خارجہ پالیسی پر حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں ترجمان دفترخارجہ

مذاکرات بھارت نےمعطل کئےدوبارہ شروع کرنےکی ذمہ داری بھی اس کی ہےجبکہ جنوبی ایشیااسلحےکی دوڑکامتحمل نہیں ہوسکتا،ترجمان


ویب ڈیسک October 30, 2014
خارجہ پالیسی میں مختلف اداروں کی مشاورت شامل ہوتی ہے اور یہ ریاستی پالیسی ہوتی ہے کسی ایک ادارے کی نہیں، دفترخارجہفوٹو:فائل

SUKKUR: ترجمان دفترخارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی قومی مفاد کی عکاس ہے اس حوالے سے حکومت اور پاک فوج کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا اسلحے کی دوڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا، مختلف سطح پرپاک بھارت رابطے چلتے رہتے ہیں لیکن مذاکرات بھارت نے معطل کئے اس لئے دوبارہ شروع کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے جب کہ افغانستان میں امن صرف خطے ہی نہیں دنیا بھر کے مفاد میں ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے داخلی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند ہے، افغانستان میں 2 لاکھ پاکستانیوں کے پناہ گزین ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں، آپریشن ضرب عضب شروع ہونے پر ایک لاکھ 67 ہزار 120 پاکستانی شہری افغانستان گئے جن میں سے اکثریت واپس آ گئی اور دیگر کی پاکستان اور افغانستان نقل و حرکت جاری رہتی ہے تاہم اس اس حوالے سے افغان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ پاکستانیوں کی واپسی کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔

تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان پاکستانیوں کا ہے غیر ریاستی عناصر کا نہیں، کوئی دہشت گرد گروپ کسی پاکستانی کوپاکستان آنےسےنہیں روک سکتا۔ اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی اسٹال طلبا کا غیر قانونی اقدام تھا جسے فوری طور پر بند کرادیاگیا جب کہ معاملےکی تحقیقات ہورہی ہیں.

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف انتہائی واضح ہے کہ اس قسم کے حملے ملک کی داخلی خودمختاری کے خلاف ہیں اور ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسی صورت حال میں جب پاکستان پہلے ہی دہشت گرد عناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کررہا ہے تو ڈرون حملے غیر ضروری ہیں جنہیں بند ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی قومی مفاد کی عکاس ہے اوراس میں مختلف اداروں کی مشاورت شامل ہوتی ہے جب کہ یہ ریاستی پالیسی ہوتی ہے کسی ایک ادارے کی نہیں لہذٰا اس حوالے سے حکومت اور پاک فوج کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں