بات کچھ اِدھر اُدھر کی جامعہ کراچی کی زندگی
سب سے پہلے تو ہم نے ایسی لڑکیوں کی تلاش شروع کردی جنہیں آپ باآسانی باجی یا بہن کہہ لیں۔۔۔
''ہائے! میرا گھٹنا۔۔۔'' ایک نوجوان لڑکا درد سے بلبلا اْٹھا۔ گیٹ سے تھوڑا آگے لوہے کا پائپ زمین سے ۳ فٹ بلند تھا۔ رش کی وجہ سے وہ اس لوہے کے پائپ کو نہیں دیکھ سکا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس لڑکے کے مجروح ہونے کی وجہ سے ہم بھی محتاط ہوگئے۔ یہ جامعہ کراچی میں ہمارا پہلادن تھا۔ لڑکیوں کا رش اتنا زیادہ ۔۔۔اتنا زیادہ۔۔۔بس کیا بتائیں کہ کتنا زیادہ تھا۔ یوں محسوس ہوا کہ لڑکیوں کا کوئی لشکر جرار یونیورسٹی پر حملہ آور ہوگیا۔ شوخ، چنچل حسیناؤں کی جھرمٹ میں چلتے ہوئے ہم ''نروس'' سے ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ لہراکر گر پڑتے۔۔۔ فاروق عبداللہ نے سنبھالا دیا اور کہنے لگے۔۔۔
''کیوں بھائی! ۔۔۔اتنی ساری لڑکیا ں دیکھ کر حواس کھوبیٹھے۔'' جواب میں ہم انہیں صرف گھور کررہ گئے۔
''تمہیں پتا ہے لوگوں کو شوگر کیوں ہوتا ہے؟'' ہم نے کالر کو درست کرتے ہوئے پوچھا۔
''زیادہ کھانے کی وجہ سے۔'' فاروق عبداللہ نے احسان جتانے والے انداز میں کہا۔
''اچھا ۔۔۔شاباش ۔۔۔پھر ذرایہ بتاؤ کہ زیادہ لڑکیوں کو دیکھ کر کیا ہوتا ہے؟''
''پیار ۔۔۔!!''موصوف کا جواب سن کرہم بھنا کر رہ گئے۔
''پیار گیا بھاڑ میں۔۔۔نفرت اور حسرت کا مارا انسان کملاکر رہ جاتا ہے۔''
''بے چارہ کملانے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔''فاروق عبداللہ بے بسی سے مسکرا کر بولے۔
بھارت کے حوالے سے ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ڈرامے ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔فلموں کے ہم رسیا ہیں۔۔۔ان کا ہر فیشن اپنانا ہم نے سنت سمجھ رکھا ہے۔۔۔پتا نہیں اس معاملے میں ہم بھارت سے پیچھے کیوں ہیں۔۔۔اب یہ جملے سن یا پڑھ کر آپ ہمیں دلائل مت دیجئے گا ہمیں حقائق کا خوب علم ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بم دھماکوں میں ''مرد ''مرتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ سب سے زیادہ مردوں کے ہوتے ہیں۔ جنگ کے دوران بھی مردوں کی شامت آتی ہے۔ رہی عورتیں ۔۔۔اِن بے چاریوں کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں۔ ۰۱۱، ۰۲۱ سال کی عمر میں جاکر کہیں انتقال ہوتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ انتقال بھی روڈ ایکسیڈنٹ، ہارٹ اٹیک سے ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ ابھی مزید جی سکتی تھیں۔۔۔کلاس میں پہنچے تو ایک اور المیہ ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔ لڑکوں کی تعداد کلاس میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔۔۔غالباََ سوڈے بھر تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی سوڈا اور نمک نہ ہو تو روٹی پھیکی بنتی ہے۔
