بھٹو مودودی ملاقات اور حسین مودودی کی وضاحت
لاہور شہر میں حالات بہت کشیدہ تھے۔ بھٹو مرحوم خود لاہور میں موجود تھے۔
چند دن ہوئے ''بھٹو مودودی'' ملاقات کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔ بعد میں محترمہ گورمانی صاحبہ نے اپنے بارے میں ذکر پر چوہدری اعتزاز احسن کے توسط سے وضاحت بھجوائی جو شایع کر دی گئی اب مولانا مودودی کے صاحبزادے حسین صاحب نے امریکا سے ایک خط بھجوایا ہے اس کی طوالت کی وجہ سے اسے مختصر کرنا پڑا لیکن اصل مفہوم واضح ہے۔ اس خط میں بعض اہم معلومات ہیں جو قارئین پسند کریں گے۔ اب یہ خط ملاحظہ فرمائیں۔
حال ہی میں میرے ایک محترم دوست عبدالقادر حسن کا ایک آرٹیکل روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا۔ جس میں محترم نے مولانا مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی اُس ملاقات کا احوال لکھا ہے جو مولانا مرحوم کی رہائش گاہ واقع 5 اے ذیلدار پارک اچھرہ، لاہور میں ہوئی تھی۔ حقائق اُس سے بالکل مختلف ہیں، جو کہ برادرم عبدالقادر حسن نے بیان کیے۔ مَیں ریکارڈ کی درستی کے لیے اپنی زیرِ طبع کتاب سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں جو کہ اِسی ملاقات کے بارے میں ہے۔
مَیں واحد وہ شخص ہوں جو اُس اہم تاریخی ملاقات کا عینی شاہد ہے۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب بھٹو مرحوم کے خلافPNA کی تحریک آخری دور سے گزر رہی تھی۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور اسی روز رتن سینما کو آگ بھی لگائی گئی تھی۔ لاہور شہر میں حالات بہت کشیدہ تھے۔ بھٹو مرحوم خود لاہور میں موجود تھے۔ صبح10 بجے کے قریب مَیں اور میرے ایک ساتھی چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم اپنی گاڑی میں گھر سے نکل رہے تھے کہ دیکھا ایک بلیک مرسڈیز میں پچھلی سیٹ پر ایک طرف اُس دور کے آئی جی پولیس راؤ رشید بیٹھے تھے، بیچ میں پیر محمد اشرف مرحوم جو کہ اُس وقت پنجاب کے امیر جماعت تھے۔
دوسری طرف کوئی اور افسر جس سے میں واقف نہ تھا داخل ہو رہے ہیں۔ میں نے فوراً گاڑی موڑی اور گھر واپس آ گیا۔ اس دوران پیر اشرف مرحوم، راؤ رشید اور دوسرے ہمراہی کو ملاقاتی کمرے میں بٹھا کر والد مرحوم کے دفتر میں داخل ہو رہے تھے۔ مَیں نے اُن کو باہر ہی روک لیا اور راؤ رشید کو ہمراہ لانے کا سبب جاننا چاہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ چلو مولانا کے سامنے بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں والد مرحوم کے دفتر میں داخل ہوئے۔ پیر اشرف نے سلام دعا کے بعد عرض کیا کہ راؤ رشید جو کہ چوہدری نیاز علی مرحوم کے بھتیجے ہیں وہ آپ کو سلام کرنے آئے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ بلا لیں۔
اس پر میں نے پیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور والد صاحب سے عرض کیا کہ راؤ رشید پنجاب کا آئی جی پولیس ہے اور اس وقت آپ کا اُس سے ملنا خطر سے خالی نہیں ہے لیکن انھوں نے جواب دیا کہ ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ پیر اشرف ان دونوں حضرات کو لینے کے لیے چلے گئے۔ مَیں نے پھر والد مرحوم کو بتایا کہ ساری بربریت جو لاہور میں ہو رہی ہے وہ اسی آئی جی کے حکم سے ہو رہی ہے۔ اتنی دیر میں دونوں مہمان کمرے میں داخل ہو گئے اور والد مرحوم سے ہاتھ ملانے کے بعد سامنے کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ مَیں بھی بیٹھ گیا۔ راؤ رشید نے والد سے علیحدگی میں ملنے کی درخواست کی جس پر والد مرحوم نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا۔ اس پر میں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا لیکن والد مرحوم کے حکم پر مَیں پیر اشرف اور دوسرے ہمراہی کے ساتھ کمرے سے باہر آ گئے۔
