پاکستان ایک نظر میں ایک اور اسکیم ایک اور خدشہ
شہبازشریف سے یہی گزارش ہے کہ شفافیت کوہرصورت یقینی بنائیں اور نوجوانوں کیلئے شروع کی گئی اس اسکیم کوانہیں تک پہنچائیں۔
PESHAWAR:
پاکستان میں جب بھی آپ کسی بڑی اسکیم کا نام سنیں تو سمجھ جائیں کہ وزیراعلی پنجاب شہبار شریف کہیں آس پاس ہی ہونگے۔ پھر چاہے بات ہو یلو کیپ اسکیم کی، سسٹی روٹی اسکیم کی، لیپ ٹاپ اسکیم کی، آشیانہ اسکیم کی یا پھر یوتھ لون اسکیم کی۔
اگرچہ یہ اچھے کام ہیں اور اگر مخلصانہ طور پر کیے جائیں تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اِن کاموں کو بُرا کہنے کی جسارت کریگا مگر ناجانے کیوں مجھے ان اسکیموں کا نام سن کر فرانس کی ملکہ کا وہ قول یاد آجاتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو اُنہوں نے پرسکوں لہجے میں کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کیا ہوا لوگوں سے کہیں کہ 'کیک' کھالیں۔
شہباز شریف کی شہرت بھی کچھ اِسی قسم کی ہے۔ دنیا لاکھ اُن کی مخالفت کرے مگر اُن کا شوق ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور ہر کچھ عرصے بعد وہ خوب دھوم دھام سے ایک نئی اسکیم اپنی رعایا کے لیے متعارف کروادیتے ہیں۔ اور ظاہر ہے جہاں لوگ مشکلات کا شکار ہوں وہاں اُن کے لیے حکومتی ریلیف کا کوئی بھی پراجیکٹ سکون کے ایک سانس کی مانند لگتا ہے۔
لیکن حیرت اور افسوس تو اُس وقت ہوتا ہے کہ جب یہی سکون کا ایک سانس ، مشکلات اور پریشانی کا سبب بن جائے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود میں ذاتی طور پر بہت خوش ہوا تھا جب شہباز شریف نے غریب عوام کے لیے سسٹی روٹی اسکیم کا آغاز کیا تھا جس میں روٹی 3 روپے کی فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ پراجیکٹ کئی ماہ تک کامیابی کے ساتھ جاری بھی رہا۔ مگر پھر اچانک بغیر وجہ بتائے یہ پراجیکٹ بند کردیا گیا اور مخالفین کو یہ موقع دیا گیا کہ اُن کے خدشات درست تھے اور وہ اب بھی اِس اسکیم کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن مخالفین کے اعتراضات اور سیاست اپنی جگہ مگر اگر اِس اسکیم کے بند ہونے کا سب سے زیادہ نقصان ہوا تو اُس غریب عوام کو جو 10 روپے کی مہنگی روٹی لینے سے اب بھی قاصر ہے۔
مگر اب بھی بہت ساری اسکیمیں ایسی پنجاب میں جاری ہیں جن سے وہاں کی مقامی آبادی کو کسی نہ کسی حد تک فائدہ پہنچ رہاہے جیسے آشیانہ ہاوسنگ اسکیم، دانش اسکول سسٹم، لیپ ٹاپ اسکیم اور ٹریکٹر اسکیم۔ اِن تمام اسکیموں کا مقصد غریب عوام کی مدد ہی ہے مگر ناجانے کیوں مخالفین کے پاس اِس تمام اسکیموں کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگانے کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے جو نہیں جانتا کہ وہ ٹھیک ہے بھی یہ نہیں بس یہ جانتا ہوں کہ کسی نہ کسی حد تک غریب کو فائدہ ضرور ہوا ہے۔
لیکن اِس وقت ان تمام باتوں سے ہٹ کر نئی اسکیم کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں اور وہ ہے روزگار سکیم کا اعلان ہے۔ یہ سکیم وزیراعلی پنجاب کی جانب سے خالصتا پنجاب کے نوجوانوں کے لئے ہے۔جس کو یہ سوچ کر شروع کیا گیا ہے کہ اس سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار سے منسلک ہو جائے گی۔جو یقیناً ایک قابل تعریف اقدام ہے ۔وزیراعلی کی اس سکیم سے پنجاب کے نواجوانوں میں کافی حد تک بے روزگاری سے چھٹکارا پانے کا امکان ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پنجاب کے نواجوانوں کے لئے یہ سکیم کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے،کیونکہ کہ اس سے ایسے نوجوان جوفارغ ہیں،جن کے پاس نہ تو سرکاری نوکری ہے اور نہ ہی روزگار کے لئے پیسے،جس سے وہ اپنا ذاتی روزگار شروع کر سکیں۔
