عزت

بیوروکریسی کا ادارہ اب صرف ایک کام کرسکتاہے اوروہ ہے حاکم وقت کی "مسلسل خوشامد"۔

raomanzarhayat@gmail.com

اگرہم اپنے ملک کوایک بحری جہاز سمجھیں۔ پچھلی چھ سے سات دہائیوں پرنظردوڑائیں توایسے لگتاہے کہ بحری جہازکسی بھی سمت سفرنہیں کررہا۔ اس بیڑے کاکوئی بے لوث کپتان ہی نہیں ہے۔ہم صرف اورصرف دائروں میں مسلسل چکر کاٹ رہے ہیں اور یہ سفرختم نہ ہونے والاہے۔

اگرآپکی نظروں سے پاکستان بنانے کے مقاصد گزریں اورآپ ملک بننے سے پہلے کے قائدین کی تقاریر سنیں۔آپکودکھ ہوگا،کہ ہم اب تک ایک بھی مقصدکوپورا نہیں کرپائے۔آپ قائداعظم کے افکارکوپڑھیے۔اس کے بعدآج کاپاکستان دیکھیے۔آپکوایسے لگے گاکہ ہمارے عظیم قائد شائد کسی اورپاکستان کی بات کررہے تھے!اس ملک نے سوائے سرکاری دفتروں میں ان کی تصویرلگانے کے کوئی اورکارنامہ انجام نہیں دیا!

ہم نے بتدریج اپنے ہرادارہ کوبے توقیراوربے عزت کرڈالاہے۔یہ ناممکن کام ہم نے آہستہ آہستہ اورغیرمحسوس طریقے سے سرانجام دیاہے۔لگتاہے کہ انتہائی مہارت رکھنے والے لوگوں نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہمیں اس حال تک پہنچادیاہے۔آپ کسی ادارے کی مثال لے لیجیے۔ اسکوپچاس سال پہلے کے تناظرسے دیکھیے اوراب اسے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے۔آپکوزمین آسمان کا نہیں بلکہ قیامت کافرق نظرآئیگا۔

کچھ چیزیں تومیرے سامنے بربادہوئیں ہیں۔مجھے دوہفتے پہلے ایک سیشن جج صاحب ملے۔وہ لاہورکے نزدیک کسی ضلع میں کام کررہے ہیں۔مجھے بتانے لگے کہ چالیس برس پہلے جوعزت ایک سول جج کی ہوتی تھی،آج وہ ہائیکورٹ کے جج کی نہیں ہے۔یہ بات بالکل درست ہے۔میں نے عدلیہ کابگاڑاپنی نظروں کے سامنے دیکھاہے۔1974ء میں وحدت کالونی ملتان سے اکثرجج سائیکل پردفترجایاکرتے تھے۔مجھے یادہے کہ وہاں آٹھ یا نوسول جج اورایڈیشنل سیشن جج صاحبان سرکاری رہائش گاہوں میں قیام پذیرتھے۔

ان تمام میں سے صرف ایک جج صاحب کے پاس اپنی گاڑی تھی۔ایک جج صاحب کے پاس ایک انتہائی پرانانیلے رنگ کاسکوٹرتھا۔وہ سارے مل جل کردفترجاتے تھے۔میں نے سیشن جج ملتان کوکئی بارسائیکل پردفترآتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگران لوگوں کی عزت اس قدر تھی کہ احترام میں نگاہیں نیچی کرلیتے تھے یاساکت کھڑے ہوجاتے تھے۔ ہائیکورٹ کے جج کا توخیرشکل اورنام تک سے بھی کوئی واقف نہیں ہوتا تھا۔ ان میں سے اکثریت انتہائی سادگی سے زندگی گزارتے تھے۔

مجھے جسٹس سردارمحمدڈوگرصاحب کاسرکاری گھر اچھی طرح یادہے۔وہ دیسی موڑھوں پرشام کوبیٹھ جاتے تھے۔اول توکوئی مہمان آتا نہیں تھا۔اگرآئے توبے انتہاسادہ چائے سے تواضع کیجاتی تھی۔ انکو نزدیک سے دیکھنے کاموقع مجھے صرف اسلیے ملاکہ وہ میرے والدکے دوست تھے۔ایمانداری کایہ عالم تھاکہ میں نے ان کی بچیوں کی شادی کی تقریب میں بلاکی شائستگی اورسادگی محسوس کی تھی۔دراصل ان لوگوں کے لیے پیسہ بالکل اہم نہیں تھا۔ان کے نزدیک زندگی میں ایک چیز انمول تھی وہ تھی شخصی عزت!اب کیاحالات ہیں،آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں!

