ایک نظر حلقہ ارباب ذوق امریکا
بھارت کے کہیں زیادہ لوگ امریکا میں قیام پذیر ہیں مگر امریکا میں ہندی زبان کا کوئی اخبار نہیں نکلتا۔
ISLAMABAD:
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد تو اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ ملنے کی تمام تر رکاوٹیں ختم ہوجانی چاہیے تھیں مگر ایسا نہ ہوا بلکہ آج تک اردو زبان کے ساتھ سوتیلی زبان کا سلوک کیا جا رہا ہے، حکمران اس زبان کو محض گانے بجانے کی زبان تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، اردو کے نام کے نقارے بجائے جاتے ہیں، عالمی کانفرنسیں ہوتی ہیں مگر اردو کے نفاذ کے لیے کوئی سرکاری سطح پر کوشش نہیں کی جاتی۔ اردو زبان نہ صرف اپنے مدعا کی ادائیگی کی تمام صلاحیتیں رکھتی ہے بلکہ دقیق سے دقیق مفہوم کو سہل ترین انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اردو زبان کی وسعت کا یہ عالم ہے جیسے یہ کوئی سمندری طوفان ہے، اپنے اردگرد کی تمام ہواؤں کو سمیٹ لیتی ہے، ہر زبان کو اپنے ہی سانچے میں ڈھال لیتی ہے، ایک طرف طوفان ہے تو دوسری طرف رات کی رانی کی مہک اپنے جلو میں لیے خراماں خراماں ٹہلتی ہے، قدامت کے سما وار ایک ہاتھ میں تو دوسرے ہاتھ میں مائیکرو ویو، مختلف حرارتوں اور صورتوں کا سنگم، یہی ہے اردو کا آہنگ۔ باوجود اس کے کہ اردو زبان نے ایجادات کا سہرا اپنے سر پہ نہ سجایا، پھر بھی اپنے اندر جذب کرنے اور زبان میں قدم بہ قدم انگریزی کے ساتھ چلتے رہنے کی صلاحیت موجود ہے، دوسری زبانوں کی صوت کو سمو لینے کی صلاحیت کی وجہ سے ترقی کے تمام امتحانات کامیابی سے اردو زبان نے پاس کر لیے ہیں۔ ذرا غور تو فرمائیں کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے کتنا بڑا ملک ہے پاکستان کے مقابلے میں۔
بھارت کے کہیں زیادہ لوگ امریکا میں قیام پذیر ہیں مگر امریکا میں ہندی زبان کا کوئی اخبار نہیں نکلتا جب کہ امریکا میں اردو زبان کے 9 اخبار نکلتے ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اخبارات ادبی زبان اور بیان سے مزین ہیں اور ادبی صفحات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، بعد ازاں سیاسی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور اہمیت کی حامل ہے کہ کون سی خبر کتنی اہم ہے، بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اخبارات پاکستان کی سیاسی بصیرت کے ترجمان ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے اکثر شاعر و ادیب انھی اردو اخبارات پر انحصار کرتے ہیں اور اردو مشاعرے اور ادبی نشستوں میں جاکر اپنے من کی پیاس بجھاتے ہیں۔
