بے درد اکتوبر
جرگے ریاستی اور حکومتی کمزوری کی علامت ہیں جب لوگ ملکی قانون سے دلبرداشتہ ہوتے ہیں تو جرگوں کا سہارا لیتے ہیں
لاہور:
2010ء کا اکتوبر بھی ایسا ہی ظالم تھا جیسا کہ 2014ء کا اکتوبر ہے۔ 10 اکتوبر 2010ء سندھ کے ضلع سانگھڑ کے شہر کھپرو کی زینب کی زندگی میں قیامت جیسا حشر تھا۔ 3 برس پہلے بھی اخبارات چیخ اٹھے تھے۔ آٹھویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے نے سارے میڈیا اور باشعور طبقوں کی توجہ کھپرو کی طرف مبذول کر دی تھی۔
وہ دن جب وومن ایکشن فورم کی ٹیم کھپرو پہنچی، زینب بھیو کے خاندان کے تمام افراد سے ملی، جہاں خاندان کے سارے افراد موجود تھے وہاں زینب نہیں تھی۔ اس سے ملنے گئے تو وہ چھوٹی بچی بالکل الگ تھلگ ایک کمرے میں بند تھی۔ جس کے ساتھی اندوہناک واقعہ ہوا۔ وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح بیٹھی تھی۔
ہاں یہی رویہ ہوتا ہے، یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایسی لڑکیاں جو کربناک حادثوں سے گزرتی ہیں ان کا جینا اجیرن ہو جاتا ہے، زینب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، اس کے ساتھ جو حادثہ ہوا، اس کی ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر دی گئی اور موبائل پر بھی شیئر کی گئی۔
چھوٹے سے شہر میں یہ خبر اور ویڈیو آگ کی طرح پھیل گئی۔ جب پولیس نے مجرموں کو گرفتار کیا اور تفتیش کی تو پتہ چلا کہ یہ منظم گروہ تھا۔ جن کے گھناؤنے کاروبار نے بہت سی لڑکیوں پر ظلم ڈھائے تھے۔ وہ بوڑھا کھپرو کا مکین جس کی کئی نسلیں کھپرو میں رہتی تھیں جب وہ سب سے چھپ کر الگ کھڑے ہو کر اپنی بیٹی پر گزرے ہوئے ہولناک حادثے کے بارے میں بتا رہا تھا تو اس کی سفید داڑھی اسی کے آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی جسم پر لرزا طاری تھا۔ زیادتی کی ویڈیو جب عام ہوئی تو وہ ہمت نہیں ہارا، اس نے اپنی بیٹی کو سرحد پار بھیج دیا۔ ایسے کچھ اور خاندان بھی تھے جو کہ ایسے واقعات سے نالاں ہو کر اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجتے ہوئے ڈرتے تھے۔
جب وہ وحشی گرفتار ہوئے تو امارت، طاقت اور امیری کے نشے میں چُور ان کے کرتا دھرتا بھی سامنے آئے۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔ مجرموں کو بچانے کے لیے کوششیں تیز ہو گئیں۔ ایک پورا خاندان جس کی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ معاشرے میں گردن جھکا کے چلنے پر مجبور ہو گیا، لوگوں تیز و تند طعنوں کے تیروں نے زینب بھیو کے چچا کو دلبرداشتہ کر دیا اور اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا چھوٹا سا گھر بکھر گیا۔
ایک چچا ڈاکٹر ہے جوکہ ابھی تک انصاف کے حصول کے لیے منتظر ہے لیکن ایک اکیلا غریب بندہ بڑے بڑے ہاتھوں کے آگے کہاں تک سر اٹھا کے چل سکتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا، اس وقت ماروی میمن بھی متاثرہ خاندان سے ملنے پہنچیں اعجاز دھامرہ، کشن چند پاروانی اور بہت سی مشہور سیاسی سماجی شخصیات نے انسانی ہمدردی کی بنا پر اس خاندان کو ڈھارس بندھائی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس واقعے کی مذمت کی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اس کیس میں دلچسپی لی۔
سیاسی منظر نامے کتنی تیزی سی بدل جاتے ہیں اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے۔ شاید عورتوں پر تشدد اور ظلم ملکی قانون میں جرم ہی نہیں۔ اس کی سزا کوئی سزا ہی نہیں۔ ابھی بھی باخبر ذرایع کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی خواتین اور اسمبلی کی ممبرز بھی اس جرگے کے انعقاد میں ملوث ہیں۔
