علم اور جہالت کی جدلیات
علم کا خود سے باہر جہالت کو دریافت کرنا خود میں موجود جہالت ہی پردہ پوشی کرنا ہوتا ہے۔
لاہور:
تعلیم اور علم کی افادیت سے تو سبھی لوگ آگاہ ہیں۔ لیکن محض تعلیم اور علم کی افادیت کا ذکر کرنا اور ان کے اندر ہی ان سے ظہور کرتی ہوئی عدم افادیت یعنی ان کی نفی کے پہلو کو نہ دیکھنا ہی حقیقی معنوں میں 'جہالت' کی اصل شکل ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں تعلیم یا علم کے 'مثبت' اور فیصلہ کن کردار کا انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن تعلیمی خیال کے اندر موجود وحشت و بربریت، جو کہ 'ترقی یافتہ' اقوام کی خصوصیت رہی ہے، اسے تعلیمی خیال سے باہر، اس کے تخالف یعنی 'جہالت' کا شاخسانہ قرار دینا صریح غلطی ہے۔ جہالت، علم سے باہر کی کوئی شے نہیں ہے، جو اس کی مخالف سمت میں چلتی ہے اور جسے علم کے ذریعے سے تلاش کر کے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جہالت علمی خیالات کی ترتیب و تنظیم کے وضع کردہ معیار اور اصولوں سے جنم لینے والے تضادات کا اظہار، یعنی علمی طریقہ کار(Method) میں مضمر نقص کا نام ہے۔
علم کا خود سے باہر جہالت کو دریافت کرنا خود میں موجود جہالت ہی پردہ پوشی کرنا ہوتا ہے۔ مغربی ''تعلیم یافتہ اقوام'' کا 'تیسری دنیا' کو بذریعہ علم مہذب بنانے کا دعویٰ اس لیے باطل ہے کہ یہ ان ترقی یافتہ اقوام کے علمی خیالات و افکار کی ترتیب میں جنم لینے والا بگاڑ ہے، جسے وہ محض اس لیے دیکھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اسے خود سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ خیال ہے جو علم کے وسط میں جہالت کا اظہار ہے۔ یہ نقص جدید مغربی فلسفہ و فکر میں تشکیل پاتا ہوا ان کے تعلیمی طریقہ کار کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طریقہ کار نے انھیں ایک 'ورلڈ ویو' دیا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ مغربی ممالک عقلیت و علمیت کا منبع و ماخذ ہیں، اور جہاں کہیں جہالت کا شائبہ ہوتا ہے، وہ اسے مظلوم اقوام سے منسوب کر دیتے ہیں۔ علم کے اندر جہالت موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم صرف مہذب ہی نہیں غیر مہذب بھی بناتی ہے۔
جہالت حقیقت میں تعلیم کو فطری اور سماجی لازمیت سے منقطع کرنے کا نام ہے۔ علم، فطرت اور سماجیت کے درمیان انقطاع کا عمل جونہی طے پاتا ہے، انسانی فکر تضادات میں الجھ جاتی ہے۔ یہ تضادات شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کی پیکار دہشت و بربریت کے لیے راستہ کھول دیتی ہے۔ جہالت شعور کا وہ پہلو ہے جو شعور سے مخفی رہتا ہے۔ حقیقی جاہل وہ نہیں ہے جس کے پاس تعلیم نہیں ہے، بلکہ اصل جاہل وہ ہے جو اپنی عقل کے غیر عقلی استعمال سے تضادات میں الجھتا ہے اور بعد ازاں ان کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے۔
علم کا تخلیقی پہلو تہذیبوں کے ارتقا کا باعث بنا ہے لیکن حقیقت میں علم کے اندر جہالت کی عدم تفہیم ہی ہے جس کو علم تصور کر لیا گیا اور اسے ہی بروئے کار لا کر تہذیبوں کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا ہے۔ علم اور جہالت کے مابین جدلیاتی تعلق کا فہم حاصل کرنے کے بعد اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا تعلیم کسی بھی سماج میں موجود برائیوں، انتہا پسندی، دہشتگردی، عدم مساوات، ناانصافی، جبر و استحصال اور ظلم و بربریت کا خاتمہ کر سکتی ہے، تو اس کا جواب نفی میں دینا پڑیگا۔ وجہ ا س کی یہ کہ مذکورہ بالا تمام خرابیاں علمیت کے ناقص پن کا نتیجہ بھی ہیں۔ ''ترقی یافتہ'' مغربی ممالک میں اس قسم کی برائیاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ سماج کی ہر سطح پر ان برائیوں کا اظہار ہوتا ہے۔
کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں مذہبی شدت پسندی موجود نہیں ہے، نہ ہی یہاں لوگ ایک دوسرے کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر قتل کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ یہاں جدید تعلیم نے انسانوں کے مابین تعلقات کے مسئلے کو انسانی اور اخلاقی سطح پر ہمیشہ کے لیے حل کر دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ''ترقی یافتہ'' ممالک میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصبات بہت گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر برطانیہ میں برٹش نیشنل پارٹی، انگلش ڈیفنس لیگ اور فرانس میں نیشنل فرنٹ جیسی فاشسٹ سیاسی پارٹیاں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر سر عام نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہیں ان پارٹیوں میں نام نہاد ''جاہل طالبان'' جیسے لوگ شامل نہیں ہیں بلکہ یہ برطانیہ اور فرانس کی اعلیٰ جامعات سے تعلیمیافتہ طالبانی طرز کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔
''ترقی یافتہ'' ممالک میں نسل پرستی سے متعلق لکھا ادب کا ذخیرہ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے غیر انسانی تعصبات کے گہرے ہونے کا تعلق انسانی سرشت میں موجود کسی حیوانی جبلت سے نہیں ہے کہ جس کو روشن خیالی پر مبنی علمی افکار سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر روشن خیالی پر مبنی علم سے انسان کو ایک مہذب انسان بنایا جا سکتا تو مغربی اقوام کب کی مہذب بن چکی ہوتیں! علم اور جہل کی جدلیات سے عیاں ہوتا ہے کہ تعلیم نے مغربی اقوام کو کہیں زیادہ درندہ صفت بنا دیا ہے۔ ایک طرف شعور اور طاقت اس درندگی کی تسکین و تکمیل کے موثر ہتھیار ہیں، تو دوسری طرف یہی دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
مغربی شعور کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے نقائص کو تلاش کرنے کی بجائے مختلف اقوام کے مابین اعلیٰ و ادنیٰ جیسے تصورات کو مغربی لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی اقوام کے افضل ہونے اور 'تیسری' دنیا کے لوگوں کے کمتر ہونے کے فلسفے کے احیا کا سلسلہ جاری رکھے۔ نقائص اور خرابیوں کو اپنے سماجی تضادات اور ان پر قائم ہوئی علمیت میں تلاش کرنے کی بجائے کسی ''دوسرے'' پر مسلط کر کے خود کو بری الذمہ قرار دے۔ اپنی اقدار کو اعلیٰ اور 'دوسرے' کی اقدار کو ادنیٰ ثابت کرے اور بعد ازاں اسی ترتیب کو بنیاد بنا کر دیگر اقوام پر جنگیں مسلط کرے۔ جنگیں برپا کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ دوسری اقوام جاہل ہوتی ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جنگجو سامراجی اقوام اپنی علمیت میں مخفی جہالت کو نہیں دیکھ پا رہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ بیسویں صدی میں برپا ہونے والی جنگیں نام نہاد تیسری دنیا کے 'غیر مہذب' اور جاہلوں' نے مسلط نہیں کی تھیں بلکہ یہ جدید تعلیم سے آراستہ مغرب کے 'مہذب' اذہان کی پیداوار تھیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم برسانے والے جدید علوم سے آراستہ تھے۔ کالونیل ازم اور نیوکالونیل ازم کی یلغار کرنے والے جاہلِ مطلق نہیں تھے، بلکہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔
عظیم جنگوں کے بعد تعلیم یافتہ سامراجی ممالک نے بیسویں صدی میں مسلسل کسی نہ کسی بہانے سے کمزور اقوام پر جنگیں مسلط کر رکھی ہیں۔ 132 ممالک میں اپنی افواج کو تعینات کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں ایٹم اور نیوکلیر بموں کے مالک افغانستان اور عراق میں بسنے والے 'جاہل' نہیں ہیں، بلکہ علمی فضیلت کے مبلغ امریکی و مغربی دہشت پسند ہیں۔ نکتہ بہرحال یہ ہے کہ تعلیم سامراجی اقوام کے باطن میں مضمر اس 'حیوانیت' کو ختم نہیں کر پائی ہے جس حیوانیت کو تیسری دنیا سے منسلک کیا جاتا ہے۔
