قرآن کریم کا مطالعہ توازن و اعتدال کا حسن
قرآن کریم کے مطالعے سے فہم و فراست کے حصول کے علاوہ کئی قسم کی گم راہیوں اور اشکالات سے اس کا ذہن صاف ہوجاتا ہے
قرآن و حدیث کے عمیق مطالعے اور ان پر تدبر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے فکر و عمل میں اعتدال اور توازن پیدا ہوجاتا ہے۔
فہم و فراست کے حصول کے علاوہ کئی قسم کی گم راہیوں اور اشکالات سے اس کا ذہن صاف ہوجاتا ہے۔ اسلام چوںکہ دین فطرت ہے، اس لیے اس کے بیا ن کیے ہوئے تمام اصول و ضوابط انسان کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ اس کائنات کا خالق و صانع بخوبی جانتا ہے کہ انسانوں کے سود و زیاں کے اسرار کیا ہیں؟ چناں چہ ربّ کائنات نے انسانی زندگی کے لیے ہر ضابطہ اور قانون قطعی اعتدال اور بہترین اندازے پر استوار کیا ہے۔
دوسری جانب اپنی مخلوق کو محدود علم عطا کیا ہے۔ اس لیے انسان کے مرتب کیے ہوئے اصول و قوانین اس کی بشری کمزوریوں کی بنا پر عموماً نفع بخش ثابت نہیں ہوتے اور ان میں افراط و تفریط کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اعتدال اور توازن سے ہٹی ہوئی اس روش کا منفی اثر انسانی طرز زندگی کے ہر شعبے میں ہوا ہے اور ہورہا ہے۔
اسلام معتدل اور متوازن زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں امت مسلمہ کو امۃ وسطاً، یعنی درمیانی امت کہا گیا ہے۔ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: یعنی بہترین کام وہی ہیں جن میں اعتدال ہو۔ حتیٰ کہ جو کام انسانی معاشرے میں انتہائی پسندیدہ اور لائق تحسین سمجھے جاتے ہیں، ان میں بھی اعتدال کی روش اپنانے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ مثلاً حاجت مندوں کی مدد کرنا، غریبوں کی داد رسی کر نا، یتیموں، بیواؤں کی اشک شوئی کرنا وغیرہ۔
ارشاد ربانی ہے: '' نہ تو اپنے ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑ دو کہ ملا مت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو (بنی اسرائیل)'' مطلب یہ کہ اپنا کل مال و متاع دوسروں پر نہ لٹادو کہ خود محتاجی کی حالت کو پہنچ جاؤ اور اپنی ضرورتوں اور حاجات کے لیے اپنے ہی جیسے انسانوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوجاؤ اور اس طرح تمہاری عزت نفس مجروح ہونے لگے۔ رسول کریم ؐ نے ایک اور بہت خوب صورت بات ارشاد فرمائی: ''نیک طور طریق، نیک انداز اور میانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے''۔ (ابو داو'د، کتاب الادب، باب الوقار)۔ ہمارا دین تو عبادت کے معاملے میں بھی متوازن طریقہ اختیار کر نے کی تاکید کر تا ہے۔ فرمان خداوندی ہے: '' اور نہ نماز بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ، بلکہ بیچ کا راستہ اختیار کرو'' (بنی اسرائیل )۔
اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کی زندگی گزارنا دراصل قرآن و سنت کی روشن، بصیرت افروز اور پاکیزہ تعلیمات سے غفلت اور لاعلمی کا سبب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرمؐ کے ذریعے سے ایک پورا ضابطۂ حیات اور نظام زندگی انسان کے سامنے رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ'' جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔''(البقرہ )۔ چناںچہ اس ہدایت تامہّ کی روشنی میں انسان کی سیاسی طرز زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک ایسا درمیانی راستہ نظر آتا ہے، جس میں اقتداراعلیٰ کا حق صر ف اﷲ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کہ 'حکم راں ہے ایک وہی، باقی بتانِ آزری'۔