دل میں ایک بار پھر یہ خیال پیدا ہو ا کہ کاش ہم ملک کے وزیر اعظم ہوتے تو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ لڑکیوں کو فوج میں بھرتی کرانے کے معیار میں نرمی برتتے ۔۔۔اور خواہ مخواہ بھارت اور امریکہ سے پنگالے کر لڑکیوں کی بٹالین کو آگے رکھتے۔۔۔آگے قارئین خود سمجھ دار ہیں۔ موضوع سخن کو اگر لڑکوں کی جانب پھیرا جائے تو یہاں یہ مہاشے بھی کسی 'بھگت سنگھ 'سے کم نہیں، نیچی پینٹ، کھڑے بال اور چاک گریبان انہیں ناکام عاشق ظاہر کرنے میں کوئی فروگزاشت نہیں چھوڑتا۔
ایک خیال یہ بھی سوچاتھا کہ اساتذہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے بالوں میں چاندی کا ورق چڑھائے، کھانستے ہوئے پڑھائیں گے۔ مگر حیرت اس وقت دور ہوئی جب اپنی عمر سے کچھ ہی سال بڑے اساتذہ کو دیکھا۔ دوسری جانب جامعہ کراچی میں فضائی ڈرونز سے سب ہی خوف ذدہ نظر آتے ہیں۔ آپ فوراََ امریکا مت پہنچیں۔ ہم جناب عزت مآب کوؤوں کی بات کررہے ہیں۔ فائٹرطیاروں کی طرح آپ کے سروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ان طیاروں کی بمباری سے ہر کسی ونا کس پریشان ہے۔ لیکن جس طرح حکومت کازور امریکی ڈرونز پر نہیں چلتا۔ اس طرح ہر یونیورسٹی انتظامیہ اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس ہے۔
پہلے چند دن تو کلاس میں شناسائیاں ہی ہوتی رہیں۔ اس دن تو ہمارا حال یہ تھا کہ کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔60 سے 70 لڑکیوں کے درمیان ایک نہتا، معصوم اور شریف لڑکا کب تک اپنا بچاؤ کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نے ایسی لڑکیوں کی تلاش شروع کردی جنہیں آپ باآسانی باجی یا بہن کہہ لیں تو ان کو برا نہیں لگے گا۔ ہمارے اکثر دوست اس بات پر چراغ پا ہیں کہ آنجناب کی ۵ بہنیں کم ہیں جو ان میں دھڑا دھڑ اضافہ کیے جارہے ہو۔ لیکن اب ہم کیا کریں۔ ''بھائی'' کا میٹھا اور پیارا لفظ رگ وپے میں ایسا سرایت کر گیا ہے کہ اگر کوئی مابدولت کے نام کے ساتھ بھائی نہ لگائے تو ٹوکنے کا دل کرتا ہے لیکن کراچی شہر میں 'بھائی 'کا مفہوم خوف ودہشت کی علامت ہونے کے باعث صرف دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
جامعہ کراچی کی محمودالحسن لائبریری غالباََ مطالعے کے لیے بنائی گئی ہے۔ مگر ایک صاحب کو دیکھا کہ سر میز پر ٹکائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ خیر ہمیں اعتراض ان کے سونے پر نہیں بلکہ خراٹوں پر تھا۔ ان کے نتھنوں کے سامنے ایک کاپی کھلی پڑی تھی۔ ان کے خراٹے لینے سے کاپی کے حصے پھڑ پھڑا کراْڑتے تھے جس کی وجہ سے اس زور کی آواز پیدا ہورہی تھی کہ جو ہماری ''نیند'' کی خرابی کا باعث بن رہی تھی۔ ان صاحب کا یہ عمل ہمارے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لوگو ں سے سنا ہے ۔۔۔تاریخ میں پڑھاہے ۔۔۔ہر جگہ یہی لکھا ہے کہ علم کی تلاش میں لوگوں کو کسی عالم دین کے علم کا پتا چلتا تو اس جانب دوڑ پڑتے، قرطبہ، اندلس علم کے ایسے مراکز تھے، جیسے آج کل لندن اور نیویارک ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے شاید تاریخ کو گھوٹ گھوٹ کر پیا تھا۔ جب ہی انھوں نے طلبا ء4 کے لمبے سفر کا بندوبست کچھ یو ں کیا کہ ایک ڈیپارٹ مشرق میں تو دوسرا مغرب میں بنا ڈالا۔ طالب علم پیدل چلتے ہوئے جب ڈیپارٹ کی جانب عازم سفر ہوتے تو انہیں ابن بطوطہ بھی اپنے آگے کل کا بچہ نظر آنے لگتا۔ اب آپ خو د ہی اندازہ لگائیں کہ جب ایک شخص یو نیورسٹی سے فارغ ہو تا ہوگا تو وہ سقراط اور بقراط کو کہاں گھاس ڈالتا ہوگا۔۔۔اگر تھوڑا اور مبالغہ سے کام لیا جائے تو ان طالب علموں کے سامنے افلاطون کو بھی پانی بھرتے ہوئے دیکھاجا سکتا ہے۔
جاتے جاتے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ غالباََ ایک سال پہلے کی بات ہے۔ کراچی یو نیورسٹی میں ایک لیکچر تھا۔ لیکچر سن کر ہم بائیک پر غلطی سے مسکن والے گیٹ کی جانب جانکلے اور ہمارے دوسرے ساتھی شیخ زید والے گیٹ سے۔۔۔فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے ہمیں شیخ زید آنے کو کہا۔ جب ہم شیخ زید والے گیٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ سارے ساتھی پانی میں بھیگے ہوئے ہیں ۔۔۔وجہ پوچھی تو گھور کر کہنے لگے: ''بارش ہوئی ہے تم لو گ کیوں گیلے نہیں ہوئے۔'' ہم حیرت ذدہ رہ گئے ۔۔۔مسکن کی طرف تو بارش کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ہم نے دوستوں کو قسمیں کھا کر یقین دلایا مگر وہ کہنے لگے کہ تم یقیناًکسی درخت یا شیلٹر کے نیچے چھپے ہوئے ہوگے۔ بہر حال اس دن ہمیں اندازہ ہوا کہ یونیورسٹی واقعی شیطان کی آنت کی طرح بڑی ہے۔ کلاس میں ہمیں کس قسم کے دوستوں اور بہنوں (اسے ہماری کسرِ نفسی سمجھ سکتے ہیں) سے واسطہ پڑا۔۔۔یہ ایک تفصیلی بحث ہے۔۔۔جس پر ہم وقتاََ فوقتاََ ''ہاتھ'' کشائی کرتے رہیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''کیوں بھائی! ۔۔۔اتنی ساری لڑکیا ں دیکھ کر حواس کھوبیٹھے۔'' جواب میں ہم انہیں صرف گھور کررہ گئے۔
''تمہیں پتا ہے لوگوں کو شوگر کیوں ہوتا ہے؟'' ہم نے کالر کو درست کرتے ہوئے پوچھا۔
''زیادہ کھانے کی وجہ سے۔'' فاروق عبداللہ نے احسان جتانے والے انداز میں کہا۔
''اچھا ۔۔۔شاباش ۔۔۔پھر ذرایہ بتاؤ کہ زیادہ لڑکیوں کو دیکھ کر کیا ہوتا ہے؟''
''پیار ۔۔۔!!''موصوف کا جواب سن کرہم بھنا کر رہ گئے۔
''پیار گیا بھاڑ میں۔۔۔نفرت اور حسرت کا مارا انسان کملاکر رہ جاتا ہے۔''
''بے چارہ کملانے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔''فاروق عبداللہ بے بسی سے مسکرا کر بولے۔
بھارت کے حوالے سے ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ڈرامے ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔فلموں کے ہم رسیا ہیں۔۔۔ان کا ہر فیشن اپنانا ہم نے سنت سمجھ رکھا ہے۔۔۔پتا نہیں اس معاملے میں ہم بھارت سے پیچھے کیوں ہیں۔۔۔اب یہ جملے سن یا پڑھ کر آپ ہمیں دلائل مت دیجئے گا ہمیں حقائق کا خوب علم ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بم دھماکوں میں ''مرد ''مرتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ سب سے زیادہ مردوں کے ہوتے ہیں۔ جنگ کے دوران بھی مردوں کی شامت آتی ہے۔ رہی عورتیں ۔۔۔اِن بے چاریوں کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں۔ ۰۱۱، ۰۲۱ سال کی عمر میں جاکر کہیں انتقال ہوتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ انتقال بھی روڈ ایکسیڈنٹ، ہارٹ اٹیک سے ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ ابھی مزید جی سکتی تھیں۔۔۔کلاس میں پہنچے تو ایک اور المیہ ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔ لڑکوں کی تعداد کلاس میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔۔۔غالباََ سوڈے بھر تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی سوڈا اور نمک نہ ہو تو روٹی پھیکی بنتی ہے۔
دل میں ایک بار پھر یہ خیال پیدا ہو ا کہ کاش ہم ملک کے وزیر اعظم ہوتے تو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ لڑکیوں کو فوج میں بھرتی کرانے کے معیار میں نرمی برتتے ۔۔۔اور خواہ مخواہ بھارت اور امریکہ سے پنگالے کر لڑکیوں کی بٹالین کو آگے رکھتے۔۔۔آگے قارئین خود سمجھ دار ہیں۔ موضوع سخن کو اگر لڑکوں کی جانب پھیرا جائے تو یہاں یہ مہاشے بھی کسی 'بھگت سنگھ 'سے کم نہیں، نیچی پینٹ، کھڑے بال اور چاک گریبان انہیں ناکام عاشق ظاہر کرنے میں کوئی فروگزاشت نہیں چھوڑتا۔
ایک خیال یہ بھی سوچاتھا کہ اساتذہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے بالوں میں چاندی کا ورق چڑھائے، کھانستے ہوئے پڑھائیں گے۔ مگر حیرت اس وقت دور ہوئی جب اپنی عمر سے کچھ ہی سال بڑے اساتذہ کو دیکھا۔ دوسری جانب جامعہ کراچی میں فضائی ڈرونز سے سب ہی خوف ذدہ نظر آتے ہیں۔ آپ فوراََ امریکا مت پہنچیں۔ ہم جناب عزت مآب کوؤوں کی بات کررہے ہیں۔ فائٹرطیاروں کی طرح آپ کے سروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ان طیاروں کی بمباری سے ہر کسی ونا کس پریشان ہے۔ لیکن جس طرح حکومت کازور امریکی ڈرونز پر نہیں چلتا۔ اس طرح ہر یونیورسٹی انتظامیہ اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس ہے۔
پہلے چند دن تو کلاس میں شناسائیاں ہی ہوتی رہیں۔ اس دن تو ہمارا حال یہ تھا کہ کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔60 سے 70 لڑکیوں کے درمیان ایک نہتا، معصوم اور شریف لڑکا کب تک اپنا بچاؤ کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نے ایسی لڑکیوں کی تلاش شروع کردی جنہیں آپ باآسانی باجی یا بہن کہہ لیں تو ان کو برا نہیں لگے گا۔ ہمارے اکثر دوست اس بات پر چراغ پا ہیں کہ آنجناب کی ۵ بہنیں کم ہیں جو ان میں دھڑا دھڑ اضافہ کیے جارہے ہو۔ لیکن اب ہم کیا کریں۔ ''بھائی'' کا میٹھا اور پیارا لفظ رگ وپے میں ایسا سرایت کر گیا ہے کہ اگر کوئی مابدولت کے نام کے ساتھ بھائی نہ لگائے تو ٹوکنے کا دل کرتا ہے لیکن کراچی شہر میں 'بھائی 'کا مفہوم خوف ودہشت کی علامت ہونے کے باعث صرف دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