آپ انتظامیہ کی جانب نظردوڑائیے۔یقین نہیں آتاکہ واقعی ان میں سے اکثریت حقیقت میں افسرہیں؟میں جونیئرلیول کے افسروں کی تو بات ہی نہیں کررہا۔آپ سینئرلوگوں پرغورفرمائیے!بگاڑاس حدتک نظرآئیگاکہ آپ خوف زدہ ہوجائینگے۔کیاآج کاڈپٹی کمشنر،کمشنر،سیکریٹری کسی بھی طریقے سے چالیس سے پچاس برس پہلے کے افسروں کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ہرگزنہیں!خوداعتمادی،جائزکام کو دھڑلے سے کرنے کی ہمت اورناجائزکام کومضبوطی سے انکارکرنے کی اسطاعت۔صاحب!اب کیاہے!ایک دربارہے اورمصابین کی لمبی قطار!اورخوشامدمیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ!شائدآپکویقین نہ آئے کہ میں نے صوبہ کے ایک انتہائی سینئرافسرکووزیراعلیٰ کے دربارمیں اتنی عاجزی سے باتیں کرتادیکھاکہ میں حیران رہ گیا۔وہ وزیراعلیٰ کو"سر"نہیں کہہ رہاتھابلکہ وزیراعلیٰ کو"جناب قائد"اور"قائدمحترم"کے لقب سے مخاطب کررہاتھا۔باہرآکر،وہی افسراپنے جو نیئر افسروں کے لیے ایک عذاب کی حیثیت رکھتاتھا۔بیوروکریسی کا ادارہ اب صرف ایک کام کرسکتاہے اوروہ ہے حاکم وقت کی "مسلسل خوشامد"۔یہ بگاڑکیسے آیااورکیوں آیا!اس کی وجوہات کے لیے کتابیں لکھنادرکارہیں۔

آپ سینئرافسروں کوچھوڑدیجئے۔میں نے ایسے مضبوط انتظامی ضلعی افسردیکھے ہیں کہ خواب لگتاہے۔مجال نہیں تھی کہ عوام کواس نرخ پرچیزیں فروخت نہ کیجائیں جوضلعی انتظامیہ نے مقررکیے ہوں۔میں نے ایسے مجسٹریٹ بھی دیکھے ہیں کہ جن کے بازارمیں قدم رکھنے سے پہلے تجاوازات خودبخودختم ہوجاتیں تھیں۔مگراب یہ صرف کہانیاں نہیں بلکہ الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہوتی ہیں۔

آپ سیاستدانوں کودیکھیے۔تمام کوتاہیوں اورخامیوں کے باوجودآج سے چار یا پانچ دہائیوں قبل کے ایم پی اے اور ایم این اے اپنی جائیدادکو فروخت کرکے الیکشن لڑاکرتے تھے۔ایک نواب زادہ نصراللہ خان کیا،ہرضلع ہی میں اکثرایسے لوگ تھے جوالیکشن سے پہلے یاتوذاتی حیثیت میں قرضہ لیتے تھے یااپنی زمین یاجائیدادفروخت کرنے پرمجبورہوجاتے تھے۔آپ چوہدری محمدعلی،غلام محمد،سکندرمرزا،ذوالفقارعلی بھٹوسے لاکھ اختلاف کریں۔آپ ان کے سیاسی فیصلوں پر بھرپورتنقیدکریں۔مگرآپ غورکیجئے کہ ان میں سے کوئی بھی معاشی طورپرکرپٹ نہیں تھا! مجھے شیخ منظورالہی صاحب نے بتایاکہ چوہدری محمدعلی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کی لائٹیں خوداپنے ہاتھ سے بندکرکے سوتے تھے۔

