کل تک جنہیں غرور تھا یاں تخت و تاج کا
قانون کی خلاف ورزی کرنے والا جلدی پکڑا جاتا ہے جس کا چالان ہو گیا اسے ہر حال میں جرمانا ادا کرنا ہے۔
ایک اخباری رپورٹ میں ہم نے پڑھا کہ ایک امریکی اسکالر واشنگٹن سے چلیں اور لندن پہنچیں۔ اس بی بی نے پاکستان پر ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ ظاہر ہے اس نے اس علاقہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہاں کے لوگوں کے لچھن دیکھے ہوں گے۔ ایشیائی علاقوں میں رشوت کا چلن خوب ہے۔ سرکاری ڈیوٹی دینے والے ہر قسم کے کرتوت کو روا جانتے ہیں۔ چالان کرنا اور پھر پیسے لے کے چھوڑ دینا یہاں کا عام مشغلہ ہے۔ مگر ان معاملات میں انگریزوں کی شہرت اچھی چلی آتی ہے۔
قانون کی خلاف ورزی کرنے والا جلدی پکڑا جاتا ہے جس کا چالان ہو گیا اسے ہر حال میں جرمانا ادا کرنا ہے۔ مگر اس امریکی بی بی کا تجربہ مختلف ہے۔ بتاتی ہے کہ دور کے ڈھول سہانے۔ میں نے تو یہاں کچھ اور ہی نقشہ دیکھا، ہیتھرو کے مقام پر میرے ڈرائیور نے جانتے بوجھتے کہ یہاں گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے گاڑی کھڑی کر دی۔ جلدی ہی پکڑ ہو گئی۔ ڈیوٹی دینے والے نے چالان کر دیا، جرمانے کی سلپ فوراً کاٹ کر ڈرائیور کے حوالے کی۔ مگر اس کے بعد کہنے لگا کہ مجھے پونڈ دو تو ابھی سلپ میں پھاڑے دیتا ہوں۔ ڈرائیور نے بلا تکلف پانچ پونڈ اس کے ہاتھ میں پکڑائے اور اس نے پونڈ اپنی جیب میں رکھے اور جرمانے کی سلپ پھاڑ کر الگ پھینکی میں نے یہ منظر دیکھا تو میں تو ہکا بکا رہ گئی۔ ارے انگریزوں کی اب یہ حالت ہو گئی ہے آخر یہ ڈیوٹی دینے والا کوئی کالی پیلی مخلوق تو نہیں تھا۔ گوری مخلوق ہی کا فرد تھا۔ تب میں نے سوچا کہ قانون کی سخت گیری ہو گی یہاں کسی بھلے زمانے میں۔ اب تو یہاں بھی قانون نافذ کرنے والے اس طرح کے چکر چلاتے ہیں۔ سودے بازی کرتے ہیں اور جیب گرم کرتے ہیں۔
اس بی بی کا تعجب بھی اپنی جگہ بجا ہے مگر اسے یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ انگریزوں کی اچھی شہرت اپنی جگہ مگر یہ شہرت اس کی اقبال مندی کے زمانے میں قائم ہوئی تھی۔ وہ زمانہ جب برطانوی سلطنت میں کسی بھی وقت سورج غروب نہیں ہوتا تھا راج کا وہ زمانہ تو گزر گیا۔ اب نہ دولت کی وہ ریل پیل ہے نہ گوروں کے وہ ٹھاٹ باٹ ہیں، نہ وہ شان کہ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ اب بھرم بھاری پٹارا خالی والا معاملہ ہے۔ ویسے بھرم بھی اتنا جیسا بھاری نہیں ہے۔
پھر جیسے بھی حالات ہوں اس کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے اور آخر آدمی کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں پاکی داماں کی حکایت کتنی دیر تک چل سکتی ہے اور لندن کے گوروں کا معاملہ یہ ہے کہ آخر انھوں نے اتنا زمانہ ہندوستان میں راج کا گزارا ہے۔ انھوں نے یہاں کے محکموں میں سرکاری ملازموں کے طور طریقے دیکھے ہوں گے۔ رشوت کا چلن بھی دیکھا ہو گا۔ محکموں کے ملازموں کی قانون کے پاسبانوں کو خلاف ورزی کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ بھی کرتے دیکھا ہو گا اور پکڑ دھکڑ کے بعد رشوت لے کر انھیں چھوڑتے بھی دیکھا ہو گا اور اب تو خود ان کے ملک میں ہندوستان پاکستان کے کتنے لوگ آ کر بس گئے ہیں اور وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ ؎
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگارے ساتھ لاتے ہیں
یہاں آنے والے آخیر اپنے ایسے ہنر اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں تو آدمی آخر آدمی ہی سے سیکھتا ہے اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ امریکی خاتون نے گورے بابو کو خلاف ورزی کرنے والے سے جو معاملہ کرتے دیکھا اس سے اسے یہ جان لینا چاہیے تھا کہ ان گوروں نے ابھی اپنے زمانۂ سابق کی رعایا سے ایسے ہنر سکھ لیے ہیں اور انگلستان کی مخلوق کے راج کے زمانے میں جو بھی اخلاقی حالت رہی ہو بہرحال ہیں تو آدمی کے بچے ہی، فرشتے تو نہیں ہیں۔ اب بدلے ہوئے حالات نے دونوں کو ایک ہی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
سنتے یہ ہیں کہ لندن کے کالے زیادہ بدنام ہیں۔ اس شہر میں ان کاا پنا ایک علاقہ ہے۔ اس علاقے سے جو دوسرے رنگ کا آدمی گزرتا ہے اس کے ساتھ کچھ اس قسم کی واردات ہوتی ہے کہ؎
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
اس شہر میں جو پاکستانی جا کر بس گئے ہیں ان میں ایسے بھی تو ہیں جو ہمارے دوست ہوا کرتے تھے ان سے بات کرو تو وہ کالوں کے علاقے سے گزرنے والوں کو یہ مشورہ دیتے نظر آئیں گے کہ اس علاقے سے آپ کو گزرنا ہے تو لمبی رقم جیب میں مت رکھیں مگر جیب بالکل خالی بھی نہیں رہنی چاہیے۔ اتنی رقم جیب میں رکھو کہ وہ جیب پر دست درازی کریں تو انھیں مایوسی سے سابقہ نہ پڑے، ورنہ وہ تمہارے خلاف متشددانہ کارروائی کریں گے۔ انھیں اپنی ضرورت کے مطابق غذا درکار ہوتی ہے۔ ان کی اس ضرورت سے ادھر سے گزرنے والوں کو مفر نہیں ہے۔
باقی پاکستان سے چل کر جو مخلوق وہاں جا کر آباد ہوئی ہے ان سے اس طرح کا خطرہ تو کسی راہ گیر کو نہیں ہوتا۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنا ہنر دکھاتے ہیں۔ سنا ہے کہ وہاں انڈر گراؤنڈ ریل میں بیٹھنے کے لیے مشین میں جو سکہ ڈالنا پڑتا ہے اسے بچانے کے لیے ایسا ہنر نکالا ہے کہ سکہ اپنی مانگ پوری کرکے واپس آ جاتا ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ بچت یار لوگ اس طریقہ سے بھی کرتے ہیں۔
مطلب یہ کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے تو نہیں جاتا۔ بڑی واردات نہ کر سکیں مگر جو چھوٹی چھوٹی فریب کاریاں، چلاکیاں انھوں نے کسی بھلے وقت میں سیکھی تھیں کیا ان سے بھی جائیں۔ اس قسم کی کارروائیوں سے انھیں کتنی یافت ہوتی، بہت تھوڑی، مگر اصلی تو قیمت یہ ہے کہ مانا وہ اپنا ہنر دکھا کر اس سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔
قانون کی خلاف ورزی کرنے والا جلدی پکڑا جاتا ہے جس کا چالان ہو گیا اسے ہر حال میں جرمانا ادا کرنا ہے۔ مگر اس امریکی بی بی کا تجربہ مختلف ہے۔ بتاتی ہے کہ دور کے ڈھول سہانے۔ میں نے تو یہاں کچھ اور ہی نقشہ دیکھا، ہیتھرو کے مقام پر میرے ڈرائیور نے جانتے بوجھتے کہ یہاں گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے گاڑی کھڑی کر دی۔ جلدی ہی پکڑ ہو گئی۔ ڈیوٹی دینے والے نے چالان کر دیا، جرمانے کی سلپ فوراً کاٹ کر ڈرائیور کے حوالے کی۔ مگر اس کے بعد کہنے لگا کہ مجھے پونڈ دو تو ابھی سلپ میں پھاڑے دیتا ہوں۔ ڈرائیور نے بلا تکلف پانچ پونڈ اس کے ہاتھ میں پکڑائے اور اس نے پونڈ اپنی جیب میں رکھے اور جرمانے کی سلپ پھاڑ کر الگ پھینکی میں نے یہ منظر دیکھا تو میں تو ہکا بکا رہ گئی۔ ارے انگریزوں کی اب یہ حالت ہو گئی ہے آخر یہ ڈیوٹی دینے والا کوئی کالی پیلی مخلوق تو نہیں تھا۔ گوری مخلوق ہی کا فرد تھا۔ تب میں نے سوچا کہ قانون کی سخت گیری ہو گی یہاں کسی بھلے زمانے میں۔ اب تو یہاں بھی قانون نافذ کرنے والے اس طرح کے چکر چلاتے ہیں۔ سودے بازی کرتے ہیں اور جیب گرم کرتے ہیں۔
اس بی بی کا تعجب بھی اپنی جگہ بجا ہے مگر اسے یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ انگریزوں کی اچھی شہرت اپنی جگہ مگر یہ شہرت اس کی اقبال مندی کے زمانے میں قائم ہوئی تھی۔ وہ زمانہ جب برطانوی سلطنت میں کسی بھی وقت سورج غروب نہیں ہوتا تھا راج کا وہ زمانہ تو گزر گیا۔ اب نہ دولت کی وہ ریل پیل ہے نہ گوروں کے وہ ٹھاٹ باٹ ہیں، نہ وہ شان کہ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ اب بھرم بھاری پٹارا خالی والا معاملہ ہے۔ ویسے بھرم بھی اتنا جیسا بھاری نہیں ہے۔
پھر جیسے بھی حالات ہوں اس کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے اور آخر آدمی کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں پاکی داماں کی حکایت کتنی دیر تک چل سکتی ہے اور لندن کے گوروں کا معاملہ یہ ہے کہ آخر انھوں نے اتنا زمانہ ہندوستان میں راج کا گزارا ہے۔ انھوں نے یہاں کے محکموں میں سرکاری ملازموں کے طور طریقے دیکھے ہوں گے۔ رشوت کا چلن بھی دیکھا ہو گا۔ محکموں کے ملازموں کی قانون کے پاسبانوں کو خلاف ورزی کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ بھی کرتے دیکھا ہو گا اور پکڑ دھکڑ کے بعد رشوت لے کر انھیں چھوڑتے بھی دیکھا ہو گا اور اب تو خود ان کے ملک میں ہندوستان پاکستان کے کتنے لوگ آ کر بس گئے ہیں اور وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ ؎
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگارے ساتھ لاتے ہیں
یہاں آنے والے آخیر اپنے ایسے ہنر اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں تو آدمی آخر آدمی ہی سے سیکھتا ہے اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ امریکی خاتون نے گورے بابو کو خلاف ورزی کرنے والے سے جو معاملہ کرتے دیکھا اس سے اسے یہ جان لینا چاہیے تھا کہ ان گوروں نے ابھی اپنے زمانۂ سابق کی رعایا سے ایسے ہنر سکھ لیے ہیں اور انگلستان کی مخلوق کے راج کے زمانے میں جو بھی اخلاقی حالت رہی ہو بہرحال ہیں تو آدمی کے بچے ہی، فرشتے تو نہیں ہیں۔ اب بدلے ہوئے حالات نے دونوں کو ایک ہی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
سنتے یہ ہیں کہ لندن کے کالے زیادہ بدنام ہیں۔ اس شہر میں ان کاا پنا ایک علاقہ ہے۔ اس علاقے سے جو دوسرے رنگ کا آدمی گزرتا ہے اس کے ساتھ کچھ اس قسم کی واردات ہوتی ہے کہ؎
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
اس شہر میں جو پاکستانی جا کر بس گئے ہیں ان میں ایسے بھی تو ہیں جو ہمارے دوست ہوا کرتے تھے ان سے بات کرو تو وہ کالوں کے علاقے سے گزرنے والوں کو یہ مشورہ دیتے نظر آئیں گے کہ اس علاقے سے آپ کو گزرنا ہے تو لمبی رقم جیب میں مت رکھیں مگر جیب بالکل خالی بھی نہیں رہنی چاہیے۔ اتنی رقم جیب میں رکھو کہ وہ جیب پر دست درازی کریں تو انھیں مایوسی سے سابقہ نہ پڑے، ورنہ وہ تمہارے خلاف متشددانہ کارروائی کریں گے۔ انھیں اپنی ضرورت کے مطابق غذا درکار ہوتی ہے۔ ان کی اس ضرورت سے ادھر سے گزرنے والوں کو مفر نہیں ہے۔
باقی پاکستان سے چل کر جو مخلوق وہاں جا کر آباد ہوئی ہے ان سے اس طرح کا خطرہ تو کسی راہ گیر کو نہیں ہوتا۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنا ہنر دکھاتے ہیں۔ سنا ہے کہ وہاں انڈر گراؤنڈ ریل میں بیٹھنے کے لیے مشین میں جو سکہ ڈالنا پڑتا ہے اسے بچانے کے لیے ایسا ہنر نکالا ہے کہ سکہ اپنی مانگ پوری کرکے واپس آ جاتا ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ بچت یار لوگ اس طریقہ سے بھی کرتے ہیں۔
مطلب یہ کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے تو نہیں جاتا۔ بڑی واردات نہ کر سکیں مگر جو چھوٹی چھوٹی فریب کاریاں، چلاکیاں انھوں نے کسی بھلے وقت میں سیکھی تھیں کیا ان سے بھی جائیں۔ اس قسم کی کارروائیوں سے انھیں کتنی یافت ہوتی، بہت تھوڑی، مگر اصلی تو قیمت یہ ہے کہ مانا وہ اپنا ہنر دکھا کر اس سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