٹانے پہ خرچ کردیا جاتا تو لاکھوں ووٹرز خود پارٹی کی جھولی میں آگرتے۔
کاش یہی سوچ کر ان کی زندگیاں بچا لی جاتیں کہ تھرپارکر کے لوگ بھی وہی زبان بولتے ہیں جو بی بی جمہوریت کی مادری زبان ہے لیکن کہاں کی زبان اور کہاں کی ثقافت؟ ۔ زندگیاں صرف اور صرف حکمرانوں، ان کے بیٹے بیٹیوں، دامادوں، بھائی بھتیجوں، بیویوں، داشتاؤں، رکھیل اور ان کے بطن سے جنم لینے والے بچوں کی اہم ہوتی ہیں۔ نہ کہ ان ننگے بھوکے بیمار غریب، پسماندہ، جہالت کے پروردہ اور علاقائی تعصب کی مار چپ چاپ سہنے والے ان لوگوں کی جن کو الیکشن سے پہلے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ لیکن مسند شاہی زانو تلے آتے ہی وہ لوگ اچھوت بن جاتے ہیں۔ ان کے لیے اقتدار کے ایوانوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور انھیں جب دھکے دے کر ''جمہوریت کے رکھوالے'' باہر پھینکتے ہیں تو ان بدنصیبوں پہ انکشاف ہوتا ہے کہ وعدوں کے سبز باغ جہالت اور بھوک کے اندھے کنویں تھے۔ وہی اندھے کنویں جن میں وہ کئی نسلوں سے اوندھے منہ گرے ہوئے ہیں اور یہی ان کا مقدر ہے۔
تمام مراعات، عیش و عشرت اور عیاشیاں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صرف اور صرف حکم رانوں کے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں۔ کیونکہ ان کا اتحاد مثالی ہے۔ کہاوت ہے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ ایک بھائی چوری کرتا ہے تو دوسرا پہرا دیتا ہے۔ لوٹا جانے والا مال دونوں بھائی آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ جیب کاٹنے والا ایمان داری سے آدھا حصہ اپنے چور بھائی کو دیتا ہے تاکہ اگلی بار جب چور بھائی کہیں ڈاکہ ڈالے تو وہ پہرہ دے کر ڈکیتی کو کامیاب بنانے میں اس کی پوری مدد کرے اور اس خدمت کے عوض اپنا معاوضہ اور حصہ وصول کرسکے۔ کوؤں کی طرح چوروں اور ڈاکوؤں کا اتحاد بھی ضرب المثل ہے۔
26 اکتوبر ہی کے ایکسپریس میں ایک اور شرمناک خبر چھپی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ پاکستانی اس حد تک گر سکتے ہیں۔ لیکن جب دین ایمان سب کچھ پیسے کا حصول قرار پائے تو بات پھر ختم ہوجاتی ہے۔ ایک امریکی وکیل نے مشہور زمانہ پاکستانی دہشت گرد کو اپنی بیٹی کے ذریعے ایک ہوٹل سے گرفتار کروانے والے باپ کے لیے کہا تھا کہ یہ پیسے کے لیے اپنی ماں تک کو بیچ سکتے ہیں۔ 50 ہزار ڈالر کے عوض ایک باپ نے پہلے اپنی بیٹی کا معاشقہ ایمل کانسی سے کروایا اور پھر مخبری کرکے اسے گرفتار کروا کے انعام کی رقم حاصل کرکے بیٹی سمیت کہیں غائب ہوگیا۔ ایمل کانسی کو امریکا لے گیا۔ جب باپ بھائی اور بہنیں خود بے پروا ہوجائیں تو ایسے اخلاق سوز واقعات جنم لیتے رہیں گے۔
خبر پڑھ کر یقیناً سبھی ایک دکھ اور شرم محسوس کر رہے ہوں گے۔ کیا کوئی مسلمان اس حد تک بھی گر سکتا ہے؟ آپ بھی اس پر سوچیے کہ دو سگی بہنوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی سگے بھائیوں سے پیپر میرج کرلی ۔ ایک بہن نے جعلی کاغذات پہ تمام کام مکمل کیا اور کینیڈا کی شہریت حاصل کر کے وہیں کی عدالت سے اپنے بھائی سے طلاق حاصل کر لی۔ جب کہ دوسری بہن کے جعلی کاغذات پکڑے گئے ۔ تب بھید کھلا کہ دو سگی بہنوں سے پیپر میرج کرنے والے دو بھائیوں کے علاوہ ان کا ایک تیسرا بھائی ہی دراصل ماسٹر مائنڈ ہے ۔ جہلم کی اس فیملی کے فراڈ کا انکشاف ہونے پر کینیڈین گورنمنٹ اور عدالتیں بھی حیرت زدہ رہ گئیں ۔ تیسرے بھائی کے ایف آئی اے، پاسپورٹ اور نادرا کے اہم افسران سے گہرے روابط ہیں ۔ پولیس اس کی مددگار ۔ سو اس نے ان اہم اداروں کے تعاون سے یہ کام شروع کیا۔
اسی دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ تیسرا بھائی ایک خاتون سے پیپر میرج کرنے کے عوض 15 لاکھ لے چکا ہے۔ تاکہ وہ کینیڈا شفٹ ہوسکے۔ انسانی اسمگلنگ اور ذاتی مفادات کی خاطر غیر ملکی عورتوں سے شادیاں کرنے کے لیے اپنی نکاحی بیویوں کو امریکی عدالتوں کے ذریعے طلاق کے کاغذات بھیجنا اب پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اس حد تک کہ جب وہ وطن واپس آتے ہیں تو ان ہی نکاحی بیویوں کے ساتھ اور اپنے ایمان کے ساتھ دوبارہ رہنے لگتے ہیں اور بچوں کے باپ بھی بنتے جاتے ہیں۔ ان بچوں کے، جن کی ماں کو وہ طلاق کے کاغذات بھیج چکے تھے ۔ اور اہلیہ نے وہ کاغذات وصول کرنے کے بعد دستخط کرکے واپس شوہر کو بھجوا دیے تھے ۔ یعنی وہ طلاق برضا و رغبت قبول کر رہی ہیں ۔ لیکن دو سگی بہنوں سے دونوں سگے بھائیوں سے نکاح کرنا ، خواہ وہ جعلی کاغذات پر ہی ہوا ۔ لیکن ہے تو انتہائی مکروہ اور قابل مذمت بات ۔ کوئی بھی بہن یا بھائی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو کبھی ایسی شرم ناک بات سوچ بھی نہیں سکتے۔
چہ جائیکہ مسلمان! جو خود کو بزعم خود سب سے بہتر اور ''پاکیزہ'' سمجھتے ہیں ۔ وہ جب ایسے غیر اخلاقی جرم کے مرتکب ہوں تو کیا کہا جائے؟ لیکن پھر وہی بات کہ جب نصب العین زندگی صرف دولت کا حصول ہو تو کل لوگ اپنی بیٹیوں کو بھی بیویاں بناکر غیر ملکی شہریت دلوا سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوالیہ نشان ان اہم اور حساس اداروں کی کارکردگی پر لگا ہے؟ کہ جو جائز کام میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ لیکن غیر قانونی اور ناجائز کام پورے خشوع و خضوع سے کرتے ہیں کیونکہ پیسہ ہو تو ہر شے اور ہر آدمی خریدا جاسکتا ہے ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی قیمت ہے۔