جس سرمایہ داری نظام میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں اس میں تعلیمی نظام کا مقصد لوگوں کو 'مہذب' بنانا نہیں بلکہ ان پر تہذیب کا لبادہ اوڑھتے ہوئے انھیں، ظالم و جابر، دہشت پسند، منافق، عیار اور مکار بنانا ہوتا ہے، محض اس لیے کہ مظلوموں پر مسلط کی گئی سفاکیت و بربریت کا 'مہذب' جواز تراشا جا سکے اور ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لیا جاسکے۔ تہذیب اور تعلیم کا مطلب ایک مخصوص ذہنیت کو تشکیل دینے اور مخصوص خطوط پر غالب طبقات کے معاشی، سیاسی اور سماجی غلبے کو برقرار رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس طرح تعلیم حقیقت میں آزادانہ سوچ کی نفی کرتی ہوئی، لاشعوری طور پر، لوگوں میں غلامانہ رجحان کو مستحکم کرتی ہے۔ انھیں جعلی و مصنوعی اصول و قواعد کا پابند کرتی ہے۔ مہذب ہونے کا باطل تصور ان کے اذہان میں خلق کرتی ہے۔
افکار و نظریات سے ان کے اذہان کو کھولنے کی بجائے ان پر پختہ یقین لانے کا درس دیتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم آئیڈیالوجیز کو مستحکم کرتی ہے تاکہ جب طبقاتی تضادات میں شدت رونما ہونے کا اندیشہ ہو تو لوگوں کے اذہان کو مصنوعی نظریاتی تشکیلات سے آلودہ کیا جا سکے۔ تعلیم عہد حاضر میں مغربی ممالک کا 'تیسری دنیا' کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک اہم ترین وسیلہ بن چکی ہے۔ تعلیم صرف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہی مہیا نہیں کی جاتی، مغربی ممالک میں مقتدر طبقات ذرایع ابلاغ، تھنک ٹینکس اور ریاستی پروپیگنڈا مشینری کی وساطت سے اپنے معاشروں میں تعلیم کے نام سے 'جہالت' یا عدم آگاہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کا ایک بڑا حصہ اپنی نظریاتی و فکری قباحتوں میں جھانکنے کی بجائے یہ سمجھتا ہے کہ ان کے ممالک نے دنیا کے مختلف خطوں پر جو قبضے جما رکھے ہیں وہ ان ممالک کی جہالت کو دور کرنے اور انھیں مہذب بنانے کے لیے ہیں، حقیقت میں یہ ان کے علم کا نقص ہی ہے، جسے سمجھنے کا فی الوقت مغربی فلسفہ و فکر اہل نہیں ہے۔
تعلیم اور علم کی افادیت سے تو سبھی لوگ آگاہ ہیں۔ لیکن محض تعلیم اور علم کی افادیت کا ذکر کرنا اور ان کے اندر ہی ان سے ظہور کرتی ہوئی عدم افادیت یعنی ان کی نفی کے پہلو کو نہ دیکھنا ہی حقیقی معنوں میں 'جہالت' کی اصل شکل ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں تعلیم یا علم کے 'مثبت' اور فیصلہ کن کردار کا انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن تعلیمی خیال کے اندر موجود وحشت و بربریت، جو کہ 'ترقی یافتہ' اقوام کی خصوصیت رہی ہے، اسے تعلیمی خیال سے باہر، اس کے تخالف یعنی 'جہالت' کا شاخسانہ قرار دینا صریح غلطی ہے۔ جہالت، علم سے باہر کی کوئی شے نہیں ہے، جو اس کی مخالف سمت میں چلتی ہے اور جسے علم کے ذریعے سے تلاش کر کے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جہالت علمی خیالات کی ترتیب و تنظیم کے وضع کردہ معیار اور اصولوں سے جنم لینے والے تضادات کا اظہار، یعنی علمی طریقہ کار(Method) میں مضمر نقص کا نام ہے۔
علم کا خود سے باہر جہالت کو دریافت کرنا خود میں موجود جہالت ہی پردہ پوشی کرنا ہوتا ہے۔ مغربی ''تعلیم یافتہ اقوام'' کا 'تیسری دنیا' کو بذریعہ علم مہذب بنانے کا دعویٰ اس لیے باطل ہے کہ یہ ان ترقی یافتہ اقوام کے علمی خیالات و افکار کی ترتیب میں جنم لینے والا بگاڑ ہے، جسے وہ محض اس لیے دیکھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اسے خود سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ خیال ہے جو علم کے وسط میں جہالت کا اظہار ہے۔ یہ نقص جدید مغربی فلسفہ و فکر میں تشکیل پاتا ہوا ان کے تعلیمی طریقہ کار کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طریقہ کار نے انھیں ایک 'ورلڈ ویو' دیا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ مغربی ممالک عقلیت و علمیت کا منبع و ماخذ ہیں، اور جہاں کہیں جہالت کا شائبہ ہوتا ہے، وہ اسے مظلوم اقوام سے منسوب کر دیتے ہیں۔ علم کے اندر جہالت موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم صرف مہذب ہی نہیں غیر مہذب بھی بناتی ہے۔
جہالت حقیقت میں تعلیم کو فطری اور سماجی لازمیت سے منقطع کرنے کا نام ہے۔ علم، فطرت اور سماجیت کے درمیان انقطاع کا عمل جونہی طے پاتا ہے، انسانی فکر تضادات میں الجھ جاتی ہے۔ یہ تضادات شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کی پیکار دہشت و بربریت کے لیے راستہ کھول دیتی ہے۔ جہالت شعور کا وہ پہلو ہے جو شعور سے مخفی رہتا ہے۔ حقیقی جاہل وہ نہیں ہے جس کے پاس تعلیم نہیں ہے، بلکہ اصل جاہل وہ ہے جو اپنی عقل کے غیر عقلی استعمال سے تضادات میں الجھتا ہے اور بعد ازاں ان کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے۔
علم کا تخلیقی پہلو تہذیبوں کے ارتقا کا باعث بنا ہے لیکن حقیقت میں علم کے اندر جہالت کی عدم تفہیم ہی ہے جس کو علم تصور کر لیا گیا اور اسے ہی بروئے کار لا کر تہذیبوں کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا ہے۔ علم اور جہالت کے مابین جدلیاتی تعلق کا فہم حاصل کرنے کے بعد اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا تعلیم کسی بھی سماج میں موجود برائیوں، انتہا پسندی، دہشتگردی، عدم مساوات، ناانصافی، جبر و استحصال اور ظلم و بربریت کا خاتمہ کر سکتی ہے، تو اس کا جواب نفی میں دینا پڑیگا۔ وجہ ا س کی یہ کہ مذکورہ بالا تمام خرابیاں علمیت کے ناقص پن کا نتیجہ بھی ہیں۔ ''ترقی یافتہ'' مغربی ممالک میں اس قسم کی برائیاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ سماج کی ہر سطح پر ان برائیوں کا اظہار ہوتا ہے۔
کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں مذہبی شدت پسندی موجود نہیں ہے، نہ ہی یہاں لوگ ایک دوسرے کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر قتل کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ یہاں جدید تعلیم نے انسانوں کے مابین تعلقات کے مسئلے کو انسانی اور اخلاقی سطح پر ہمیشہ کے لیے حل کر دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ''ترقی یافتہ'' ممالک میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصبات بہت گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر برطانیہ میں برٹش نیشنل پارٹی، انگلش ڈیفنس لیگ اور فرانس میں نیشنل فرنٹ جیسی فاشسٹ سیاسی پارٹیاں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر سر عام نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہیں ان پارٹیوں میں نام نہاد ''جاہل طالبان'' جیسے لوگ شامل نہیں ہیں بلکہ یہ برطانیہ اور فرانس کی اعلیٰ جامعات سے تعلیمیافتہ طالبانی طرز کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔
''ترقی یافتہ'' ممالک میں نسل پرستی سے متعلق لکھا ادب کا ذخیرہ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے غیر انسانی تعصبات کے گہرے ہونے کا تعلق انسانی سرشت میں موجود کسی حیوانی جبلت سے نہیں ہے کہ جس کو روشن خیالی پر مبنی علمی افکار سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر روشن خیالی پر مبنی علم سے انسان کو ایک مہذب انسان بنایا جا سکتا تو مغربی اقوام کب کی مہذب بن چکی ہوتیں! علم اور جہل کی جدلیات سے عیاں ہوتا ہے کہ تعلیم نے مغربی اقوام کو کہیں زیادہ درندہ صفت بنا دیا ہے۔ ایک طرف شعور اور طاقت اس درندگی کی تسکین و تکمیل کے موثر ہتھیار ہیں، تو دوسری طرف یہی دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
