ناموں کا افشا اہم ہے یا کارروائی
بحر حال اب حکومت کے پاس بیرون ملک دولت جمع کرنیوالوں کےنام آ گئے ہیں بلکہ یہ نام تو کئی مہینے پہلےہی موصول ہو گئے تھے
بیرونی ممالک میں غیر قانونی بینک اکاؤنٹ رکھنے والوں کے بارے میں اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی کہ جن کو چند روز قبل معافی دیدی گئی ہے لیکن ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کا تعلق دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں' کانگریس اور بی جے پی' سے ہے۔ بصورت دیگر اسمبلی میں جو شور و غوغا ہو رہا تھا وہ اتنی جلدی بند نہ ہو جاتا۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈروں کے بارے میں ذرا سا اشارہ بھی نہیں دیا گیا کہ آخر انھوں نے اتنی بڑی رقوم کس طرح نہ صرف اکٹھی کیں بلکہ بیرون ملک بھی منتقل کر دیں اور ایسی باتوں کو روکنے کے لیے کسی اقدام کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
بیرون ملک دولت جمع کرنا ایک جرم ہے۔ لہٰذا وہ سب لوگ مجرم ہیں جنہوں نے بیرونی ممالک میں دولت چھپا رکھی ہے تاہم یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آخر حکومت ان کے نام ظاہر کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی قصور وار ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتیں کہ ان کی ساکھ خراب ہو لہٰذا دونوں پارٹیاں بہت کچھ چھپا رہی ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابات کے دوران کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں لہذا ان کے لیے اپنی غیر قانونی دولت چھپانے کے لیے بیرونی ممالک محفوظ جنت کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے وہ نہ صرف لوگوں کی توجہ سے بچ جاتی ہیں بلکہ بہت بھاری مقدار میں ٹیکس بھی بچا لیتی ہیں۔
بھارت کے لوگوں کو البتہ جرمنی کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے ناموں کا افشا کر دیا ہے۔ جرمنی کے ایک بینک نے ناموں کی فہرست تیار کر کے بھارتی حکومت کے حوالے کر دی ہے۔ ہمارے ملک کی کوئی خفیہ ایجنسی اس فہرست کی فراہمی کا سہرا اپنے سر نہیں باندھ سکتی۔ لیکن جرمنی نے ان کے نام کیوں بھارت کو دیے ہیں اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ اگر اس حوالے سے بھارتی حکومت کا کوئی دباؤ تھا تو وہ یقیناً رنگ لے آیا ہے۔ جب یہ بات ظاہر ہوئی کہ بھارت کے کم از کم 800 افراد کی دولت بیرون ملک بینکوں میں پڑی ہے تو عوام مشتعل ہو گئے۔ یقیناً اور بھی بہت سے نام ہونگے جو ابھی تک ظاہر نہیں ہو سکے۔ بیرون ملک رکھی گئی دولت کی مقدار چھ لاکھ کروڑ روپے سے متجاوز بیان کی گئی ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو سرکاری خزانے کی پتلی حالت نے نئی دہلی حکومت کو بیرون ملک سفارتی نمایندوں کو خط لکھنے پر مجبور کیا کہ وہ کہ وہاں مقیم بھارتی شہریوں سے ملک کے لیے امداد طلب کریں۔ میں نے بھی بھارتی نژاد لوگوں سے بڑی درد مندانہ اپیل کی لیکن اس وقت مجھے بہت حیرت ہوئی جب جرمن سفیر نے مجھے بتایا کہ بھارتی نژاد لوگوں کے سوئس بینکوں میں اتنی بھاری رقوم موجود ہیں کہ وہ کئی پانچ سالہ منصوبوں کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔
