چریا پڑی

اس چریا پڑی میں نہ صرف سیاست بلکہ ادب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے اور چھوٹی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں


منظور ملاح October 30, 2014

گزشتہ دنوں ممتاز براڈکاسٹر اورکالم نگار رضا علی عابدی ہماری دعوت پر سانگھڑ تشریف لائے، یہاں انجمن ترقی پسند مصنفین سانگھڑ کی طرف سے ان کے ساتھ ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی صحافتی زندگی اور جدید صحافت پر روشنی ڈالی، ان سے تیکھے میٹھے سوالات بھی کیے گئے۔ بعد میں وہ ہماری چریا پڑی بھی گپ شپ کرنے آئے۔

واپس جا کر انھوں نے سانگھڑ پر ایک مضمون لکھا ''سانگھڑ میں کام کی چیز صرف وہاں کے لوگ ہیں۔'' سانگھڑ کا باسی ہونے کے ناتے، میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ اور ان سے بھی دو قدم آگے، میں اس عجائبات کے شہر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے متعلق میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا۔ سانگھڑ، جو سیاسی حوالے سے فنکشنل لیگ کے زیر اثر رہا ہے اور زیادہ تر ان کے نمایندے ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن سانگھڑ کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے نشستوں سے کبھی مقامی امیدوار تو کبھی باہر سے امپورٹڈ امیدوار آتے ہیں اور کامیاب ہو کر واپس عوام کے پاس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔

اس لیے یہاں کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ اگلے انتخابات میں کس کو ٹکٹ ملے گا، اس لیے یہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر کرائے گئے ہیں۔ اس لیے اس شہر میں آپ کو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندی نالیاں، ویران اسپتال، اجڑی ہوئی سرکاری عمارتیں، آلودہ پینے کا پانی، پانی میں ڈوبا ہوا اسٹیڈیم گراؤنڈ، پارک نام کی شے نایاب ، گندگی کے ڈھیر، سڑکوں پر سے اڑتی ہوئی دھول، فیکٹریوں سے نکلتا ہوا زہریلا دھواں، سرکاری پلاٹوں اور عمارتوں پر قبضہ کرنے والی مافیائیں ملیں گی۔ ایسا لگے گا جیسے مغربی افریقہ کے کسی دور دراز ملک میں آگئے ہیں۔ اب تو یہاں سیاسی اور مذہبی فرقہ واریت بھی اپنا رنگ دکھاتی رہی ہے۔ ایسے سیاسی اور مذہبی اختلافات پر قتل، گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں، اغوا کاروں کا سرگرم ہونا، ایسا لگتا ہے کہ یہاں جنگل کے قانون کی حکمرانی ہے، ظاہر ہے ایسا شہر کھنڈرات کا ہی نظارہ پیش کرتا ہوگا۔

البتہ یہ شہر ہمیشہ باہر سے آنے والوں کے لیے، دبئی بنا ہوا ہے، تعلیمی امتحانات، نوکریوں سے لے کر کاروبار کرنے تک مقامی مافیاؤں سے گٹھ جوڑ کر کے یہاں کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ یہاں جعلی ڈومیسائلوں اور بوگس تعلیمی اسناد پر نوکریاں بھی لے لیتے ہیں۔

2013ء کے الیکشن کے بعد یہاں حالات تبدیل ہونے لگے ہیں، پہلی بار پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ بڑھا ہے، البتہ لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہاں تو روزانہ اشیائے خورونوش کے بھاؤ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور کرائے بھی، اپنی مرضی سے بڑھائے جاتے ہیں۔ صاحب اقتدار پارٹی کا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ہولڈر وزیر اعلیٰ سندھ کے سامنے ایک خاص نسلی گروہ کا نمایندہ ہونے کا اقرار کرتا ہے اور کرم نوازی بھی اسی گروہ پرکرتا ہے، باقی جو یہاں کے مقامی بنیادی کارکن یا ووٹر ہیں ان کے گھر اور گاؤں جا کر دیکھیں جہاں بجلی گیس۔ راستے، ڈرینیج سسٹم، اسکولز، اسپتال کہیں کوئی دور تک نظر نہیں آئیں گے اور نوکریوں کے دروازے بھی ان کے لیے بند ملیں گے۔