اس ضمن میں اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسا شورائی نظام وضع کر دیا ہے جس کے تحت مؤمنانہ صفات کے حامل انسانوں کو ہی مسند اقتدار پر متمکن ہونے کا استحقاق حاصل ہے۔ نظر کے زاویوں کو معاشی و اقتصادی میدان پر مرتکز کیا جائے تو یہاں بھی اسلام ایک محدود ملکیت کا تصور پیش کر تا ہے کہ ملکیت کا کلی اختیار تو اﷲ ہی کو حاصل ہے، البتہ انسان کو دنیوی زندگی میں ایک معین مدت تک حق تصرف عطا کیا گیا ہے۔
وہ ایک مقررہ وقت تک اس کائنات کی ہر نعمت سے بہرہ ور ہوسکتا ہے، لیکن اختیار مطلق کا حق دار نہیں بن سکتا۔ معاشرتی اور سماجی کینوس پر انسان کے لیے حقوق و فرائض کا انتہائی منصفانہ، عادلانہ اور معتدل نظام اپنی پوری برکات و ثمرات کے ساتھ موجود ہے اور قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور انسان کی معاشرتی اور اخلاقی زندگی پر دیا گیا ہے۔
خوشی اور غمی ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان مواقع پر بھی ہمارے دین نے ہمیں بے لگام نہیں چھوڑا ہے۔ حدیث مبارکہ میں کھانے پینے کے آداب بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یہ چیز ہر شخص کے مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر خورد و نوش کی اشیا کی کیسی بربادی ہوتی ہے۔
معاشرے میں ''شرفا '' کہلانے والوں کا بھی یہ حال ہے کہ کھانا کھلتے ہی اس طرح جھپٹتے ہیں گویا اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ پھر پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیتے ہیں کہ اس کو ختم کر نا محال ہوجاتا ہے۔ چناں چہ بچا ہوا کھانا میز پر ہی چھوڑ کر خاموشی سے کھسک لیتے ہیں اور یہ بے اعتدالی خوشی کے موقعوں پر ہی نہیں، غمی اور سوگ کے وقت بھی ہوتی ہے۔ اس موقع پر بھی دیگیں چڑھتی ہیں اور لوگ ڈٹ کر کھاتے ہیں، بلکہ صاف اور اچھی بوٹیوں کی فرمائشیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ پھر بچا کھچا کھانا یا تو کچر ا کنڈی کی نذر ہوجاتا ہے یا اس سے کتے بلیوں کی تواضع ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں عوام کی کثیر تعداد خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، بیشتر افراد کا معاملہ تو یہ ہے کہ انہیں دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھرنے کے لیے نصیب نہیں ہوتی، اس ملک کی ہوش ربا گرانی میں جہاں ایک طرف لوگ پیٹ کی آگ بجھانے لے لیے اپنے بچے فروخت کر نے پر آمادہ ہوں تو دوسری جانب خوشی اور غم کے موقع پر رزق کا اس بے دردی سے زیاں، لوگوں کی غفلت اور بے حسی کی علامت بھی ہے اور اﷲ کے غضب کو دعوت دینے کا اظہار بھی۔ اﷲ کی نعمتوں کو ضائع کر نا اس کی ناشکری کا واضح ثبوت ہے۔ اس طرح کی روش اختیار کر نے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی اس تنبیہ کر یاد رکھنا چاہیے کہ: '' ایک دن تم سے ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔'' (التکاثر )۔
اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کی کچھ مصلحتوں کی بنا پر جن لوگوں کو دولت فراوانی سے عطا کی ہے ان کو خرچ کر تے ہوئے اسراف و تبذیر سے بچنا چاہیے۔ وہ پانچ سوال جن کے صحیح جواب دیے بغیر کسی بھی انسان کے قدم نہ ہل سکیں گے۔ ان میں دو سوالات یہ بھی ہوں گے کہ ''مال کہاں سے کمایا اور کہاں اور کس طرح خرچ کیا؟'' ویسے بھی فضول خرچی کر نے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔
اسلام اﷲ کا پسندیدہ دین ہے، حجۃالوداع کے موقع پر سورۃ المائدہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا: '' آج میں نے تمھارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے''۔ اس الہامی اور نظریاتی دین کا عظیم مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کے طرز زندگی میں اعتدال و توازن بر قرار رہے۔ جس کی وجہ سے افراد کی زندگی میں وہ ثمرات ظہور پذیر ہوں، جس سے پورا معاشرہ امن و سکون اور اطمینان و راحت کا گہوارہ بن جائے۔
