بات کچھ اِدھر اُدھر کی اخلاقیات کا جنازہ

آج کوئی مسلمان کم ازکم اپنی مثال دے کر کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتا۔

آج کوئی مسلمان کم ازکم اپنی مثال دے کر کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتا۔ فوٹو اے ایف پی

LONDON:
بچپن کی بات میں سوات کے مضافات کے ایک سرکاری مڈل اسکول میں پڑھ رہا تھا۔صبح کا پیریڈ قرآن مجید کا ہوتا تھا ، ہمارے ایک استاد محترم جو ماشاء اللہ عالم دین تھے وہ ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔وہ اکثر مسلمانوں کی زبوں حالی اور اخلاقی پستی کا رونا روتے رہتے۔اسکول کے ساتھ ہی ایک سرکاری ڈسپنسری بھی قائم تھی ،جہاں ایک ہندو ڈاکٹرتعینات تھے۔ ہمارے استاد محترم اور ڈاکٹر صاحب کی آپس میں اچھی خاصی دوستی تھی۔ دونوں اکثر ساتھ آیا جایا کرتے ۔ہمارے استادمحترم اپنے ہندو دوست کے قصے بڑے شوق سے ہمیں سنایا کرتے۔ میں چونکہ شروع سے ''اچھابچہ'' بن کر خاموش بیٹھنے کا عادی نہیں رہا، لہذا چھبتے سوالات کرنے میں ہمیشہ بڑا مزہ محسوس کرتا ہوں۔

ایک دن موقع پاتے ہی میں نے ایسا ہی چھبتا سوال کر ڈالاکہ مولانا صاحب آپ ماشاء اللہ سے عالم دین ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اپنے دوست کو تو اسلام کی طرف راغب کرتے ، یا پھر اپنے کردار سے ہی ان کو متاثر کرتے ۔میری بات سنتے ہی مولانا صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے، کیونکہ ان کے پاس اس سوال کا تسلی بخش جواب موجود نہیں تھا۔ بات آئی گئی ہوگئی، اس کے بعد کافی دنوں میری طبیعت خراب رہی ، استاد محترم نے اپنے ہندو دوست کے پاس بھیجا ۔ڈاکٹرصاحب میرے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئے،دوران گفتگو میں نے ہچکچاتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں سوال کیا''ڈاکٹر صاحب آپ اسلام قبول کیوں نہیں کرتے''؟ جواب میں ڈاکٹر صاحب نے زوردار قہقہہ لگایا پھر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا '' بیٹا تم کیا چاہتے ہو؟ یہی ناں کہ میں مسلمان ہوکر مسجد سے جوتے چوری کروں''۔

ڈاکٹر صاحب کا جواب سن کر میری سیٹی گم ہوگئی ، میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، میرا سر شرم سے جھک گیا۔ مجھے زندگی بھر کسی بات کا اتنا پچھتاوا نہیں ہوا جتنا اس دن ہندو ڈاکٹر سے یہ سوال کرنے پر ہوا،ہوش سنبھالنے کے بعد آج تک مجھے کبھی اتنی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی جتنی ڈاکٹر صاحب کے جواب پر اٹھانی پڑی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک جملے میں دورحاضر کے مسلمانوں کی اخلاقی پستی کا پوسٹ مارٹم کرڈالا تھا۔ دوسری جانب انہوں نے ایک ہی جملے میں میرے معصومانہ سوال سے جان چھڑا لی ۔ میں اسکول سے نکل کر یونیورسٹی میں آگیا لیکن اس دن کی شرمندگی سے آج تک جان نہیں چھڑا پایا۔ مسجد میں جاتا ہوں توسامنے لگی تختی مجھے ہندو ڈاکٹر کا جواب یا د دلاتی ہے جس پہ لکھا ہوتا ہے''اپنے جوتے کی حفاظت کریں'' خدا کے گھر میں خداسے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ صف میں بیٹھتا ہوں توہر دو منٹ بعد پیچھے مڑکر اپنے جوتوں پر نظر ڈالتا ہوں۔ کہ کہیں کوئی ''مسلمان '' بھائی میرے جوتے اٹھا کہ نہ لے جائے۔ یہاں تک کہ ہم مسجد کے ٹیوب لائٹ، پنکھے اور گھڑیال تک بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔


مختلف مقامات پر لگے واٹر کولر کے ساتھ آہنی زنجیروں کے ساتھ باندھا ہوا گلاس دیکھتا ہوں تو ہندو ڈاکٹر کا جواب میرے یادداشت پر ہتھوڑے برسانے لگتا ہے۔ کوئی نیک بندہ کہیں ٹھنڈے پانی کا مٹکا یا واٹر کولر لگا تا ہے تو جا کر دیکھ لیں گلاس آہنی زنجیر کے ساتھ باندھا ہوگا کہ کہیں مسلمان بھائی پانی کے ساتھ گلاس بھی نہ پی جائیں۔ اور یہ لازمی امر ہے کہ گلاس اگر باندھا نہ ہو تو پانچ منٹ کے اندر زمین نگل جائے گی یا پھر آسمان کھا جائے گا۔

یہ وہی بنیادی اخلاقیات ہیں جن کا جنازہ کب کا اٹھ چکا۔ آج کوئی مسلمان کم ازکم اپنی مثال دے کر کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتا۔اگر کوئی جسارت کر بیٹھے تو وہی خفت اور شرمندگی اٹھانے پڑے گی جو اسکول کے دنوں سے آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ میرے ساتھ اب ایک ہی دفتر میں کئی غیر مسلم کام کرتے ہیں، لیکن میری ہمت نہیں ہوتی کہ میں ان سے اس بارے میں بات کروں ڈاکٹر صاحب نے ایک جملے میں جواب دیا تھا ، یہ مجھے پوری داستان سنا دیں گے۔ اور پھر مزید شرمندگی قبر میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story