باہر آ کر میں نے پیر اشرف کو متنبہ کیا کہ اگر اس ملاقات کے کچھ منفی اثرات مرتب ہوئے تو پھر وہ خود نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ بہرحال کوئی آدھ پون گھنٹے کی ملاقات کے بعد وہ تینوں حضرات واپس چلے گئے۔ میں واپس اپنے والد مرحوم کے پاس گیا اور اُن حضرات کے آنے کا سبب جاننا چاہا لیکن انھوں نے مجھے ٹال دیا۔ انھوں نے دوبارہ بات کو ٹالتے ہوئے مجھے شام کو ملنے کا کہا۔ میں سارا دن بہت پریشان رہا اور عصر کی نماز کے بعد پھر والد مرحوم کے پاس گیا اور سبب جاننا چاہا۔ جس پر انھوں نے بتایا کہ بھٹو مرحوم رات 9 بجے اُن سے ملنے آ رہے ہیں ( یعنی جس کا خطرہ تھا و ہی ہو گیا) انھوں نے بتایا کہ راؤ رشید نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ بھٹو مرحوم گورنمنٹ ہاؤس سے اچھرہ تک بغیر کسی ٹریفک کو روکتے ہوئے، بغیر کسی پولیس گارڈ اور سائرن کے اُن کے گھر تشریف لائیں گے۔
اُن کی گلی سے گھر تک اور واپسی تک وہ اُن کے مہمان ہونگے اور اُن کی حفاظت اُن ( یعنی مولانا مرحوم) کے ذمے ہو گی۔ چنانچہ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اُن کی آمد اور بحفاظت رخصتی کا انتظام کرو اور اس خبر کو بالکل خفیہ رکھا جائے۔ چنانچہ مَیں نے سب سے پہلے سلطان مرحوم کو اعتماد میں لیا۔ جو کہ میرے والد مرحوم کے سیکریٹری تھے اور وہ واحد جماعت اسلامی کے آدمی تھے جو کہ جماعت کے دفتر کی منتقلی کے بعد بھی5 اے ذیلدار پارک میں رہ گئے تھے۔ سلطان صاحب نے میرے والد مرحوم کی خواہش کے مطابق منصورہ والوں کو بے خبر رکھا۔ مَیں نے اسلامی جمعیت طلبا کے چند دوستوں کو اعتماد میں لیا اور ان کے ذمے بھٹو صاحب کی بحفاظت آمد اور واپسی کا انتظام کرنے کو کہا۔
رات8 بجے راؤ رشید اور دیگر پولیس افسران ہمارے ہاں پہنچ گئے اور والد مرحوم کے سیکریٹری کا کمرہ سنبھال لیا۔ ساڑھے آٹھ بجے انھوں نے گھر کے باہر کی تمام بتیاں گُل کرا دیں۔ جس پر مَیں نے راؤ رشید سے کہا کہ اس طرح لوگوں کو شک ہو جائے گا کہ یہاں کوئی خفیہ کاروائی ہو رہی ہے لیکن اُس مغرور پولیس افسر نے میری بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اسی دوران پیراشرف مرحوم بھی آ موجود ہوئے۔ اُن کے کپڑے خون آلود اور پھٹے ہوئے تھے، سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے پر زخم تھے۔ راؤ رشید نے بھٹو مرحوم کو آنے کا Signal دیا۔
مرحوم اس وقت گورنمنٹ ہاؤس میں ایک اہم میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اچانک وہ میٹنگ سے اٹھے اور باقی حضرات کو میٹنگ جار ی رکھنے اور ایک گھنٹہ بعد کی واپسی کا عندیہ دیکر ہمارے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس طرح اچانک جانے پر بھٹو مرحوم کے پرائیویٹ سیکریٹری افضل سعید خان مرحوم کا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے ہماری ممانی عابدہ گورمانی کو فوراً ہمارے ہاں جانے کو کہا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مرحوم اس طرح اچانک بغیر کسی پروگرام کے ایک ہی جگہ جا سکتے ہیں اور وہ ہے مولانا مودودی مرحوم کا گھر۔ مولانا مرحوم سے ملاقات طے کرنے کے لیے بھٹو صاحب کئی بار افضل سعید سے کہہ چکے تھے۔
دراصل افضل سعید خان مرحوم رشتہ میں ہمارے خالو تھے اُن کی اہلیہ ہماری والدہ کی فرسٹ کزن تھیں۔ اُن کے سگے بھائی امین اللہ خواجہ مرحوم ہمارے ماموں تھے جن کی اہلیہ عابدہ گورمانی جو کہ نواب مشتاق احمد گورمانی کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ چنانچہ عابدہ گورمانی اُس ملاقات کے دوران ہمارے گھر آ گئیں جب کہ اُس وقت تک گھر میں ہماری والد مرحومہ بھی بھٹو مرحوم کی آمد سے لاعلم تھیں۔ ملاقات سے قبل کئی دفعہ امین ماموں اور ممانی عابدہ گورمانی نے افضل سعید خان کے کہنے پر بھٹو، مودودی ملاقات کرانے کی کوشش کی لیکن ہم کچھ بہن بھائی احتیاطاً راستے میں رکاوٹ بنے رہے۔
(جاری ہے)