مغربی شعور کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے نقائص کو تلاش کرنے کی بجائے مختلف اقوام کے مابین اعلیٰ و ادنیٰ جیسے تصورات کو مغربی لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی اقوام کے افضل ہونے اور 'تیسری' دنیا کے لوگوں کے کمتر ہونے کے فلسفے کے احیا کا سلسلہ جاری رکھے۔ نقائص اور خرابیوں کو اپنے سماجی تضادات اور ان پر قائم ہوئی علمیت میں تلاش کرنے کی بجائے کسی ''دوسرے'' پر مسلط کر کے خود کو بری الذمہ قرار دے۔ اپنی اقدار کو اعلیٰ اور 'دوسرے' کی اقدار کو ادنیٰ ثابت کرے اور بعد ازاں اسی ترتیب کو بنیاد بنا کر دیگر اقوام پر جنگیں مسلط کرے۔ جنگیں برپا کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ دوسری اقوام جاہل ہوتی ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جنگجو سامراجی اقوام اپنی علمیت میں مخفی جہالت کو نہیں دیکھ پا رہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ بیسویں صدی میں برپا ہونے والی جنگیں نام نہاد تیسری دنیا کے 'غیر مہذب' اور جاہلوں' نے مسلط نہیں کی تھیں بلکہ یہ جدید تعلیم سے آراستہ مغرب کے 'مہذب' اذہان کی پیداوار تھیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم برسانے والے جدید علوم سے آراستہ تھے۔ کالونیل ازم اور نیوکالونیل ازم کی یلغار کرنے والے جاہلِ مطلق نہیں تھے، بلکہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔
عظیم جنگوں کے بعد تعلیم یافتہ سامراجی ممالک نے بیسویں صدی میں مسلسل کسی نہ کسی بہانے سے کمزور اقوام پر جنگیں مسلط کر رکھی ہیں۔ 132 ممالک میں اپنی افواج کو تعینات کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں ایٹم اور نیوکلیر بموں کے مالک افغانستان اور عراق میں بسنے والے 'جاہل' نہیں ہیں، بلکہ علمی فضیلت کے مبلغ امریکی و مغربی دہشت پسند ہیں۔ نکتہ بہرحال یہ ہے کہ تعلیم سامراجی اقوام کے باطن میں مضمر اس 'حیوانیت' کو ختم نہیں کر پائی ہے جس حیوانیت کو تیسری دنیا سے منسلک کیا جاتا ہے۔
جس سرمایہ داری نظام میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں اس میں تعلیمی نظام کا مقصد لوگوں کو 'مہذب' بنانا نہیں بلکہ ان پر تہذیب کا لبادہ اوڑھتے ہوئے انھیں، ظالم و جابر، دہشت پسند، منافق، عیار اور مکار بنانا ہوتا ہے، محض اس لیے کہ مظلوموں پر مسلط کی گئی سفاکیت و بربریت کا 'مہذب' جواز تراشا جا سکے اور ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لیا جاسکے۔ تہذیب اور تعلیم کا مطلب ایک مخصوص ذہنیت کو تشکیل دینے اور مخصوص خطوط پر غالب طبقات کے معاشی، سیاسی اور سماجی غلبے کو برقرار رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس طرح تعلیم حقیقت میں آزادانہ سوچ کی نفی کرتی ہوئی، لاشعوری طور پر، لوگوں میں غلامانہ رجحان کو مستحکم کرتی ہے۔ انھیں جعلی و مصنوعی اصول و قواعد کا پابند کرتی ہے۔ مہذب ہونے کا باطل تصور ان کے اذہان میں خلق کرتی ہے۔
افکار و نظریات سے ان کے اذہان کو کھولنے کی بجائے ان پر پختہ یقین لانے کا درس دیتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم آئیڈیالوجیز کو مستحکم کرتی ہے تاکہ جب طبقاتی تضادات میں شدت رونما ہونے کا اندیشہ ہو تو لوگوں کے اذہان کو مصنوعی نظریاتی تشکیلات سے آلودہ کیا جا سکے۔ تعلیم عہد حاضر میں مغربی ممالک کا 'تیسری دنیا' کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک اہم ترین وسیلہ بن چکی ہے۔ تعلیم صرف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہی مہیا نہیں کی جاتی، مغربی ممالک میں مقتدر طبقات ذرایع ابلاغ، تھنک ٹینکس اور ریاستی پروپیگنڈا مشینری کی وساطت سے اپنے معاشروں میں تعلیم کے نام سے 'جہالت' یا عدم آگاہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کا ایک بڑا حصہ اپنی نظریاتی و فکری قباحتوں میں جھانکنے کی بجائے یہ سمجھتا ہے کہ ان کے ممالک نے دنیا کے مختلف خطوں پر جو قبضے جما رکھے ہیں وہ ان ممالک کی جہالت کو دور کرنے اور انھیں مہذب بنانے کے لیے ہیں، حقیقت میں یہ ان کے علم کا نقص ہی ہے، جسے سمجھنے کا فی الوقت مغربی فلسفہ و فکر اہل نہیں ہے۔