آفریں ہو ان ادب نواز اور اردو زبان کے شیدائیوں پر جو جہاں بھی جاتے ہیں اپنی زبان کی نشوونما پر زور دیتے ہیں، مگر پاکستان جس مخصوص علاقے کو اس زبان سے نسبت رہی ہے وہاں پر محض اس لیے اس زبان کا نفاذ نہ ہوا کہ مراعات یافتہ طبقہ انگلستان جاکر انگریزی زبان کی شدبد سیکھ کر آتا رہا اور حکمرانی کرتا رہا، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طبقے کو نہ ہی انگریزی پر عبور ہے اور نہ ہی یہ اردو پر دسترس رکھتا ہے، محض حکمرانی کے رموز سے آشنا ہوجاتا ہے مگر خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے جو امریکا جیسے ملک میں جہاں لوگوں کے پاس وقت کی تیزی ان کو خنجر کی طرح کاٹتی ہے، اور محنت شاقہ کا ڈالر ان کو تھکا ڈالتا ہے دونوں کو خرچ کرکے اپنی زبان کی آبیاری میں مصروف ہیں۔
امریکا کے دو شہروں نیویارک اور ورجینیا میں سرگرم حلقہ ارباب ذوق موجود ہے، پہلے حلقہ ارباب ذوق لاہور سے آئے ہوئے افراد نے نیویارک میں آباد کیا، تاریخی طور پر کچھ شاعر و ادیب اس وقت پنجاب سے نیویارک آئے جب ایوب خان نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا، اہل ادب کو یہ بات پسند نہ آئی، آنے والوں میں ''جوہر میر'' پروفیسر ماموں بھی تھے۔ بعدازاں کہا جاتا ہے کوئی مستند تاریخ نہیں مگر جوہر میر صاحب نے نیویارک کی محفل سجانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جن لوگوں نے بزم نیویارک کو مزید مستحکم کیا ان میں صوفی مشتاق، کامل احمر، ڈاکٹر طاہر خان، ڈاکٹر شفیق شامل ہیں۔ 1974 کے بعد جن لوگوں نے اس کے دامن کو مزید وسعت دی ان میں پروفیسر یونس شرر جو ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی اور ریڈیو پاکستان کی بزم طلبہ کی رونق تھے، آج کل شدید علیل ہیں لوگ ان کے گھر پہ جاکر رائے مشورے کرتے ہیں۔
آج کل نیویارک کا حلقہ ارباب ذوق کافی وسیع تر ہوگیا ہے کیونکہ اردو زبان بیرون ملک بھی رزق پہنچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ امریکا کی اکثر یونیورسٹیاں اردو زبان کے پروفیسر سے آراستہ ہیں۔ وسکانسن یونیورسٹی میں 3 عدد پروفیسر، اسی طرح بوسٹن یونیورسٹی، نیوجرسی اور دیگر بڑے شہروں میں اردو زبان اعلیٰ نوکری کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ بیرونی دنیا کو اندازہ ہے کہ اس زبان کو سمجھنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ پھر حلقہ ارباب ذوق کے ارکان اس بزم کو فعال تر بنانے میں مصروف ہیں۔ خصوصاً ڈاکٹر ماجد علی جو ایک معروف ڈاکٹر ہونے کے علاوہ انگریزی زبان کے شاعر بھی ہیں، ان کی ایک انگریزی نظموں کا مسودہ جو ڈرون ڈیموکریسی کے نام سے ہے خاصی معروف کتاب ہے جو انگریزی نظموں کا مجموعہ ہے۔
کراچی کے ایک معروف وکیل قسیم واسطی بھی امریکا میں وکالت کے علاوہ اس بزم کو بھی سجانے میں فعال نظر آرہے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے علاوہ ورجینیا میں بھی ایک الگ حلقہ موجود ہے۔ شہر کی وسعت کے اعتبار سے ورجینیا، نیویارک سے نسبتاً چھوٹا اور اردگرد کی آبادی بھی کم ہے، پھر بھی اردو زبان کی بزم یہاں بھی ابوالحسن نغمی نے سجائی ہے اور یہاں بھی ہر ماہ باقاعدگی سے محفل سجائی جاتی ہے، جہاں برصغیر کے قلم کار اپنی کتب کی رونمائی کرتے ہیں، چھوٹے ادبی پروگرام ہوتے ہیں۔ مگر کراچی آرٹس کونسل میں عام طور پر جو کتب کی رونمائی ہوتی ہے اس میں لاکھوں کی تعداد کم ہوتی ہیں جب کہ نیویارک کی مجلس نسبتاً بڑی ہوتی ہے۔
اردو ادب کے شائقین کی دلچسپی کا اندازہ آپ اس جذبے سے لگا سکتے ہیںکہ اگست میں جب وہاں کے منتظمین نے میری کتاب ''فکر و نظر'' رونمائی کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر سنجیدہ ہیں۔ میں کتاب کی 100 جلدیں وہاں لے گیا تھا جس میں نوجوانی اور بچپن کے حالات، وقت کیسے اور کن لوگوں کی صحبت میں گزرا، انشایے، ادبی سائنسی مضامین اور کالم شامل تھے۔ پروگرام ابھی اپنے اختتام پہ تھا کہ ڈاکٹر ماجد نے صاحب صدر سے اجازت مانگی کہ وہ ایک اعلان کرنا چاہتے ہیں، سو وہ اعلان ہوا، ڈاکٹر ماجد نے فرمایا کہ وہ تمام کتابیں خرید کر شرکا محفل میں تقسیم کریں گے اور جو لوگ کتابیں کم ہونے کے باعث کتابیں نہ پاسکیں گے ان کو منگوا کر دیں گے۔ حلقہ ارباب ذوق نے نہ صرف اردو زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ اردو زبان کے ساتھ جو ثقافت جڑی ہوئی ہے یہ حلقہ اس کی بھی پاسداری کرتا ہے۔
اس حلقہ ادب میں مرد و زن دونوں موجود ہیں اور اپنی شناخت کی مسلسل آبیاری میں مصروف ہیں۔ اردو زبان نہ صرف اپنے ملک پاکستان میں رابطہ کا ذریعہ اور ذریعہ معاش ہے بلکہ امریکا میں یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے کی وجہ سے وہاں بھی اردو زبان کے اساتذہ کے لیے سلسلہ روزگار بھی ہے مگر پاکستانی سیاست دانوں کو اردو زبان کی بلندی کا ادراک نہیں ہے، وہ اگر چاہیں تو اردو زبان میں تقریر کرسکتے ہیں مگر نہ ان حضرات کی اردو درست ہے اور نہ انگریزی۔ اس لیے ملک کی بہتر رہنمائی کے لائق نہیں، اردو زبان کے ساتھ یہ زیادتی کبھی ختم نہ ہوگی کیونکہ پاکستان میں زبان کے ساتھ سیاست کھیلی جا رہی ہے، اردو زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ غیر ملکی حاکموں انگریز کی منتخب کردہ زبان ہے، وہ تو اس لیے انگریزی زبان کو ذریعہ بنائے ہوئے تھا کیونکہ تاج برطانیہ اور جمہوریت برطانیہ کو اسے انگریزی زبان میں مطلع کرنا ہوتا تھا مگر ان حکمرانوں کو بھی لگتا ہے کہ غیر ملکیوں کو جواب دینا پڑتا ہے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنی ہوتی ہے۔
حلقہ ارباب ذوق امریکا میں جو ارکان اس تنظیم سے منسلک ہیں وہ انسانی اقدار سے بخوبی واقف ہیں، وہ آپس میں ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں، اردو کی حیثیت کی بنا پر چند بھارتی بھی اس تنظیم میں شامل ہیں مگر اردو اخبارات کا اپنا مخصوص سیاسی انداز ہے، وہ عام طور پر پاکستانی مفادات کے سیاسی علمبردار ہیں، اس کی وجہ اردو زبان اور ادب کا ان پر بڑا اثر ہے۔ پاکستان سے اگر کوئی حلقہ ارباب ذوق کا ٹھکانہ معلوم کرنا چاہے تو وہاں کے اردو اخبارات کے دفاتر سے رجوع کرسکتا ہے، وہ انسانی ہمدردی کے طور پر کام بھی آتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حلقہ ارباب ذوق امریکا پڑھے لکھے، دوربیں، سخن دل نواز اور دل نشیں تحریر لکھنے والوں کا ایک ادارہ ہے، اور ہمہ وقت اردو زبان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