سوئیڈن نے فلسطینی ریاست تسلیم کر لی
فلسطینی عوام کئی عشروں سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی مقبوضہ ریاست کو آزادی حاصل ہو۔
سوئیڈن نے جمعرات کے دن ریاست فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اس طرح وہ پہلا اہم یورپی ملک بن گیا ہے جس نے باضابطہ طور پر یہ جرأت مندانہ اقدام کیا ہے۔ اس کا فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا ہے جب کہ اسرائیل نے اس کی مذمت کی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسرائیل نے دو ہزار گھروں پر مشتمل ایک نئی یہودی بستی مقبوضہ فلسطینی زمین پر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح اسرائیل رفتہ رفتہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی زمینوں پر اپنا قبضہ بڑھا رہا ہے تا کہ خطے میں آبادی کا تناسب یکسر تبدیل کیا جا سکے۔ حالانکہ اسرائیل کے ان توسیع پسندانہ اقدامات پر امریکا بھی دبے لفظوں اعتراض کرتا ہے مگر کُھل کر اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالتا کہ وہ نئی تعمیرات کو روک دے۔
سوئیڈش وزیر خارجہ مارگوٹ والسٹرویم (Margot Wallstroem) نے ملک کے کثیر الاشاعت اخبار ڈینجنز نی ہیٹر (Dagen Nyheter) میں لکھا ہے کہ آج سوئیڈن کی حکومت نے ریاست فلسطین کو تسلیم کر لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ واضح رہے سوئیڈن کی نئی حکومت نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لے گی۔ خاتون وزیر خارجہ مس مارگوٹ نے لکھا ہے کہ فلسطینی باشندوں کو حق خودارادیت دینا بے حد ضروری ہے کیونکہ اسی طرح وہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مس مارگوٹ نے توقع ظاہر کی ہے کہ سوئیڈن کے فیصلے کی دیگر یورپی ممالک بھی تقلید کرنے کی کوشش کریں گے۔ بعدازاں ایک پریس بریفنگ میں مس مارگوٹ نے کہا کہ ہمارے اس فیصلے کا مقصد یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جانبداری سے کام لیتے ہوئے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ قیام امن کی منزل حاصل ہو سکے۔
فلسطینی عوام کئی عشروں سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی مقبوضہ ریاست کو آزادی حاصل ہو اور وہ مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اپنا دارالحکومت بنا سکیں لیکن اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو کامیابی نہیں ہو سکی کیونکہ ارض فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے والا اسرائیل ان کی گردن چھوڑنے پر تیار نہیں۔ سوئیڈن سے پہلے بعض چھوٹے یورپی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا تھا ان میں ہنگری' بلغاریہ' چیک ریپبلک' مالٹا' قبرص اور رومانیہ شامل ہیں۔ البتہ سوئیڈن کا شمار یورپ کے بڑے اور اہم ممالک میں ہوتا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے سوئیڈن کے فیصلے کو جرات مندانہ اور تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا اور دیگر ممالک نے بھی سوئیڈن کی تقلید کرنے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ لائبر مین نے کہا ہے کہ سوئیڈن کے اس فیصلے سے فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ نیز لائبرمین کے نزدیک اس قسم کے فیصلے سے انتہا پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ لائبرمین نے سوئیڈن کو انتباہ کیا کہ اس کا یہ فیصلہ قبل از وقت ہے کیونکہ فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ فریقین کے مابین مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر کے 112 ممالک فلسطین کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے ان ممالک کی تعداد 134 بتائی ہے۔
سوئیڈش وزیر خارجہ مارگوٹ والسٹرویم (Margot Wallstroem) نے ملک کے کثیر الاشاعت اخبار ڈینجنز نی ہیٹر (Dagen Nyheter) میں لکھا ہے کہ آج سوئیڈن کی حکومت نے ریاست فلسطین کو تسلیم کر لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ واضح رہے سوئیڈن کی نئی حکومت نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لے گی۔ خاتون وزیر خارجہ مس مارگوٹ نے لکھا ہے کہ فلسطینی باشندوں کو حق خودارادیت دینا بے حد ضروری ہے کیونکہ اسی طرح وہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ مس مارگوٹ نے توقع ظاہر کی ہے کہ سوئیڈن کے فیصلے کی دیگر یورپی ممالک بھی تقلید کرنے کی کوشش کریں گے۔ بعدازاں ایک پریس بریفنگ میں مس مارگوٹ نے کہا کہ ہمارے اس فیصلے کا مقصد یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جانبداری سے کام لیتے ہوئے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ قیام امن کی منزل حاصل ہو سکے۔
فلسطینی عوام کئی عشروں سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی مقبوضہ ریاست کو آزادی حاصل ہو اور وہ مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اپنا دارالحکومت بنا سکیں لیکن اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو کامیابی نہیں ہو سکی کیونکہ ارض فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے والا اسرائیل ان کی گردن چھوڑنے پر تیار نہیں۔ سوئیڈن سے پہلے بعض چھوٹے یورپی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا تھا ان میں ہنگری' بلغاریہ' چیک ریپبلک' مالٹا' قبرص اور رومانیہ شامل ہیں۔ البتہ سوئیڈن کا شمار یورپ کے بڑے اور اہم ممالک میں ہوتا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے سوئیڈن کے فیصلے کو جرات مندانہ اور تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا اور دیگر ممالک نے بھی سوئیڈن کی تقلید کرنے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ لائبر مین نے کہا ہے کہ سوئیڈن کے اس فیصلے سے فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ نیز لائبرمین کے نزدیک اس قسم کے فیصلے سے انتہا پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ لائبرمین نے سوئیڈن کو انتباہ کیا کہ اس کا یہ فیصلہ قبل از وقت ہے کیونکہ فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ فریقین کے مابین مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر کے 112 ممالک فلسطین کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے ان ممالک کی تعداد 134 بتائی ہے۔