جامعہ کراچی کی محمودالحسن لائبریری غالباََ مطالعے کے لیے بنائی گئی ہے۔ مگر ایک صاحب کو دیکھا کہ سر میز پر ٹکائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ خیر ہمیں اعتراض ان کے سونے پر نہیں بلکہ خراٹوں پر تھا۔ ان کے نتھنوں کے سامنے ایک کاپی کھلی پڑی تھی۔ ان کے خراٹے لینے سے کاپی کے حصے پھڑ پھڑا کراْڑتے تھے جس کی وجہ سے اس زور کی آواز پیدا ہورہی تھی کہ جو ہماری ''نیند'' کی خرابی کا باعث بن رہی تھی۔ ان صاحب کا یہ عمل ہمارے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لوگو ں سے سنا ہے ۔۔۔تاریخ میں پڑھاہے ۔۔۔ہر جگہ یہی لکھا ہے کہ علم کی تلاش میں لوگوں کو کسی عالم دین کے علم کا پتا چلتا تو اس جانب دوڑ پڑتے، قرطبہ، اندلس علم کے ایسے مراکز تھے، جیسے آج کل لندن اور نیویارک ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے شاید تاریخ کو گھوٹ گھوٹ کر پیا تھا۔ جب ہی انھوں نے طلبا ء4 کے لمبے سفر کا بندوبست کچھ یو ں کیا کہ ایک ڈیپارٹ مشرق میں تو دوسرا مغرب میں بنا ڈالا۔ طالب علم پیدل چلتے ہوئے جب ڈیپارٹ کی جانب عازم سفر ہوتے تو انہیں ابن بطوطہ بھی اپنے آگے کل کا بچہ نظر آنے لگتا۔ اب آپ خو د ہی اندازہ لگائیں کہ جب ایک شخص یو نیورسٹی سے فارغ ہو تا ہوگا تو وہ سقراط اور بقراط کو کہاں گھاس ڈالتا ہوگا۔۔۔اگر تھوڑا اور مبالغہ سے کام لیا جائے تو ان طالب علموں کے سامنے افلاطون کو بھی پانی بھرتے ہوئے دیکھاجا سکتا ہے۔
جاتے جاتے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ غالباََ ایک سال پہلے کی بات ہے۔ کراچی یو نیورسٹی میں ایک لیکچر تھا۔ لیکچر سن کر ہم بائیک پر غلطی سے مسکن والے گیٹ کی جانب جانکلے اور ہمارے دوسرے ساتھی شیخ زید والے گیٹ سے۔۔۔فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے ہمیں شیخ زید آنے کو کہا۔ جب ہم شیخ زید والے گیٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ سارے ساتھی پانی میں بھیگے ہوئے ہیں ۔۔۔وجہ پوچھی تو گھور کر کہنے لگے: ''بارش ہوئی ہے تم لو گ کیوں گیلے نہیں ہوئے۔'' ہم حیرت ذدہ رہ گئے ۔۔۔مسکن کی طرف تو بارش کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ہم نے دوستوں کو قسمیں کھا کر یقین دلایا مگر وہ کہنے لگے کہ تم یقیناًکسی درخت یا شیلٹر کے نیچے چھپے ہوئے ہوگے۔ بہر حال اس دن ہمیں اندازہ ہوا کہ یونیورسٹی واقعی شیطان کی آنت کی طرح بڑی ہے۔ کلاس میں ہمیں کس قسم کے دوستوں اور بہنوں (اسے ہماری کسرِ نفسی سمجھ سکتے ہیں) سے واسطہ پڑا۔۔۔یہ ایک تفصیلی بحث ہے۔۔۔جس پر ہم وقتاََ فوقتاََ ''ہاتھ'' کشائی کرتے رہیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