اگر روز گار کی فراہمی کی حیثیت سے اس سکیم کو دیکھا جائے تو یہ نوجوانوں کے لئے ایک تحفہ ہے،لیکن اگر اس سکیم پر کسی اور نے ڈاکا مار لیا تو پھر اس کا اصل مقصد پورا ہوتا نہیں دے رہا۔کیونکہ اس سکیم میں کچھ ایسے لوگ بھی درخواست گزار ہوں گے جن کا مقصدصرف لین دین،اور گاڑیوں کی خرید وفروخت تک محدود ہو گا۔اگر یہ اس سکیم میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے تب ہی اس کے اصل مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اور شاید یہی ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اِس اسکیم پر میں خوش ہوں یا پھر پریشان کہ پچھلے دورے حکومت میں بھی شہباز شریف نے پنجاب میں ایسی ہی یلو کیپ سکیم کا آغاز کیا تھا لیکن جو اُس کا حال ہوا تھا اور کرپشن کے جو سنگین الزامات عائد ہوئے وہ ہم کو آج بھی یاد ہے اور یہ صرف الزامات نہیں تھے بلکہ اُس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے بھی چند بے قاعدگیوں کو تسلیم کیا تھا ۔ تو اگر اُنہوں نے چند بےقاعدگیوں کو تسلیم کیا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ کس قدر ہوئے ہونگے کہ ہمارے حکمراں غلطیوں کو بڑی مشکل سے مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری شہباز شریف سے بھی یہ گزارش ہے کہ شفافیت کو ہر صورت یقینی بنائیں۔ یہ سکیم اگرنوجوانوں کے لئے شروع کی گئی ہے تو ان تک ہی پہنچنی بھی چائیے۔اگر شفافیت بھی ہو،میرٹ بھی ہو تو میرا نہیں خیال کہ اصل حقدار نوجوان اس سے محروم نہیں رہ سکیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان میں جب بھی آپ کسی بڑی اسکیم کا نام سنیں تو سمجھ جائیں کہ وزیراعلی پنجاب شہبار شریف کہیں آس پاس ہی ہونگے۔ پھر چاہے بات ہو یلو کیپ اسکیم کی، سسٹی روٹی اسکیم کی، لیپ ٹاپ اسکیم کی، آشیانہ اسکیم کی یا پھر یوتھ لون اسکیم کی۔
اگرچہ یہ اچھے کام ہیں اور اگر مخلصانہ طور پر کیے جائیں تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اِن کاموں کو بُرا کہنے کی جسارت کریگا مگر ناجانے کیوں مجھے ان اسکیموں کا نام سن کر فرانس کی ملکہ کا وہ قول یاد آجاتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو اُنہوں نے پرسکوں لہجے میں کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کیا ہوا لوگوں سے کہیں کہ 'کیک' کھالیں۔
شہباز شریف کی شہرت بھی کچھ اِسی قسم کی ہے۔ دنیا لاکھ اُن کی مخالفت کرے مگر اُن کا شوق ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور ہر کچھ عرصے بعد وہ خوب دھوم دھام سے ایک نئی اسکیم اپنی رعایا کے لیے متعارف کروادیتے ہیں۔ اور ظاہر ہے جہاں لوگ مشکلات کا شکار ہوں وہاں اُن کے لیے حکومتی ریلیف کا کوئی بھی پراجیکٹ سکون کے ایک سانس کی مانند لگتا ہے۔
لیکن حیرت اور افسوس تو اُس وقت ہوتا ہے کہ جب یہی سکون کا ایک سانس ، مشکلات اور پریشانی کا سبب بن جائے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود میں ذاتی طور پر بہت خوش ہوا تھا جب شہباز شریف نے غریب عوام کے لیے سسٹی روٹی اسکیم کا آغاز کیا تھا جس میں روٹی 3 روپے کی فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ پراجیکٹ کئی ماہ تک کامیابی کے ساتھ جاری بھی رہا۔ مگر پھر اچانک بغیر وجہ بتائے یہ پراجیکٹ بند کردیا گیا اور مخالفین کو یہ موقع دیا گیا کہ اُن کے خدشات درست تھے اور وہ اب بھی اِس اسکیم کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن مخالفین کے اعتراضات اور سیاست اپنی جگہ مگر اگر اِس اسکیم کے بند ہونے کا سب سے زیادہ نقصان ہوا تو اُس غریب عوام کو جو 10 روپے کی مہنگی روٹی لینے سے اب بھی قاصر ہے۔
