اداروں کا تقدس

جمہوریت کی تعریف و تشریح کچھ اس طرح کی ہے ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔‘‘


Zaheer Akhter Bedari November 01, 2014
[email protected]

QUETTA: ہر جمہوری ملک میں پارلیمنٹ ایک ایسا ریاستی ادارہ ہوتی ہے جس کا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ اس ادارے میں عوام کے منتخب نمایندے آتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے انتخابات کسی دباؤ، لالچ، بددیانتی پر مبنی نہیں ہوتے، یہی وجہ پارلیمنٹ کو محترم اور مقدس بناتی ہے۔ عوام اپنے نمایندے اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ قانون ساز اداروں میں جا کر عوامی مفادات کے مطابق قانون سازی کریں۔ ریاست کا دوسرا اہم ادارہ انتظامیہ یعنی حکومت ہوتی ہے جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے مسائل حل کرنا ہوتی ہے۔ اس طرح عوام کے منتخب کردہ نمایندے عوام کے ایک طرح ملازم ہوتے ہیں جن کی اصل ڈیوٹی عوام کی خدمت ہوتی ہے۔

جمہوریت کی تعریف و تشریح کچھ اس طرح کی ہے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔'' یہی تعریف جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ کو محترم اور مقدس بناتی ہے۔ اگر کوئی جمہوریت اس معیار، اس تعریف پر پوری نہیں اترتی تو نہ وہ مقدس کہلا سکتی ہے نہ اس کی پارلیمنٹ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت اور اس کے ادارے اس معیار اس تعریف پر پورے اتر رہے ہیں؟ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کی جمہوریت اور جمہوری اداروں پر نظر ڈالیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہماری جمہوریت، ہمارے جمہوری ادارے بدعنوانیوں، کرپشن کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ان اداروں میں پہنچتے ہیں وہ دھونس دھاندلی اور دولت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے پہنچتے ہیں، اسی لیے خود ہمارے بعض سیاستدان ان اداروں اور جمہوریت کو کاروباری ادارے اور انتخابات کو انتہائی منافع بخش سرمایہ کاری کا نام دے رہے ہیں۔ یہ حال صرف آج کی جمہوریت اور جمہوری اداروں کا نہیں بلکہ پاکستان کی پوری جمہوری تاریخ میں جمہوریت ایک صنعت اور انتخابات ایک منافع بخش سرمایہ کاری بنے رہے ہیں۔ کیا ایسی جمہوریت اور ایسی پارلیمنٹ قابل احترام، قابل تقدس ہوسکتی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہوگیا ہے کہ پچھلے دنوں جب ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا اور اب تک شکار ہے تو پارلیمنٹ کے تقدس کے نام پر اس بحران کا مقابلہ کرنے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے بھری پڑی ہے اور یہ بحران عموماً سیاستدانوں کی رقابتوں اور حصول اقتدار اور حفاظت اقتدار کے گرد گھومتے رہے اور چہروں کی تبدیلی پر ختم ہوتے رہے، لیکن 14 اگست 2014 سے شروع ہونے والا بحران حصول اقتدار اور چہروں کی تبدیلی کا بحران نہیں ہے بلکہ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ بحران چہروں کی تبدیلی کے لیے نہیں پیدا ہوا بلکہ اس نظام کی تبدیلی کے مطالبے سے شروع ہوا ہے جس نے 67 سال سے عوام کو غلام بناکر رکھ دیا ہے اور جس نے ملک کی اکثریت غریب طبقات کا جینا حرام کردیا ہے اور عوام کی زندگی کو جہنم بناکر رکھ دیا ہے۔ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد بحران ہے۔

جس نے67 سالہ کرپٹ جمہوریت کی چولوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ساری کرپٹ اور عوام دشمن طاقتیں جو 67 سال سے عوام کا خون چوس رہی ہیں اپنے اقتدار کو بلکہ موروثی اقتدار کو لاحق خطرناک خطرات سے بچانے کے لیے جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تقدس کے نام پر اور اس کرپٹ نظام کو ڈی ریل ہونے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کو مورچہ بناکر بیٹھی ہوئی ہیں، ان طاقتوں کے پاس جمہوریت اور پارلیمنٹ کے چہروں پر لگے ہوئے، کرپشن کے داغوں کا تو کوئی جواب ہے نہ علاج، اس لیے وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانے، اس کے تقدس کو برقرار رکھنے کے نام پر اکھٹی ہوگئی ہیں اور 67 سالہ کرپٹ ترین نظام کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔

اس نظام سے تنگ اور ستائے ہوئے لوگ جب اس نظام کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھ گئے تو اس نظام کے رکھوالے اس ''گند'' سے اس قدر گھبرائے کہ اسے اس مقدس ایوان کے سامنے سے ہٹانے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے، کیونکہ ان تقدس مآب محترمین کی ناک اس بدبو اور تعفن کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی جو عوام مردوں اور عورتوں کے یہاں بیٹھنے سے پیدا ہوگیا تھا۔ عوام رہ رہ کر یہ سوال کر رہے تھے کہ پارلیمنٹ کے باہر کا تعفن زیادہ ناقابل برداشت ہے یا پارلیمنٹ کے اندر کا تعفن زیادہ ناقابل برداشت ہے؟ تعلیمی ادارے اس لیے محترم ہوتے ہیں کہ ان اداروں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ان کے مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنایا جاتا ہے لیکن ان تعلیمی اداروں میں جب وڈیرے اور جاگیردار اپنے مویشی باندھ کر انھیں گندگی کے ڈھیر میں بدل دیتے ہیں تو یہ ادارے اس لیے قابل احترام نہیں رہتے کہ انھیں انسانوں کی تربیت کے بجائے حیوانوں کی رہائش گاہ بنادیا جاتا ہے اور حیوانوں کے تعفن سے سارا گاؤں تعفن زدہ ہوجاتا ہے۔

ہر مذہب کی عبادت گاہیں قابل احترام ہوتی ہیں لیکن اگر ان عبادت گاہوں پر جرائم پیشہ لوگ، دہشت گرد قبضہ کر لیتے ہیں تو نہ صرف ان عبادت گاہوں کا تقدس مجروح ہوجاتا ہے بلکہ یہ عبادت گاہیں انسانوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جاتی ہیں۔ کیا اس تناظر میں ہم اپنی جمہوریت اور اس کے مقدس ایوانوں کے تقدس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے، ہمارے ملک کی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان اور ہاری ہیں، ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد 4 کروڑ سے زیادہ ہے، ہمارے ملک میں محروم اور غریب طبقات کی تعداد لگ بھگ 90 فیصد ہے، پچھلے 67 سال سے کیا ہمارے قانون ساز اداروں، پارلیمنٹ، سینیٹ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں اس 90 فیصد آبادی کی کوئی نمایندگی ہے؟ جمہوری حکومتوں کی اصل ذمے داری عوام کے مسائل حل کرنا ہوتی ہے۔

کیا 67 سال کے دوران جو جمہوری حکومتیں برسر اقتدار رہیں انھوں نے عوام کے مسائل حل کیے؟ کیا غربت، بے روزگاری، مہنگائی، اقربا پروری میں کمی آئی، کیا عوام کو علاج معالجے، تعلیم کی سہولتیں فراہم کی گئیں؟ کیا ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی کرپشن میں کوئی کمی آئی؟ کیا قانون غیر جانبدار ہے، کیا انصاف غریب طبقات کی داد رسی کر رہا ہے؟ کیا غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہونے کا سلسلہ رکا ہے؟ کیا رشوت کے بغیر غریب کا کوئی کام ہوتا ہے؟ کیا منتخب نمایندے انتخابات کے بعد کبھی عوام کے پاس جاتے ہیں؟ کیا عوام اپنی شکایات، اپنے مسائل، اپنے ہی منتخب نمایندوں کے پاس لے جا سکتے ہیں؟یہ سب اس لیے نہیں ہو سکتا کہ قانون ساز ادارے وڈیروں کے مویشی خانے بن گئے ہیں۔ اگر اس ظالمانہ نظام کو عوام بدلنے کے لیے باہر آ رہے ہیں تو کیا یہ غیر جمہوری فعل ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں