بات کچھ اِدھر اُدھر کی مذہبی رواداری کا فقدان
رہبران ملتِ اسلامیہ بھائی چارےامن اورآشتی کا پیغام دیتے ہیں مگرجب عمل کی باری آتی ہےتواعمال الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے۔
محرم الحرام کا مہینہ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؓ اور انکے 72 جانثاروں کی کربلا کے مقام پر دی گئی لازوال قربانی سے منسوب ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ ایک ٹائم بم، دہکتی ہوئی راکھ یا پہاڑ کے نیچے پگھلتے ہے لاوے کی مانند ہے جو دیکھنے میں تو بہت خاموش مگر کسی وقت بھی شور مچا سکتا ہے۔
ہم دوسروں کے عقیدے اور مسلک کے متعلق سب کچھ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پھر اپنے اندر محفوظ کر لیتے ہیں اور وقت آنے پر ایک سیکنڈ بھی اوپر نیچے نہیں ہونے دیتے ۔ اپنے آپ کو مسلمان اور دوسروں کو کافر ثابت کرنے میں ہم بھلے اس حقیقت سے انکار کریں مگر بہرحال یہ سچ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر آزاد خیالی اوراعتدال پسندی کا ایک لبادہ اوڑھا ہوا ہے جو اترتا ہے تو اس معاشرے میں موجود نفرت، گند اور بدبودار حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے جس کو کسی اور نے نہیں ہم نے خود ہوا دے کر پروان چڑھایا ہے۔
رہبران ملتِ اسلامیہ دین کی سربلندی، بھائی چارے امن اور آشتی کا پیغام ضرور دیتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو اعمال الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد اور خصوصاً پاکستان میں اکثریت میں ہونے کے باوجود مشکلات میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
ہمارے علماء حضرات کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ جب ممبر یا اسٹیج پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو وہ تقریر صرف آپکی ذات کو نہیں بلکہ جس مسلک یا عقیدے سے آپکا تعلق ہے اسکی بھی نمائندگی بھی کر رہی ہوتی ہے، آپکی زبان سے نکلا ایک اچھا لفظ دوسرےمسلک کے پیروکاروں کو آپکا گرویدہ بنا سکتا ہے اور آپکی زبان سے دوسرے کے خلاف نکلا ایک لفظ دوسروں کو آپکے نہیں بلکہ آپکے مسلک اور عقیدے کے پیروکاروں کے خلاف بنا سکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے برے عقیدے کو گالی مت دو وہ تمہارے اچھے عقیدے کو برا نہیں کہے گا۔
کیا یہ منافقت اور تضاد کی حد نہیں کہ ہم بارڈر پار سے آنے والی گولی سے مرنے والے کو پاکستانی کہتے ہیں اور اپنے ملک میں مسجد میں، امام بارگاہ میں اور مزار پر دھماکے سے شہید ہونے والے کو شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کی ٹوکری میں ڈال کا فرق کر دیتے ہیں؟ ہمارے ہاں ایسے واقعات روز رونما ہوتے ہیں لیکن ہمارا اجتماعی حافظہ کمزور ہے اور اس لیے ہم انھیں دیکھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں اور پھر یاداشت کے آخری کونے میں پھینک کر دوبارہ کسی واقعے تک اپنے کام سے کام رکھتے ہیں.
کیا کسی کو یاد ہے کہ بلوچستان میں ایران جانے والے زائرین کی بس سے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو اتار کر انکے شناختی کارڈ دیکھ کر انکو قتل کر دیا گیا اور ریاست کا قانون کہ دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا، ہزارہ بازار میں درجنوں معصوم لوگوں کو بم سے اڑا دیا گیا اور ورثا انکی لاشیں لیکر سڑک پر بیٹھے رہے اور پچھلے سالراولپنڈی میں اندوہناک واقعہ رونما ہوا جس میں دن دیہاڑے خون کی ہولی کھیلی گئی اور مسجد کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے نسخے بھی نذرِ آتش ہوئے جس کے بعد شہر میں کرفیو لگانا پڑا اور پورے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی. داتا دربار، پشاور چرچ، اسلام آباد عید گاہ پر اور کتنے ایسے واقعات ہوئے جن میں مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور فرقہ واریت کو ہوا دی گئی مگر اس آگ کو بھجانے کی ذمّہ دار حکومتِ وقت نے آیندہ اس سے نمٹنے کے لیے کیا کیا؟؟
سوچنے کی بات ہے کہ جس ملک میں کوئی بھی تہوار بھی بشمول عید محرم اورربیع الاول کے مہینے فوج کے بغیر نہ گزارے جا سکیں اس ملک کی تباہی کی اور کیا سند چاہئے؟ اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے حالات میں باہر کے دشمن کو سرحد پار سے فوجیں داخل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی جب وہ ہمیں اتنی آسانی سے اپس میں لڑوا کے ختم کر سکتا ہے؟
آپ کو کبھی حکومتی سطح پر مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے گی، البتہ ہمارے ہاں ایک مذہبی امور کی وزارت تو موجود ہے مگر وہ بھی دوسری وزارتوں کی طرح اپنے معاملات میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اس کے پاس مذھبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے کوئی وقت نہیں۔ آپ ذرایاد کریں کہ آخری دفعہ کب حکومتی سطح پر کوئی سیمینار یا محفل کا ااہتمام کیا گیا تھا جس میں سب مسالک کے علماء اور پیروکاروں کو ایک جگہ اکٹھا بیٹھا کر آپس میں موجود اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا ان ساری کتابوں اور علماء کی تقریروں کی سی ڈیز پر پابندی لگائی گئی ہو جو فرقہ واریت اور اس سارے فساد کا سبب بنتے ہیں؟؟ یقیناً نہ یہ کیا گیا اور نہ ہی آئندہ کبھی کرنے کا سوچا جائے گا کیوں کہ بہرحال مرنا تو عوام نے ہے بھوک سے ہو یا سیلاب سے، آفت سے ہو یا قحت سے، بم دھماکے سے ہو یا فرقہ واریت سے اور عوام کی فکر کس کو ہے؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم دوسروں کے عقیدے اور مسلک کے متعلق سب کچھ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پھر اپنے اندر محفوظ کر لیتے ہیں اور وقت آنے پر ایک سیکنڈ بھی اوپر نیچے نہیں ہونے دیتے ۔ اپنے آپ کو مسلمان اور دوسروں کو کافر ثابت کرنے میں ہم بھلے اس حقیقت سے انکار کریں مگر بہرحال یہ سچ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر آزاد خیالی اوراعتدال پسندی کا ایک لبادہ اوڑھا ہوا ہے جو اترتا ہے تو اس معاشرے میں موجود نفرت، گند اور بدبودار حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے جس کو کسی اور نے نہیں ہم نے خود ہوا دے کر پروان چڑھایا ہے۔
رہبران ملتِ اسلامیہ دین کی سربلندی، بھائی چارے امن اور آشتی کا پیغام ضرور دیتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو اعمال الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد اور خصوصاً پاکستان میں اکثریت میں ہونے کے باوجود مشکلات میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
رہ گئی رسم ازاں روح ہلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
ہمارے علماء حضرات کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ جب ممبر یا اسٹیج پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو وہ تقریر صرف آپکی ذات کو نہیں بلکہ جس مسلک یا عقیدے سے آپکا تعلق ہے اسکی بھی نمائندگی بھی کر رہی ہوتی ہے، آپکی زبان سے نکلا ایک اچھا لفظ دوسرےمسلک کے پیروکاروں کو آپکا گرویدہ بنا سکتا ہے اور آپکی زبان سے دوسرے کے خلاف نکلا ایک لفظ دوسروں کو آپکے نہیں بلکہ آپکے مسلک اور عقیدے کے پیروکاروں کے خلاف بنا سکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے برے عقیدے کو گالی مت دو وہ تمہارے اچھے عقیدے کو برا نہیں کہے گا۔
کیا یہ منافقت اور تضاد کی حد نہیں کہ ہم بارڈر پار سے آنے والی گولی سے مرنے والے کو پاکستانی کہتے ہیں اور اپنے ملک میں مسجد میں، امام بارگاہ میں اور مزار پر دھماکے سے شہید ہونے والے کو شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کی ٹوکری میں ڈال کا فرق کر دیتے ہیں؟ ہمارے ہاں ایسے واقعات روز رونما ہوتے ہیں لیکن ہمارا اجتماعی حافظہ کمزور ہے اور اس لیے ہم انھیں دیکھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں اور پھر یاداشت کے آخری کونے میں پھینک کر دوبارہ کسی واقعے تک اپنے کام سے کام رکھتے ہیں.
کیا کسی کو یاد ہے کہ بلوچستان میں ایران جانے والے زائرین کی بس سے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو اتار کر انکے شناختی کارڈ دیکھ کر انکو قتل کر دیا گیا اور ریاست کا قانون کہ دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا، ہزارہ بازار میں درجنوں معصوم لوگوں کو بم سے اڑا دیا گیا اور ورثا انکی لاشیں لیکر سڑک پر بیٹھے رہے اور پچھلے سالراولپنڈی میں اندوہناک واقعہ رونما ہوا جس میں دن دیہاڑے خون کی ہولی کھیلی گئی اور مسجد کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے نسخے بھی نذرِ آتش ہوئے جس کے بعد شہر میں کرفیو لگانا پڑا اور پورے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی. داتا دربار، پشاور چرچ، اسلام آباد عید گاہ پر اور کتنے ایسے واقعات ہوئے جن میں مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور فرقہ واریت کو ہوا دی گئی مگر اس آگ کو بھجانے کی ذمّہ دار حکومتِ وقت نے آیندہ اس سے نمٹنے کے لیے کیا کیا؟؟
سوچنے کی بات ہے کہ جس ملک میں کوئی بھی تہوار بھی بشمول عید محرم اورربیع الاول کے مہینے فوج کے بغیر نہ گزارے جا سکیں اس ملک کی تباہی کی اور کیا سند چاہئے؟ اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے حالات میں باہر کے دشمن کو سرحد پار سے فوجیں داخل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی جب وہ ہمیں اتنی آسانی سے اپس میں لڑوا کے ختم کر سکتا ہے؟
آپ کو کبھی حکومتی سطح پر مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے گی، البتہ ہمارے ہاں ایک مذہبی امور کی وزارت تو موجود ہے مگر وہ بھی دوسری وزارتوں کی طرح اپنے معاملات میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اس کے پاس مذھبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے کوئی وقت نہیں۔ آپ ذرایاد کریں کہ آخری دفعہ کب حکومتی سطح پر کوئی سیمینار یا محفل کا ااہتمام کیا گیا تھا جس میں سب مسالک کے علماء اور پیروکاروں کو ایک جگہ اکٹھا بیٹھا کر آپس میں موجود اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا ان ساری کتابوں اور علماء کی تقریروں کی سی ڈیز پر پابندی لگائی گئی ہو جو فرقہ واریت اور اس سارے فساد کا سبب بنتے ہیں؟؟ یقیناً نہ یہ کیا گیا اور نہ ہی آئندہ کبھی کرنے کا سوچا جائے گا کیوں کہ بہرحال مرنا تو عوام نے ہے بھوک سے ہو یا سیلاب سے، آفت سے ہو یا قحت سے، بم دھماکے سے ہو یا فرقہ واریت سے اور عوام کی فکر کس کو ہے؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