مگر اب بھی بہت ساری اسکیمیں ایسی پنجاب میں جاری ہیں جن سے وہاں کی مقامی آبادی کو کسی نہ کسی حد تک فائدہ پہنچ رہاہے جیسے آشیانہ ہاوسنگ اسکیم، دانش اسکول سسٹم، لیپ ٹاپ اسکیم اور ٹریکٹر اسکیم۔ اِن تمام اسکیموں کا مقصد غریب عوام کی مدد ہی ہے مگر ناجانے کیوں مخالفین کے پاس اِس تمام اسکیموں کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگانے کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے جو نہیں جانتا کہ وہ ٹھیک ہے بھی یہ نہیں بس یہ جانتا ہوں کہ کسی نہ کسی حد تک غریب کو فائدہ ضرور ہوا ہے۔
لیکن اِس وقت ان تمام باتوں سے ہٹ کر نئی اسکیم کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں اور وہ ہے روزگار سکیم کا اعلان ہے۔ یہ سکیم وزیراعلی پنجاب کی جانب سے خالصتا پنجاب کے نوجوانوں کے لئے ہے۔جس کو یہ سوچ کر شروع کیا گیا ہے کہ اس سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار سے منسلک ہو جائے گی۔جو یقیناً ایک قابل تعریف اقدام ہے ۔وزیراعلی کی اس سکیم سے پنجاب کے نواجوانوں میں کافی حد تک بے روزگاری سے چھٹکارا پانے کا امکان ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پنجاب کے نواجوانوں کے لئے یہ سکیم کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے،کیونکہ کہ اس سے ایسے نوجوان جوفارغ ہیں،جن کے پاس نہ تو سرکاری نوکری ہے اور نہ ہی روزگار کے لئے پیسے،جس سے وہ اپنا ذاتی روزگار شروع کر سکیں۔
اگر روز گار کی فراہمی کی حیثیت سے اس سکیم کو دیکھا جائے تو یہ نوجوانوں کے لئے ایک تحفہ ہے،لیکن اگر اس سکیم پر کسی اور نے ڈاکا مار لیا تو پھر اس کا اصل مقصد پورا ہوتا نہیں دے رہا۔کیونکہ اس سکیم میں کچھ ایسے لوگ بھی درخواست گزار ہوں گے جن کا مقصدصرف لین دین،اور گاڑیوں کی خرید وفروخت تک محدود ہو گا۔اگر یہ اس سکیم میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے تب ہی اس کے اصل مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اور شاید یہی ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اِس اسکیم پر میں خوش ہوں یا پھر پریشان کہ پچھلے دورے حکومت میں بھی شہباز شریف نے پنجاب میں ایسی ہی یلو کیپ سکیم کا آغاز کیا تھا لیکن جو اُس کا حال ہوا تھا اور کرپشن کے جو سنگین الزامات عائد ہوئے وہ ہم کو آج بھی یاد ہے اور یہ صرف الزامات نہیں تھے بلکہ اُس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے بھی چند بے قاعدگیوں کو تسلیم کیا تھا ۔ تو اگر اُنہوں نے چند بےقاعدگیوں کو تسلیم کیا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ کس قدر ہوئے ہونگے کہ ہمارے حکمراں غلطیوں کو بڑی مشکل سے مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری شہباز شریف سے بھی یہ گزارش ہے کہ شفافیت کو ہر صورت یقینی بنائیں۔ یہ سکیم اگرنوجوانوں کے لئے شروع کی گئی ہے تو ان تک ہی پہنچنی بھی چائیے۔اگر شفافیت بھی ہو،میرٹ بھی ہو تو میرا نہیں خیال کہ اصل حقدار نوجوان اس سے محروم نہیں رہ سکیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