بحر حال اب حکومت کے پاس بیرون ملک دولت جمع کرنیوالوں کے نام آ گئے ہیں بلکہ یہ نام تو کئی مہینے پہلے ہی موصول ہو گئے تھے جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سربراہی میں کانگریس کی حکومت قائم تھی لیکن اس نے سیاسی وجوہات کی بنا پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم نریندر مودی جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے اندر اندر ایسے تمام لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے لیکن اب جب کہ انھیں اقتدار میں آئے سات مہینے گزر چکے ہیں تو بمشکل ہی کوئی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ من موہن سنگھ کی حکومت نے وہ نام آگے پہنچا دیے ہیں جو انھیں اپنی حکومت کے دوران موصول ہوئے تھے لیکن کانگریس کی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی تھی کانگریس کے ترجمان نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ تکلیف دہ سوالوں کے کبھی جواب نہیں دیے جاتے۔ ناموں کا افشاء کرنا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔
مودی کی حکومت نے بھی مقدس گائیں موجود ہیں۔ اس حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کی بعض کمپنیوں کے نام لیے ہیں۔ جن تین کمپنیوں کے نام مودی حکومت نے ظاہر کیے ہیں غالباً یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کو یہ حکومت نرغے میں نہیں لا سکی۔ مزید برآں صرف کارپوریٹ سیکٹر پر توجہ مرکوز کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس طرح عوام کی توجہ سیاسی دنیا سے ہٹائی جا سکے۔ اس کوشش کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ غیر قانونی دولت میں صرف کارپوریٹ سیکٹر ہی ملوث تھا۔ یہ بات درست بھی ہے کیونکہ انتخابات کے دوران جو ہزاروں کروڑ روپے کی رقم استعمال ہوتی ہے وہ کارپوریٹ سیکٹر سے ہی آتی ہے لیکن یہ ساری رقم کالے دھن میں ہی شمار ہوتی ہے جو ناجائز طریقے سے کمائی جاتی ہے اور یہ سارا سیاست دانوں کا کھیل ہے خواہ وہ اقتدار کے اندر ہوں یا اقتدار سے باہر ہوں۔ جب دولت بدعنوانی سے اکٹھی کی جا رہی ہوتی ہے تو وہ اپنا دھیان دوسری طرف کر لیتے ہیں۔
اور یہ بات کہ مودی ان مخصوص مفادات رکھنے والوں کے خلاف لڑائی کریں گے جنہوں نے سیاست کو آلودہ کر دیا ہے کیونکہ وہ اپنی ہر تقریر میں شفافیت پر بہت زور دیتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ سوائے اس کے کہ انھوں نے کاروباری افراد اور بیوروکریٹس کو اپنی بدعنوان کارروائیوں میں پہلے سے زیادہ محتاط کر دیا ہے لیکن کرپشن کسی طور پر بھی کم نہیں ہوئی۔ اب بھی وقت ہے کہ مودی موصولہ ناموں کو نیٹ پر ڈال کر اپنی ساکھ بحال کر سکتے ہیں اور ان میں سے کن کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے اس کا فیصلہ ثبوت ملنے پر کیا جا سکتا ہے۔
ناموں کا افشاء کم از کم انھیں اس ذمے داری سے بچا سکتا ہے کہ وہ کرپشن کو عوام سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کرپشن کی کوئی اکلوتی مثال نہیں ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق دیوالی کی آتشبازی پر 3000 کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم خرچ کی گئی۔ دسہرے پر بھی کروڑوں کے حساب سے اخراجات ہوئے اور یہ سب علیحدہ علیحدہ اخراجات تھے۔
ایک ایسا ملک جس کی ایک تہائی آبادی رات کا کھانا کھائے بغیر سونے پر مجبور ہے اس میں بے حسی کی ایسی مثالیں قابل صد مذمت ہیں۔ میں نے سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کو اس ضمن میں سڑکوں پر کبھی احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔ معاشرہ اس حوالے سے لاتعلق ہے کیونکہ جو آواز بلند کرنے والے اور رائے عامہ کو تشکیل دینے والے ہیں وہ خود اس کرپشن کا حصہ ہیں۔ وہ بھلا کوئی حل کیوں دینے لگے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)