فہم و فراست کے حصول کے علاوہ کئی قسم کی گم راہیوں اور اشکالات سے اس کا ذہن صاف ہوجاتا ہے۔ اسلام چوںکہ دین فطرت ہے، اس لیے اس کے بیا ن کیے ہوئے تمام اصول و ضوابط انسان کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ اس کائنات کا خالق و صانع بخوبی جانتا ہے کہ انسانوں کے سود و زیاں کے اسرار کیا ہیں؟ چناں چہ ربّ کائنات نے انسانی زندگی کے لیے ہر ضابطہ اور قانون قطعی اعتدال اور بہترین اندازے پر استوار کیا ہے۔
دوسری جانب اپنی مخلوق کو محدود علم عطا کیا ہے۔ اس لیے انسان کے مرتب کیے ہوئے اصول و قوانین اس کی بشری کمزوریوں کی بنا پر عموماً نفع بخش ثابت نہیں ہوتے اور ان میں افراط و تفریط کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اعتدال اور توازن سے ہٹی ہوئی اس روش کا منفی اثر انسانی طرز زندگی کے ہر شعبے میں ہوا ہے اور ہورہا ہے۔
اسلام معتدل اور متوازن زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں امت مسلمہ کو امۃ وسطاً، یعنی درمیانی امت کہا گیا ہے۔ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: یعنی بہترین کام وہی ہیں جن میں اعتدال ہو۔ حتیٰ کہ جو کام انسانی معاشرے میں انتہائی پسندیدہ اور لائق تحسین سمجھے جاتے ہیں، ان میں بھی اعتدال کی روش اپنانے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ مثلاً حاجت مندوں کی مدد کرنا، غریبوں کی داد رسی کر نا، یتیموں، بیواؤں کی اشک شوئی کرنا وغیرہ۔
ارشاد ربانی ہے: '' نہ تو اپنے ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑ دو کہ ملا مت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو (بنی اسرائیل)'' مطلب یہ کہ اپنا کل مال و متاع دوسروں پر نہ لٹادو کہ خود محتاجی کی حالت کو پہنچ جاؤ اور اپنی ضرورتوں اور حاجات کے لیے اپنے ہی جیسے انسانوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوجاؤ اور اس طرح تمہاری عزت نفس مجروح ہونے لگے۔ رسول کریم ؐ نے ایک اور بہت خوب صورت بات ارشاد فرمائی: ''نیک طور طریق، نیک انداز اور میانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے''۔ (ابو داو'د، کتاب الادب، باب الوقار)۔ ہمارا دین تو عبادت کے معاملے میں بھی متوازن طریقہ اختیار کر نے کی تاکید کر تا ہے۔ فرمان خداوندی ہے: '' اور نہ نماز بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ، بلکہ بیچ کا راستہ اختیار کرو'' (بنی اسرائیل )۔
اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کی زندگی گزارنا دراصل قرآن و سنت کی روشن، بصیرت افروز اور پاکیزہ تعلیمات سے غفلت اور لاعلمی کا سبب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرمؐ کے ذریعے سے ایک پورا ضابطۂ حیات اور نظام زندگی انسان کے سامنے رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ'' جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔''(البقرہ )۔ چناںچہ اس ہدایت تامہّ کی روشنی میں انسان کی سیاسی طرز زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک ایسا درمیانی راستہ نظر آتا ہے، جس میں اقتداراعلیٰ کا حق صر ف اﷲ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کہ 'حکم راں ہے ایک وہی، باقی بتانِ آزری'۔
اس ضمن میں اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسا شورائی نظام وضع کر دیا ہے جس کے تحت مؤمنانہ صفات کے حامل انسانوں کو ہی مسند اقتدار پر متمکن ہونے کا استحقاق حاصل ہے۔ نظر کے زاویوں کو معاشی و اقتصادی میدان پر مرتکز کیا جائے تو یہاں بھی اسلام ایک محدود ملکیت کا تصور پیش کر تا ہے کہ ملکیت کا کلی اختیار تو اﷲ ہی کو حاصل ہے، البتہ انسان کو دنیوی زندگی میں ایک معین مدت تک حق تصرف عطا کیا گیا ہے۔
وہ ایک مقررہ وقت تک اس کائنات کی ہر نعمت سے بہرہ ور ہوسکتا ہے، لیکن اختیار مطلق کا حق دار نہیں بن سکتا۔ معاشرتی اور سماجی کینوس پر انسان کے لیے حقوق و فرائض کا انتہائی منصفانہ، عادلانہ اور معتدل نظام اپنی پوری برکات و ثمرات کے ساتھ موجود ہے اور قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور انسان کی معاشرتی اور اخلاقی زندگی پر دیا گیا ہے۔
خوشی اور غمی ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان مواقع پر بھی ہمارے دین نے ہمیں بے لگام نہیں چھوڑا ہے۔ حدیث مبارکہ میں کھانے پینے کے آداب بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یہ چیز ہر شخص کے مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر خورد و نوش کی اشیا کی کیسی بربادی ہوتی ہے۔
معاشرے میں ''شرفا '' کہلانے والوں کا بھی یہ حال ہے کہ کھانا کھلتے ہی اس طرح جھپٹتے ہیں گویا اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ پھر پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیتے ہیں کہ اس کو ختم کر نا محال ہوجاتا ہے۔ چناں چہ بچا ہوا کھانا میز پر ہی چھوڑ کر خاموشی سے کھسک لیتے ہیں اور یہ بے اعتدالی خوشی کے موقعوں پر ہی نہیں، غمی اور سوگ کے وقت بھی ہوتی ہے۔ اس موقع پر بھی دیگیں چڑھتی ہیں اور لوگ ڈٹ کر کھاتے ہیں، بلکہ صاف اور اچھی بوٹیوں کی فرمائشیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ پھر بچا کھچا کھانا یا تو کچر ا کنڈی کی نذر ہوجاتا ہے یا اس سے کتے بلیوں کی تواضع ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں عوام کی کثیر تعداد خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، بیشتر افراد کا معاملہ تو یہ ہے کہ انہیں دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھرنے کے لیے نصیب نہیں ہوتی، اس ملک کی ہوش ربا گرانی میں جہاں ایک طرف لوگ پیٹ کی آگ بجھانے لے لیے اپنے بچے فروخت کر نے پر آمادہ ہوں تو دوسری جانب خوشی اور غم کے موقع پر رزق کا اس بے دردی سے زیاں، لوگوں کی غفلت اور بے حسی کی علامت بھی ہے اور اﷲ کے غضب کو دعوت دینے کا اظہار بھی۔ اﷲ کی نعمتوں کو ضائع کر نا اس کی ناشکری کا واضح ثبوت ہے۔ اس طرح کی روش اختیار کر نے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی اس تنبیہ کر یاد رکھنا چاہیے کہ: '' ایک دن تم سے ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔'' (التکاثر )۔
اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کی کچھ مصلحتوں کی بنا پر جن لوگوں کو دولت فراوانی سے عطا کی ہے ان کو خرچ کر تے ہوئے اسراف و تبذیر سے بچنا چاہیے۔ وہ پانچ سوال جن کے صحیح جواب دیے بغیر کسی بھی انسان کے قدم نہ ہل سکیں گے۔ ان میں دو سوالات یہ بھی ہوں گے کہ ''مال کہاں سے کمایا اور کہاں اور کس طرح خرچ کیا؟'' ویسے بھی فضول خرچی کر نے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔
اسلام اﷲ کا پسندیدہ دین ہے، حجۃالوداع کے موقع پر سورۃ المائدہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا: '' آج میں نے تمھارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے''۔ اس الہامی اور نظریاتی دین کا عظیم مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کے طرز زندگی میں اعتدال و توازن بر قرار رہے۔ جس کی وجہ سے افراد کی زندگی میں وہ ثمرات ظہور پذیر ہوں، جس سے پورا معاشرہ امن و سکون اور اطمینان و راحت کا گہوارہ بن جائے۔