قائم خانی لڑکے سلاخوں کے پیچھے ہیں، جب لڑکی کا نام اور تصویر میڈیا پر آ جاتی ہے تو ان درندوں کے نام ظاہر کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ دانش قائم خانی، سہیل قائم خانی اور جہاں زیب قائم خانی ان کے ساتھ 3 لڑکیاں بھی اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھیں۔ وہ تو تب سے ضمانت پر ہیں، بڑے خاندان سے تعلق ان کے لیے بڑی ڈھال ثابت ہوا۔ اب یہ عالم ہے کہ اس گینگ ریپ کے کیس کو ختم کروانے کے لیے جرگے کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
جرگے ریاستی اور حکومتی کمزوری کی علامت ہیں جب لوگ ملکی قانون سے دلبرداشتہ ہوتے ہیں تو جرگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جرگہ سرداری اور جاگیرداری نظام کا نمایندہ ہے، جمہوری حکومتیں قانون اور آئین کی پاسداری کرتی ہیں لیکن ہماری ''جاگیرداری جمہوریت'' اسی سرداری نظام کی نمایندگی کرتی نظر آتی ہے۔ اس جرگے کے کروانے میں بڑی اہم شخصیات کے نام سامنے آتے ہیں ہیں۔ عوام ہمیشہ پیپلز پارٹی کو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے، کامیاب جماعت مانتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے وقار حکومت میں ہمیشہ خواتین کے حوالے سے بہترین قانون سازی ہوتی ہے اور خواتین کی ترقی اور تعلیم کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ جرگہ جوکہ سو فی صد خواتین کے خلاف ہے۔ جرگے میں کیے گئے فیصلے 99 فیصد خواتین کے حقوق کی نفی کرتے ہیں اس پر کبھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا جا رہا۔
سندھ کی روایت ہے کہ ''لڑکی سات قرآن کے برابر ہے'' اگر صلح کروانی ہو تو لڑکیوں کو اس خاندان کے گھر لے جاتے ہیں تاکہ صلح صفائی اور جھگڑے ختم ہو جاتیں، لیکن وہ لڑکی جرگے کے ذریعے بیچی اور خریدی جاتی ہے۔ ظلم اور زیادتی معاف کروانے کے لیے تو عورت کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کی اپنی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ واضح رہے ڈاکٹر امین کے گھر یہ بھی مخالفین اپنی لڑکیوں کو لے کر معافی مانگنے گئے تھے اور سیاسی اور سماجی ہر طرح کا اثر رسوخ استعمال کر کے اس کو جرگے پر آمادہ کر لیا۔ چند لاکھ کے عوض انصاف کو خریدنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
''ادی! درد اتنے ملے ہیں کہ اب درد کا احساس ہی نہیں ہوتا۔''
4 سال سے مسلسل مسائل اور مصائب جھیلنے والے ڈاکٹر امین گل کراہ اٹھے، درد کی حد ہی نہیں، جب لوگ طعنے مارتے ہیں، جب قانون خاموش ہوتا ہے۔ جب معاشی مسائل گھیر لیتے ہیں تو درد اور دکھ انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر جب مرشد کا احترام بھی لازم ہو تو پھر کہیں جائے پناہ نہیں ملتی۔ مرشد تو ہوتا ہی طاقتور ہے لیکن اگر مرشد اور سیاست مل جائیں تو پھر لوگ چکی کے دو پاٹوں میں پسنے لگتے ہیں۔
ہم اس وقت اس حال میں جی رہے ہیں کہ عام انسانوں کو ریاست تحفظ تو نہیں دے رہی لیکن جرگے کی صورت میں ایک ظلم اور جبر کا نظام عام لوگوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا خاتمہ، انسان کی شخصی آزادی ختم ہو چکی ہے۔ زینب بھیو کے جرگے سے صورتحال اور بھی بگڑ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ لوگ پرانے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں، جہاں چند لوگ، لوگوں کی تقدیروں کے فیصلے کرتے ہیں اور ملکی قانون صرف کتابوں میں بند رہ جاتا ہے۔
مجرم کو سزا دینا کوئی مشکل عمل بھی نہیں اگر ایران میں ''ریحانہ حیاری'' کو اپنے اوپر حملہ کرنے والے کے قتل کے جرم میں سزائے موت ہوسکتی ہے تو پاکستان میں ریپ کے مجرم کو سزا کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں ساری ریاستی مشنری مجرم کو بچانے اور تحفظ دینے پر کمربستہ ہو جاتی ہے؟