دل ٹوٹ گیا

ایک کہتا ہے کہ کراچی میرا ہے، دوسرا کہتا ہے کہ کراچی ہمارا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ کراچی ہم سب کا ہے۔


Shabbir Ahmed Arman November 01, 2014
[email protected]

ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ''یہ 2000 کا واقعہ ہے میں اندرون سندھ کے سفر میں تھا، میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جارہا تھا کہ اچانک ڈاکوؤں نے ہماری گاڑی کو گھیرلیا۔ میں نے ان سے کہاکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی جب انھوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہاکہ ہم نے آپ کو آتے ہوئے دیکھا تو آپ سے ملنے کے لیے گاڑی روکی۔

2011 میں جب میں وہاں گیا تو آدھی رات کے قریب طالبان کے چند ارکان میرے پاس آئے اور مجھے فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کے لیے کچھ رقم دی۔ ان واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کراچی میں میرے گھر لوٹ مار کا یہ درد ناک واقعہ ہوگا۔ اس ڈکیتی نے میرا دل توڑ دیا، اس واقعے سے مجھے گہرا صدمہ ہوا کیوں کہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ کوئی بھی مجرم امدادی کاموں کے لیے جمع کی جانے والی رقم کو لوٹنے کا نہیں سوچ سکتا، میرے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں جنھیں ڈاکو لوٹ کر لے گئے جس میں سونا اور کرنسی شامل تھیں ۔ دفتر اور رہائش گاہ پر سی سی ٹی وی کیمرے نہیں ہیں ۔ سیکیورٹی مجھے حکومت نے دی تھی جسے میں نے واپس کردیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب موت آئے گی تو کوئی نہیں بچاسکتا''۔

یہ باتیں بین الاقوامی فلاحی و سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی نے کہی ہیں، جو گزشتہ دنوں لٹ گیا ۔ واضح رہے کہ اتوار 19 اکتوبر 2014 کو جب اسٹاف کی تعداد کم ہوتی ہے، صبح تقریباً 9 بج کر 45 منٹ پر موٹر سائیکل پر سوار ملزمان آئے جس میں سے 5 ملزمان کھارادر کاغذی بازار میں واقع ایدھی ہیڈ آفس میں اندر آگئے جب کہ 3 ملزمان باہر پہرے دینے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ آفس میں اندر 3 خواتین کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی تھیں۔

ملزمان نے ان سے الماریوں کی چابی مانگی تو انھوں نے کہاکہ چابیاں ان کے پاس نہیں ہوتیں ، جس پر ملزمان کاؤنٹر کے قریب دروازہ کھول کر عبدالستار ایدھی کے بیڈ روم میں داخل ہوگئے۔ جہاں ملزمان نے انھیں اسلحہ دکھاکر خاموش رہنے کو کہا اور الماری کی چابیاں مانگیں ، جس پر انھوں نے کہاکہ چابیاں بلقیس ایدھی کے پاس ہوتی ہیں اور وہ کسی کام سے باہر گئی ہیں، ملزمان بلقیس ایدھی کو ڈھونڈنے بالائی منزل پر چلے گئے۔ تاہم انھیں بلقیس ایدھی نہیں ملیں جس کے بعد ملزمان واپس عبدالستار ایدھی کے پاس آگئے۔

ہیڈ آفس میں آنے والے 5 ملزمان میں سے ایک نے چہرے پر نقاب لگایا ہوا تھا، جس نے فون کر کے کسی سے ہدایت لیں اور پھر 2 الماریوں کے تالے توڑ دیے اور اس کے لاکرز سے تقریباً 5 کلو گرام سونا اور کروڑوں روپے اور غیر ملکی کرنسی لوٹ کر ملزمان فرار ہوگئے ۔ اس واقعے سے عبدالستار ایدھی کو گہرا صدمہ ہوا ہے۔ ان کے نزدیک یہ چوری ہونے والی رقم یا قیمتی اشیا کی بات نہیں ہے۔ درحقیقت ان کے وقار کو لوٹا گیا ہے جو انتہائی درجے کا ظلم ہے۔ انسانیت کی خدمت کرنے والے کو لوٹنے والے انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی ملازم ہی واردات میں ملوث ہوسکتا ہے۔ واردات کا طریقہ کار انتہائی سوچ بچار کے بعد بنایا گیا۔ اتوار کا دن بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کیوں کہ عام دنوں میں چونکہ مارکیٹوں میں انتہائی رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملزمان کو فرار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ پولیس تفتیش کررہی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور کچھ ملزمان کو پکڑ لیا گیا ہے۔

عبدالستار ایدھی پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کے حوالے سے مشہور ہیں، پاکستان میں جتنی سماجی خدمات انھوں نے انجام دی ہیں پوری قوم ان کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اس واقعے پر پوری قوم شرمسار ہے۔ ایک کہتا ہے کہ کراچی میرا ہے، دوسرا کہتا ہے کہ کراچی ہمارا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ کراچی ہم سب کا ہے۔ اسی کشمکش میں کراچی چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بنا ہوا ہے، جہاں عبدالستار ایدھی جیسے فرشتہ صفت انسان بھی غیر محفوظ ہیں، عام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا اندازہ ہر روز ہر ذی شعور شخص کو ہے کہ ہر دوسرا شخص ڈکیتیوں کا شکار ہوچکا ہے۔

ایک طرف کراچی آپریشن جاری ہے تو دوسری طرف سماج دشمن عناصر کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں کھلی اجازت دی گئی ہے کہ جاؤ جو مرضی آئے کرو، تمہارا بال بیکا کرنے والا کوئی نہیں، یہ شہر تمہارا ہے، لوٹو، مارو، عیش کرو، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

تمام تر قانونی اقدامات کرنے کے باوجود کراچی کے شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا، کبھی کہتے ہیں کہ شہر کی آبادی کے تناسب سے نفری کم ہے، کبھی بولتے ہیں کہ وسائل کی کمی ہے، کبھی کیا تو کبھی کیا کہا جاتا ہے اور اسی کہا کہی کے دوران سماج دشمن عناصر وہ کام کر گزر جاتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ ایسا کیسے ہوا، کیوں کر ہوا، یہ ناممکن تھا، ممکن کیسے ہوگیا۔ اب عبدالستار ایدھی کے لٹ جانے کے بعد شہری مزید عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں کہ جس شہر میں بے لوث، پرامن، بے ضرر اور درویش منش ایدھی اور ان کا ارادہ محفوظ نہیں تو کوئی دوسرا شریف آدمی بھلا کیسے بچ سکتا ہے ظالمانہ کارروائیوں سے۔

سچ پوچھو تو ایدھی صاحب کے لٹ جانے کے بعد اس شہر کراچی کی بربادی کے مناظر میرے سامنے فلمی سین کی طرح گھوم رہے ہیں جہاں ہر شخص دیوانہ وار جائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آنے لگا ہے، مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے کیوں کہ اس شہر کو عبدالستار ایدھی کے آنسوؤں کی بد دعا لگ چکی ہے جو ترقی یافتہ ہوکر بھی اندھیری کھائی میں غرق ہوچکا ہے۔ جہاں امن نہیں وہاں کچھ نہیں، جہاں کچھ نہیں اس کا غم کا ہے کا ۔

اے روشنیوں کے شہر بتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