مگرعجیب بات یہ ہے کہ سب کچھ دیکھنے اورمحسوس کرنے کے بعدبھی میں بالکل مایوس نہیں ہوں!بلکہ میں اب آہستہ آہستہ پُرامیدہوتاجارہاہوں کہ ہمارے ملک کے حالات اب بہتری کی طرف جائینگے۔مجھے عام آدمی کے انفرادی شعورمیں ایک مثبت تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔


یہ تبدیلی اس اَمرکی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں! ہمارے پاس اچھے افسرہرسطح پرموجودہیں!ہمارے پاس ایمانداراوراہلیت والے جج بھی ہیں!ہمارے پاس سیاست کے میدان کارِزارمیں انتہائی سنجیدہ اوراچھی شہرت والے لوگ ابھی تک موجودہیں!یہ درست ہے کہ انکاتناسب اپنے اپنے شعبہ میں انتہائی کم ہے مگریہ کسی بھی ملک کاCritical HumanMassکہلانے کی اہلیت رکھتے ہیں!میرے پاس اس موقف کوثابت کرنے کے لیے بہت سی مثالیں موجودہیں۔مگرمیں مناسب نہیں سمجھتاکہ نام لے کرکسی کے متعلق بات کروں۔ایک چھوٹی سی سچائی عرض کروں۔

میراایک قریبی عزیزحکومتی جماعت کاگزشتہ سات سال سے ایم پی اے ہے۔ اپنے حلقے میں سات مرلے کے آبائی گھرمیں رہتا ہے۔اس کے بچے اپنے اسکول میں ویگن پرجاتے ہیں۔اہلیہ بھی آنے جانے کے لیے رکشہ استعمال کرتیں ہیں۔اپنے حلقہ میں اس نے کمیشن کامکمل خاتمہ کرڈالاہے۔مگراس طرح زندہ رہنے کے لیے بہت زیادہ مضبوط قوتِ ارادی چاہیے!

اب میں ایک اورنکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتاہوں۔آپ کسی دانشوریاعلم یااہل قلم سے بات کریں، وہ جھٹ سے آپکو ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کی مثال دیناشروع کردیگا۔آپ جمہوریت کانام لیجیے وہ آپکوانڈیاکی پارلیمنٹ،اس کے ممبران کی سادگی اور وطن سے محبت کے ایسے ایسے قصے بیان کریگاکہ آپکویقین آجائیگاکہ وہاں کے ممبران دراصل فرشتہ ہیں۔اورہماری سیاست میں محض شیطان ہی شیطان ہیں۔میں اس مفروضہ کوقطعاًتسلیم نہیں کرتا۔

پروفیسرجگدیپ چہکر،پروفیسرٹرائی لوچن ستری اور ریٹائرڈ،میجرجنرل انیل ورمانے دہلی میں ایک ادارہ قائم کیاہے۔اسکانام نیشنل الیکشن واچ اورایسوسی ایشن برائے جمہوریت(Association for Democratic Reforms)ہے۔اس ادارہ کاکام صرف یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے منتخب نمایندوں کوتنقیدی نگاہ سے دیکھے اوران کی جائیداد،کردار،قائم شدہ مقدمات،تعلیم وغیرہ پر ریسرچ کرنے کے بعدآزادانہ رپورٹ مرتب کرے۔اس ادارہ نے2014ء کے ہندوستان میں ہونے والے الیکشن کے متعلق پانچ رپورٹس مرتب کی ہیں۔یہ رپورٹس انٹرنیٹ پرموجودہیں اور آپ انھیں پڑھ سکتے ہیں۔اگرمیں یہ عرض کروں کہ آپ ان رپورٹس کودیکھ کرچونک جائینگے توبے جانہ ہوگا۔

لوک سبھاکا تیس فیصداور ایم ایل اے کا اکتیس فیصد جرائم پیشہ افرادہیں۔ان تمام کے خلاف لاتعداد فوجداری مقدمات درج ہیں۔ان تمام میں سے14% سے 15% تک منتخب نمایندے ایسے ہیں جنکے جرائم انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔

بی جے پی کے منتخب نمایندوں میں30فیصدجرائم پیشہ افرادموجودہیں۔آپ حیران رہ جائینگے کہ صوبہ جھاڑکنڈکی اسمبلی میں82فیصدممبران پرفوجداری کیسز درج ہیں۔دلچسپ اَمریہ ہے کہ جھاڑکنڈصوبے کی حکومت یعنی"جھاڑکنڈمکتی مورچہ"پارٹی میں ان مجرموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کانگریس بھی اس لحاظ سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔اس کے صوبائی اوروفاقی منتخب نمایندوں کی تعداد1433ہے۔ان میں سے 305افرادمہیب جرائم میں ملوث ہیں۔پورے ہندوستان میں صرف ایک ریاست"منی پور"ہے جہاں کسی ممبرکے خلاف کوئی فوجداری کیس موجودنہیںہے۔

اب آپ ہندوستان کے وفاقی وزراء کے ریکارڈ کو پرکھیے۔ وفاقی وزراء کی تعداد45ہے۔ان میں سے13پر فوجداری جرائم کے کیسزدرج ہیں۔ان میں سے 8وزیر تو ایسے ہیں جوخوفناک طرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔اس کے باوجودوہ تمام لوگ وزیرہیںاوردھڑلے سے کام کررہے ہیں۔ انڈیاکی سپریم کورٹ نے حکم دیاہے کہ وہ تمام سیاستدان جوکسی طرح بھی جرائم میں ملوث ہیں،انکو حکومت میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔مگروزیراعظم نریندرمودی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پرعمل درامدکرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔کیونکہ نتیجہ میں ان کی کابینہ کے اکثروزراء کومستعفی ہوناپڑیگا۔صاحبان!بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔

(Association for Democratic Reforms)کی رپورٹ میں سے صرف ایک یادووزراء کا ذکرکرناچاہونگا۔اومابھارتی کا تعلق B.J.P سے ہے۔ وہ "جھانسی"کے حلقے سے منتخب ہوکرپارلیمنٹ میں آئی ہیں۔ ان کے خلاف تیرہ مقدمات درج ہیں۔ان میں سات مقدمات انڈین پینل کوڈکی ان دفعات کے تحت درج کیے گئے ہیں جوانتہائی سنگین ہیں۔

آپ آگے نظردوڑائیے۔منڈے گویناتھ پانڈورنگ کا تعلق مہاراشٹراسے ہے۔یہ بھیB.J.P کے وزیرہیں۔ان پراغوا،لوگوں کوزخمی کرنا،لوگوں کوحبس بے جامیں رکھنا،قتل کی دھمکیاں دینے کے متعددکیسزدرج ہیں۔مگرانکاکوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔آٹھ وفاقی وزراء ایسے ہیں جوبارہ جماعتوں سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں۔ایک وفاقی وزیرمحض پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کرسکے ہیں۔پانچ وفاقی وزراء محض میٹرک ہیں۔

یہ رپورٹ بہت ضخیم ہے۔میں آپکے سامنے محض چند صفحات پربیان شدہ حقائق لایاہوں۔اب آپ مجھے بتائیے کہ حقیقت میں وہ "چمکتاہواہندوستان "کہاں ہے؟ یہ رپورٹ پڑھنے کے بعداب میں پاکستان کے سیاست دانوں اورنظام سے کافی مطمئن ہوں!ہم میں بھی خرابیاں ہیں! مگر ہم محض اپنی خرابیوں کوبیان کرتے ہیں!اچھائیوں کوبتانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرتے!ہم نے ہرایک کو بے توقیرکرنے کی قسم کھارکھی ہے!جس دن ہم ایک دوسرے کی عزت کرنی سیکھ جائینگے،اس کی دن ہماراملک "دمکتاہواپاکستان" بن جائیگا!
Load Next Story