گوتم بدھ کی ایک اَن کہی نصیحت

آنند نے طاقتور کو مزید طاقت عطا کی، کمزور کو کمزوری کی طرف دھکیلا اور اقتدار کو خدمت کے بجائے مفادات کی تکمیل کا۔۔۔


Iqbal Khursheed October 30, 2014

یہ مہاتما بدھ کا تذکرہ نہیں۔ یہ تو آنند کی کہانی ہے۔ ایک بھید بھری کہانی، جس پر خاموشی کی دھند چھائی ہے۔

آنند، بدھ کا سب سے قریبی چیلا تھا۔ بدھ کا سایہ، جو اُس کے ساتھ ساتھ چلتا۔ اُس کی کٹیا میں سوتا۔ جسے مخاطب کر کے بدھ ہدایات جاری کرتا: ''آنند، خود سے محبت کرو، اور دیکھو'' ، ''اے آنند، فقط شبد رہ جائے گا''، ''آنند، زندگی دُکھ ہے۔''

مہاتما کے گیان کا تو جہان بھر میں چرچا ہوا، مگر اُس کے چیلے کی کہانی، جس میں ایک راز چُھپا تھا، وقت کے پنوں میں گم ہو گئی۔ اور یوں بدھ کی ایک نصیحت، ایک پیغام ہماری نظروں سے اوجھل رہا۔ پیغام، جو دانائی سے لبریز تھا۔ جس سے بصیرت چھلک رہی تھی۔ جسے سمجھ لیا جائے، تو ہمارے بگڑے ہوئے سیاسی نظام میں انقلابی سدھار آ سکتا ہے۔

تو چلیں، اِس سدھار کی خواہش لیے ہم آنند کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، جو کپل وستو کے شہزادے کا چچازاد بھائی تھا۔ بڑا بھائی۔ جس نے بھکشو بننے سے پہلے بدھ سے عہد لیا کہ وہ اُسے کبھی خود سے جدا نہیں کرے گا۔ اپنی قربت عطا کرے گا۔ ہمیشہ ساتھ رکھے گا اور تاریخ گواہ ہے کہ بدھ نے اپنا وعدہ نبھایا۔

آنند نے بدھ کو، جو نروان کا پرچارک تھا، انتہائی قریب سے دیکھا۔ اُس کے سامنے لاکھوں افراد بھکشو بنے۔ شہزادے، دانشور، شاعر سکون کی تلاش میں بدھ کی سمت کھنچے چلے آتے۔ اُس کا درشن کرتے ہی اُن کے سر جھک جاتے۔ وہ جنھیں چُھوتا، وہ سرمستی کی کیفیت میں رقص کرنے لگتے۔ جن پر نظر کرم کرتا، زمین و آسمان کے راز اُن پر عیاں ہو جاتے۔ جو اُس کے من کو بھا جاتا، اُس پر پھولوں کی بارش ہوتی۔ تو آنند کے روبرو کئی کرشمے ہوئے۔ اور ان ہی کرشموں نے اسے بے چینی عطا کی۔

جب بدھ کا لمس کسی عقیدت مند پر الوہی کیفیت طاری کر دیتا، جب خبر آتی کہ جنگل میں کسی بھکشو پر گل پاشی ہوئی ہے، اور جب اطلاع ملتی کہ کسی بھکشو پر بادل سایہ کرتے ہیں، تو وہ حیرت سے پلکیں جھپکتا۔ خود سے سوال کرتا؛ بدھ کا لمس مجھے میں خوابیدہ دیوتاؤں کو کیوں نہیں جگا سکا؟ اُس کی قربت نے مجھے اُس کا پرتو کیوں نہیں بنایا؟ کہیں یہ لوگ ڈھونگ تو نہیں کرتے؟ میرے سامنے تو کبھی زمین کے خزانے عیاں نہیں ہوئے۔ میں تو ہر پل اس کے ساتھ رہتا ہوں، پھر قسمت مجھ پر کیوں مہربان نہیں؟

یہی آنند کا کرب تھا۔ اس نے اوروں کے چہرے پر کامل سکون دیکھا، مگر خود اطمینان سے محروم رہا۔ کئی بھکشو شانت پیڑوں میں ڈھل گئے، مگر اُس کے من کی ٹہنیوں پر روشنی نے گھونسلا نہیں بنایا۔ ایک روز اُس نے بدھ سے پوچھا: ''میں کب نوازا جاؤں گا؟''

بدھ نے اپنی مدھر، شہد سی آواز میں جواب دیا: ''ابھی نہیں۔ میری زندگی میں نہیں۔''

تو آنند بدھ کے جیون میں نہیں نوازا گیا۔ وہ برسوں کامل سکون سے محروم رہا۔ تلاش میں جُٹا رہا۔ اور یہ سفر بدھ کی موت کے بعد تمام ہوا۔ تب اُس نے حقیقت کا راز پا لیا۔