قومی اسمبلی کا ٹکٹ ہولڈر بھولے سے کبھی کبھار لوگوں سے مل لیتا ہے لیکن کام ہونے کا نام نہیں لیتے، اس لیے کئی سالوں سے پیپلز پارٹی کے حامیوں کے گاؤں اب بھی سولہویں صدی کا منظر پیش کرتے ہیں، تا ہم بقول لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر عاجز دھامراہ امید کا دیا پھر بلاول بھٹو کے روپ میں جلا ہے، اس امید پر کہ وہ بھی غریبوں کے حال کی خبر لیں گے۔

رہی بات سانگھڑ کے یتیم شہر کی، تو فنکشنل لیگ والے، پیپلز پارٹی والوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، کہ ان کی حکومت ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں کیا، ہم تو اپوزیشن میں ہیں، اور پیپلز پارٹی والے فنکشنل لیگ والوں کو کئی سالوں کی سانگھڑ پر حکمرانی کا طعنہ دیتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ نہ وہ کام کرتے ہیں اور نہ دوسرے مسائل کے لیے احتجاج کرتے ہیں، جب شہر کے لوگ اس اضطراب میں مبتلا ہوں، تو عام آدمی جائے تو جائے کہاں؟ اپنے دل کی بھڑاس نکالے تو کیسے نکالے۔ یہاں تو صرف کرپٹ سیاستدانوں، افسروں، تاجروں اور این جی او مافیا کے بڑے بڑے اور آفسز پائی جاتی ہیں۔اسی عام آدمی کے مسائل کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے جو سر پھرے لوگ اکٹھے ہو کر حق کی آواز بلند کرتے ہیں، انھیں کا مسکن چریا پڑی ہے۔

یہاں شہر کی فکر کی جاتی ہے، مسائل کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے، شعور و فکر پھیلایا جاتا ہے اور جمود کے حامی لوگ اسے چریا پڑی کہتے ہیں۔ اس چریا پڑی کے روح رواں سوشلسٹ نظریہ رکھنے والے فیض احمد فیض، حبیب جالب سے لے کر وکیل رہنما عابد حسن منٹو کی صحبت میں رہنے والے، حق وہ سچ کی آواز بلند کرنے کی خاطر جبری طور پر جلا وطن ہونے سے لے کر جیل کی ہوا کھانے والے کامریڈ حسن عسکری ہیں۔ اپنے گاؤں پیسو گوٹھ اب شاہ سکندر آباد میں عام لوگ اسے میر صاحب کہتے ہیں۔ اپنی زمیں اور دولت اپنے نظریات پر قربان کرنے والے اس شخص نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت، مزدوروں اور ہاریوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ یہ سانگھڑ کے نواب زادہ نصراللہ خان ہیں جس کی دعوت پر ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف بھی چرپا پڑی میں مل کر بیٹھتے ہیں۔

انھوں نے کئی سالوں سے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کی ہے، فکر وشعور کی آگہی کے لیے گھر گھر گئے ہیں، لیکن افسوس کہ وہ عملی طور پر ایسے کارکن تیار نہ کر سکے جو ان کا پیغام موثر طور پر پھیلا سکیں، یہ وقت کی ستم ظریفی کہیں یا ان کی تربیت میں کمی، جو بھی ہے لیکن آخری عمر میں انھیں اس کی فکر ضرور ہے۔ ان کے ایک سرگرم کارکن خلیل بلوچ ہیں، ان نوجوان سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ سرگرمی میں اپنی جیب خرچ سے حصہ ضرور لیتے ہیں، چاہے حیدرآباد جانا پڑے یا اسلام آباد۔ بائلو روس سے اکنامکس میں ماسٹرز کرنے والے پروفیسر میر حسن سریوال، جو یہاں اسٹڈی سرکلز چلاتے ہیں اور نو جوانوں سے سوشلسٹ فکر و فلسفے پر مکالمہ کرتے ہیں اور رہنمائی بھی کرتے ہیں، یہاں کامریڈ قیوم لانڈر بھی ہیں، جو سب سے پرانے ورکر ہونے کے ناتے چریا پڑی کے چھوٹے بڑے کام خندہ دل سے سرانجام دیتے ہیں۔

اس چریا پڑی میں نہ صرف سیاست، لیکن ادب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے اور چھوٹی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ میرے استاد اور انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر امر لغاری بھی یہیں ڈیرا ڈالتے ہیں، جو سوشلسٹ ادب پر اپنے خیالات بیان کرتے رہتے ہیں اور سندھی افسانے کی مشکل کشائی میں بھی لگے رہتے ہیں، حر تحریک و تاریخ پر رسالہ جھونگار نکالنے والے روشن خیال دوست استاد نظامانی ہیں جو یہاں حر تاریخ میں ڈبکیاں لگاتے رہتے ہیں، آسٹریلیا سے آنے کے بعد ماحولیات کو یہاں متعارف کرانے والے بزرگ شاعر اللہ ورایو بہن بھی ہیں، جو یہاں آکر سندھ کی تاریخ اور بولی پر مفید خیالات پیش کرتے رہتے ہیں۔

اس کے علاہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے دوست سرور بلوچ، امیر بخش بردی، حسن خاصخیلی بھی کبھی کبھار اس چریا پڑی کی زینت بنتے رہتے ہیں، یہاں سانگھڑ چیمبرز آف کامرس کے دوست ماسٹر شیر محمد، صوفی عبدالحق بھی سیاسی اور ادبی پروگراموں میں سانگھڑ کے مسائل پر رونا رونے آتے ہیں، سانگھڑ کی مقامی تاریخ اور لوک دانش پر تحقیق کرنے والے نواز کنبھر بھی اپنے آراء دینے آتے ہیں، یہاں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے منتخب نمایندے نند کمار گوکلانی بھی اقلیتوں کے مسائل پر ہونے والے پروگراموں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں سندھ کے کلاسیکل گائک مرحوم استاد گلزار علی خان بھی اپنے فن سے نوازتے رہے ہیں، اس کے علاوہ باہر سے آنے والے کئی سیاسی، ادبی، سماجی شخصیات بھی اسی چریا پڑی کی رونق بڑھاتے رہے ہیں۔

یہاں عید بھی منائی جاتی ہے تو دیوالی بھی اور کرسمس بھی۔ یہ چریا پڑی سانگھڑ کا ہائیڈ پارک ہے، جہاں ہر کسی کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، اور ہر کوئی سیاست، ادب، فلسفے، مذہب اور شہر کے مسائل پر اپنے خیالات بلا خوف وخطر کے بیان کر سکتا ہے، یہاں برداشت کے ماحول کو فروغ ملتا ہے، اس لیے یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں، ایک گریڈ کا ملازم یا ہاری ہو یا انیسویں گریڈ کا ملازم اور سیاست دان، سب ایک ہی کرسی پر بیٹھے ہیں، ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے ہیں، اور اپنے ہاتھ سے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

کیوں کہ یہ لوگ غیر طبقاتی سماج میں نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چریا پڑی کی کوئی باقاعدہ آفس نہیں، گزشتہ چالیس برسوں سے ادھر ادھر کے دھکے کھائے جا رہے ہیں، ہمارا اجتماعی شعور اب اس حد تک پہنچ چکا ہے۔کاش! اقتداری لوگ اور بیورو کریسی ان کی صدائیں سن لیں اور سانگھڑ کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں