مہنگائی پر کنٹرول مشکل کیوں
پاکستان اپنی ضروریات کا زیادہ تر آئل بین الاقوامی منڈی سے خریدتا ہے،تو پٹرول کی قیمت میں خودبخوداضافہ ہوتا چلاجاتا ہے
افراط زر یعنی تمام مصنوعات کی قیمتوں میں مستقل اضافہ ایک ایسی معاشی حقیقت ہے جس کا سامنا دنیا کے ہر ملک اور معیشت کو ہے، ہر حکومت اپنی معاشی ترجیحات میں اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ عام آدمی تک اس کے مضر اثرات نہ پہنچ سکیں۔ اور چونکہ اس کا تعلق ایک عام آدمی کے مسائل سے ہے چنانچہ اس کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کرنا کسی بھی حکومت کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف ہر اپوزیشن اس کو حکومت کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دنیا میں صرف ایک مسئلے کی وجہ سے حکومتوں کو رخصت ہونا پڑا۔ اس مسئلے کے اوپر تاریخ ساز جلسے، ریلیاں اور احتجاج کسی بھی حکومت کے لیے احساس ندامت کا باعث ہوتا ہے۔ پاکستان میں افراط زر (یعنی مہنگائی) کی بڑھتی ہوئی شرح قوم کے لیے ایک طویل عرصے سے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اور اگر ہم اس شرح کا پڑوسی ممالک یعنی بنگلہ دیش اور بھارت سے موازنہ کریں تو یقیناً ہم اس میں آگے نظر آتے ہیں۔
ایک ایسی قوم جو پہلے ہی بجلی اور گیس کی طویل بندش، دہشت گردی، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور اب سیلاب کے مستقل خطرے سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے اس کی اقتصادی شرح نمو کم ہوگئی ہے، اس کے لیے مہنگائی کے عذاب کو جھیلنا یقیناً ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ پاکستان میں متواتر مواقع پر تقریباً تمام حکومتیں اس مسئلے کا کوئی موثر حل نکالنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور اس میں کسی ایک حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا حق بجانب نہیں یعنی ہمارا پورا نظام اس مسئلے کے آگے اپنے گھٹنے ٹیکتا نظر آتا ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسا کیوں کر ممکن ہوا کہ یہ مسئلہ اب اس وقت اتنا پیچیدہ ہوگیا کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کے بہت سارے اسباب ہیں۔ سب سے پہلا سبب حکومتوں کی جانب سے بلاواسطہ (Indirect) ٹیکسز کی بھرمار ہے، جیسے پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس وغیرہ جس کی وجہ سے قیمتوں میں نمایاں اضافہ نظر آتا ہے۔ جب حکومت ہر شے پر 16 سے 17 فیصد سیلز ٹیکس لے گی اور ایک لیٹر پٹرول پر تقریباً 30 روپے کے قریب ٹیکس لیا جائے گا تو روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں خودبخود اضافہ ہوجائے گا۔
چونکہ پاکستان میں Direct Taxes کو اکٹھا کرنے کی شرح بہت کم ہے، لہٰذا حکومت اپنی شرح کو پورا کرنے کے لیے ان ٹیکسز کا سہارا لیتی ہے۔ چونکہ ان بلاواسطہ ٹیکسز کو چوری کرنا انتہائی مشکل امر ہے اور کیونکہ یہ قیمتوں میں شامل کرلیے جاتے ہیں لہٰذا حکومت کو آسانی سے ان ٹیکسز کا ہدف حاصل ہوجاتا ہے اور ان کا حقیقی بوجھ ایک عام صارف پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں پڑتا ہے۔ دوسرا سبب متواتر حکومتوں کی طرف سے کرنسی نوٹ چھاپنے کی روایت ہے (جس میں سابقہ حکومت نے تو سارے پرانے ریکارڈ توڑ ڈالے) جس کی وجہ سے مارکیٹ میں پیسے کی قدر کم ہوجاتی ہے اور چیزیں خودبخود مہنگی ہوجاتی ہیں۔
تیسرا سبب ہماری کرنسی کی Depreciation جس سے اس کی خریدنے کی استطاعت کم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں اور کیونکہ ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے۔ اس لیے مہنگائی کا وقوع پذیر ہونا لازمی امر ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کا زیادہ تر آئل بین الاقوامی منڈی سے خریدتا ہے، تو پٹرول کی قیمت میں خودبخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور مہنگائی کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ جوکہ پچھلے کچھ سال میں مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہے۔ البتہ گزشتہ دنوں کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں پچھلے چار سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں، جس کی وجہ سے کم ہوتی ہوئی طلب اور بڑھتی ہوئی رسد ہے اور لوگوں کو کچھ دن کے لیے اس میں ریلیف ملتا نظر آرہا ہے۔ البتہ حکومت نے اس کمی کو پورے تناسب کے ساتھ عوام کو منتقل نہیں کیا ہے اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں معمولی کمی کی گئی ہے۔
جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حکومت اس کو اپنی ٹیکس آمدنی کا ایک اہم حصہ سمجھتی ہے اس وجہ سے حکومت نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ کیونکہ سیلاب کے نقصانات کی وجہ سے حکومت کی طرف سے متوقع ہدف اب شاید پورا نہ ہوسکیں اور بہت سارے ماہرین کے نزدیک یہ ہدف غیر حقیقت پسندانہ حد تک زیادہ رکھا گیا ہے، جوکہ ٹیکس ریفارمز کیے بغیر پورا کرنا ایک ناممکن امر لگتا ہے۔ چوتھا سبب قدرتی عوامل ہیں جن کی وجہ سے فوڈ آئٹمز جیسے سبزیوں اور پھلوں کی فصلوں کو پہنچنے والے غیر متوقع نقصانات ہیں، جس سے مارکیٹ میں ان کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے اور طلب کے مستقل ہونے کی وجہ سے ان اشیا کی قیمتیں لازمی طور پر اوپر چلی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد اربوں روپے کی فصلوں کے ضایع ہونے کی وجہ سے آیندہ آنے والے کچھ مہینوں میں مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خدشہ ہے، جس کو کنٹرول کرنا شاید حکومت وقت کے لیے اتنا آسان نہ ہو۔ مہنگائی کی اس لہر کا ایک اور سبب انتظامی غفلت اور ملک میں بڑھتی ہوئی مصنوعی قلت یعنی مافیا کا وجود ہے جوکہ رمضان اور عید کے موقع پر صاف نظر آتا ہے۔ جب تاجروں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مارکیٹ میں ذخیرہ اندوز متحرک نظر آتے ہیں اور اشیائے خورونوش کو غائب کرکے ان کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی طلب کے سامنے رسد کم کرکے خوب منافع کمایا جائے اور بدقسمتی سے اس غیر اخلاقی سرگرمی کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس سوائے چند چھاپوں اور جرمانوں کے علاوہ کوئی اور ہتھیار نظر نہیں آتا، جوکہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں۔
اس تمام تجزیے سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ اس پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کا کوئی اتنا آسان حل موجود نہیں۔ اس کے عوامل میں دونوں قابل گرفت اور ناقابل گرفت پہلو موجود ہیں۔ یعنی کچھ چیزیں تو حکومتیں کنٹرول کرسکتی ہیں جب کہ باقی کو کنٹرول کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ البتہ اگر حکومت اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کے لیے اور مہنگائی کی شرح کم کرنے کے عزم کا اظہار کرے تو یقیناً اس کی شرح کو ایک حد کے اندر روکا جاسکتا ہے۔
ایسا بلاواسطہ ٹیکسز کم کرکے Direct Taxes بڑھانے، کرنسی نوٹوں کی بے دریغ چھپائی کو روک کر، بجلی کی پیداوار میں تھرمل ذرایع پر انحصار کم کرکے، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالا دے کر اور ملک میں ذخیرہ اندوزوں اور مافیا کی سرگرمیوں اور ذخیرہ اندوزی کو روک کر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنانے اور ذخیرہ اندوزوں کو روکنے کے لیے مناسب قانون سازی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ فی الحال ایسے لوگ اگر قانون کی زد میں آ بھی جائیں تو وہ نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے اور معمولی جرمانے کے سبب اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے پر مائل نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کے مسئلے کو بنیاد بناکر سیاست کے استعمال قطعی طور پر مناسب نہیں، اس کے لیے مرکزی اور سارے صوبوں کی حکومتوں کو مل کر ایک مربوط نظام بنانا ہوگا تاکہ اس سنگین مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔ اس مسئلے کو دونوں انتظامی اور معاشی اصلاحات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ملک کی تقریباً آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس غریب آبادی کے لیے مہنگائی میں کمی کا تحفہ یقیناً کسی بھی حکومت کے لیے زبردست مقبولیت کا سبب بن سکتا ہے ۔ کاش کہ ہمارے ارباب اقتدار اس پہلو پر ذرا غور کریں۔