تو یہ آنند کی کہانی ہے، جس میں ایک سوال پوشیدہ ہے۔ سوال کہ آنند کو بدھ کی زندگی میں کیوں نہیں نوازا گیا؟ اور یہی وہ چیستان ہے، جس کا حل ہمیں ایک ایسے مسئلے سے نجات دلا سکتا ہے، جو عشروں سے اِس خطے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جس نے طاقتور کو مزید طاقت عطا کی، اور کمزور کو کمزوری کی طرف دھکیلا۔ اقتدار کو خدمت کے بجائے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیا۔ دولت مندوں کے خزانے بڑھے اور غرباء کی جھونپڑی میں تاریکی مزید دبیز ہو گئی۔

یہی وہ نصیحت ہے، جسے نظر انداز کرنے کے باعث جمہوریت معتوب ٹھہری، سیاسی نظام کمزور ہوا، پارلیمنٹ کی حرمت پر انگلیاں اٹھیں، منتخب نمایندے بے اعتبار قرار پائے۔ عوام میں بیزاری بڑھی، اور ملک عدم استحکام کا شکار ہوا۔

تو اِس کہانی میں پوشیدہ سبق ہمارے کئی مسائل حل کر سکتا ہے۔ تو ہم سوال کی سمت پلٹتے ہیں؛ آخر آنند کو بدھ کی زندگی میں کیوں نہیں نوازا گیا؟ جواب جاننے کے لیے ایک مختصر سا قصّہ اور سن لیجیے:

بدھ برسوں بعد کپل وستو لوٹا، تو اُس کی بیوی، یشودھرا سامنے آن کھڑی ہوئی۔ وابستگی سے آزاد بدھ نے نظریں جُھکا لیں۔ عورت نے اپنے بیٹے راہل کو بھیج دیا کہ جاؤ، باپ سے اپنی میراث کا دعویٰ کرو۔ جب راہل باپ کے سامنے گیا، ورثے کا دعویٰ کیا، تو درویش نے فقط اتنا کہا: ''جماعت میں شامل ہو جاؤ۔''

ہاں، بس اتنا ہی۔ بیٹا بھی ایک عام بھکشو۔ بھائی بھی ایک عام بھکشو۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ وہ مہا گیانی جانتا تھا کہ موروثی سیاست ایک بددعا ہے، جو قوموں کو نگل جاتی ہے۔ موروثی سیاست کرب کا تسلسل ہے، حقیقی قیادت کے حصول میں رکاوٹ۔ قائدانہ صلاحیتوں کی دشمن۔ جدی پشتی حکمرانی، باپ کے بعد بیٹا، سائیں کی اولاد سائیں، پیر کا پسر پیر؛ یہ کامل جبر ہے۔ اور بدھ اِس کے خلاف تھا۔ جب ہی تو راہل، اُس کا اپنا سپوت، اُس کا وارث نہیں ٹھہرا۔ اپنے بھائی آنند کو گدی نہیں دی۔

تو یہ ڈھائی ہزار سال پرانا قصّہ ہے، جس میں وہ عظیم نصیحت پوشیدہ ہے، جسے اِس خطے کے حکمرانوں نے کبھی سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں۔ وہ تو موروثیت کی توسیع میں جٹے رہے۔ اُس کے حق میں کھوکھلی دلیلیں تراشتے رہے۔ خستہ حال منطق پیش کی۔ عقیدت اور روایات میں ملفوف جواز لے آئے۔ سیاسی جماعتوں کو جاگیر کی شکل دے دی۔ اور اس بیزار کن عمل سے ملک کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہے۔

جب سائنس داں کے بیٹے کے لیے سائنس داں اور سورما کے بیٹے کے لیے سورما ہونا شرط نہیں، جب قلم کار کا بیٹا طبیب اور طبیب کا بیٹا مصور ہو سکتا ہے، تو پھر سیاست داں کی نسل کے لیے سیاست داں ہونا، باپ کی گدی سنبھالنا، اپنے خاندان کی برتی کا راگ الاپنا کیوں لازم ٹھہرا؟

یہ وہ سوال ہیں، جن کا جواب ہمیں جلد تلاش کرنا ہو گا، کیوں کہ وقت کی ریت ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔ بگاڑ کا دیوتا پھنکار رہا ہے۔

دوستو، یہ آنند کی کہانی ہے، جس میں بدھ کی ایک اَن کہی نصیحت پنہاں ہے کہ موروثی سیاست ایک دُکھ ہے کہ اس کا تعلق براہ راست وابستگی سے ہے اور وابستگی سے خواہش جنم لیتی ہے۔ خواہش کہ اقتدار ہمیشہ میرے اور میرے خاندان کے پاس رہے اور خواہش کامل دُکھ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں