بات کچھ اِدھر اُدھر کی دِینِ مُلّا فی سبیلِ اللہ فساد
اگرکسی چیز پرقدرتی طور پر اللہ کا نام لکھا ہے تو اِس میں کیا بڑی بات ہے؟ اللہ تو ہرشے پر قادر ہے وہ جوچاہے کرسکتا ہے۔
سُبحان اللہ! اُونٹ پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے،ماشااللہ!سیب پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے۔کیا دِینِ اسلام میں تحقیق کرنا بس اسی حد تک ہے ؟کیا دِینِ اسلام دنیاوی علوم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے؟نہیں ہر گز نہیں!
قرآن تو خود انسان کو جا بجا تحقیق اور غورو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے لیکن پھر ہمارے علماء کی لکھی ہوئی کُتب کے نام مثال کے طور پر ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ 'غیر مسلک امام کے پیچھے نماز کا حکم' ، 'جِنّات سے شادی کرنے کے شرعی احکام' ، 'مُردے کو ایصالِ ثواب کرنا کیسا؟' وغیرہ وغیرہ۔کیا ہمارے علماء اِن اَبحاث سے باہرنہیں نکل سکتے؟ کیا وہ کوئی ایسی تحقیق نہیں کر سکتے جس سے عوامُ النّاس کابھَلا ہو سکے؟۔
اگر کسی چیز پرقدرتی طور پر اللہ کا نام لکھا ہے تو اِس میں کیا بڑی بات ہے؟اللہ تو ہر شے پر قادر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے اُسکے ایک اشارے پر سمندر اپنا رستہ بدل سکتے ہیں،پہاڑ زمیں بوس ہو سکتے ہیں تو کسی شے پر اُسکا نام اُبھر آنا اُس رَب کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص ایسا کردے تو یقیناًیہ کمال ہوگا۔
اسلام سب سے زیادہ معتدل مذہب ہے اور اِس میں ایک مخصوص حد تک لچک بھی پائی جاتی ہے، اسلام نے کبھی نہیں کہا کہ اللہ اور اسکے رسول کا جو حکم ہے اس پر اندھے گونگے بہرے بن کر عمل کرتے جاؤ بلکہ اُن احکامات کی اصل روح کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے،قرآن نے بیشتر مقامات پر عقل والوں کے لیئے نشانیاں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہمارے علماء وضو اور نماز کے سائنٹیفک پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈال سکے اور نہ ہی اِس کے جسمانی اور ذہنی فوائد بیان کر سکے ہیں کیوں کہ بدقسمتی سے ہمارے علماء نہ صرف سائنس کی' سین 'سے بھی نا بَلَد ہیں بلکہ اِن علوم کے حصول کو بھی شاید کُفر سمجھتے ہیں اور اِس رویّے کی بِناء پر انہوں نے سائنس کے ساتھ ساتھ دِین کو بھی ''سائنس''بنا دیا ہے اور اُن کی یہ سائنس کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔آج ''کافر گورا''ہمیں بتا رہا ہے کہ وضو میں کیا کیا سائنسی راز پوشیدہ ہیں، نماز پڑھنے سے کیا کیا جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں،نجس برتن کو سات دفعہ دھونے کا کیوں حکم دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم آج تک نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر جھگڑ رہے ہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم مسلکی اختلافات سے باہر نہیں نکل پا رہے، کوئی نیا طریقہ یا کوئی نئی تحقیق ہمارے لیئے شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے،اگر کوئی دِین کی کسی بات کی علمی تو جیح مانگ لے تو اپنی جہالت چھپانے کیلئے اُس پر فٹا فٹ کُفر کا فتویٰ داغ دیا جا تا ہے۔
ہمارے بچوں کو یہ تو پڑھایاجاتا ہے کہ البیرونی، اِبنُ الہیثم، جابر بن حیّان،بو علی سینا وغیرہ مسلمان سائنسدان تھے اور ماضی میں سائنس کی بنیاد ہمارے اِن اَسلاف نے ڈالی تھی لیکن اُن کی ریسرچ کی اَبجَدسے بھی آج کوئی مسلمان واقف نہیں،مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے مسلمان سائنسدان اُس وقت تک کے دینی و دنیاوی تمام علوم میں یکتا تھے اور انگریزوں نے اِنہی کے ایجاد کردہ علوم اور تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے بعد میں ترقی کی اور آج تک کر رہے ہیں، قرآن میں ہے کہ ''جس نے محنت کی اُس نے پا لیا'' ،اِس میں کہیں مسلمان ہونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ مطلقاً محنت کا ذکر ہے چاہے جو بھی کرے، سچی بات تو یہ ہے کہ نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے رہے، نہ خُدا ہی مِلا نہ وِصالِ صنم کے مصداق ہم دِین کے رہے ہیں نہ دنیا کے۔
ہمارے معاشرے میں دِین کے حوالے سے اتنا 'زبردست 'نظام قائم ہے کہ اُس کی بنیاد پرکوئی عقل وفہم رکھنے والابچہ شاید ہی دینی تعلیم حاصل کرتا ہو کیونکہ جو بچہ بیچارہ پیدائشی طور پر آنکھ، کان یا ٹانگوں سے معذور ہو اُسے مدرسے میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہ جو پہلے سے ہی احساسِ کمتری کو شکار ہوتا ہے دنیا سے کَٹ کر رہ جاتا ہے اور ہمیشہ ذہنی پسماندگی کا شکار رہتا ہے اور اگر کوئی صحت مند بچہ مدرسے میں آ جائے تو ساری عمر احساسِ محرومی سے نکل نہیں پاتا،کہنے کا مقصد مدرسوں کی مخالفت نہیں بلکہ اِنکے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت کو اُجاگر کرنا ہے۔
کل ایک خبرسُننے کو مِلی کہ علماء محرم الحرام میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی کی مخالفت کر رہے تھے تو مجھے ایک فتویٰ یاد آ گیا جو کہ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کیئے جانے کے ابتدائی دنوں کا تھا جس میں انہوں نے انتہائی' دقیق تحقیق'کے بعد یہ ثابِت کیا تھا کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال ناجائز وممنوع ہے،اِن 'محترم 'علماء کو اُن کا اپنا دیا ہوایہ فتویٰ ،آئینہ دکھانے کے مترادف دکھائے جانے کی ضرورت ہے،اِسی طرح کچھ عرصہ پہلے امام کعبہ سمیت 70 علما کیجانب سے فتویٰ سامنے آیا تھا کہ فون پر' ہیلو 'کہنا حرام ہے،فیس بک اورٹوئیٹر استعمال کرنے سے معاشرے میں برائی پنپ رہی ہے، حرام ہے ،خواتین کا ڈرائیونگ کرنا حرام ہے ،وغیرہ وغیرہ۔اِن 'علماء' سے گزارش ہے کہ اِن فضولیات سے اب باہر آ جائیں اوردین و دنیا کو ساتھ ساتھ چلائیں اور دوسروں کو بھی چلانے دیں ورنہ جلد ہی اقبال ؔ کا کہا ہوا یہ مصرعہ زبان زدِ عام ہوگاکہ
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
قرآن تو خود انسان کو جا بجا تحقیق اور غورو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے لیکن پھر ہمارے علماء کی لکھی ہوئی کُتب کے نام مثال کے طور پر ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ 'غیر مسلک امام کے پیچھے نماز کا حکم' ، 'جِنّات سے شادی کرنے کے شرعی احکام' ، 'مُردے کو ایصالِ ثواب کرنا کیسا؟' وغیرہ وغیرہ۔کیا ہمارے علماء اِن اَبحاث سے باہرنہیں نکل سکتے؟ کیا وہ کوئی ایسی تحقیق نہیں کر سکتے جس سے عوامُ النّاس کابھَلا ہو سکے؟۔
اگر کسی چیز پرقدرتی طور پر اللہ کا نام لکھا ہے تو اِس میں کیا بڑی بات ہے؟اللہ تو ہر شے پر قادر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے اُسکے ایک اشارے پر سمندر اپنا رستہ بدل سکتے ہیں،پہاڑ زمیں بوس ہو سکتے ہیں تو کسی شے پر اُسکا نام اُبھر آنا اُس رَب کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص ایسا کردے تو یقیناًیہ کمال ہوگا۔
اسلام سب سے زیادہ معتدل مذہب ہے اور اِس میں ایک مخصوص حد تک لچک بھی پائی جاتی ہے، اسلام نے کبھی نہیں کہا کہ اللہ اور اسکے رسول کا جو حکم ہے اس پر اندھے گونگے بہرے بن کر عمل کرتے جاؤ بلکہ اُن احکامات کی اصل روح کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے،قرآن نے بیشتر مقامات پر عقل والوں کے لیئے نشانیاں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہمارے علماء وضو اور نماز کے سائنٹیفک پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈال سکے اور نہ ہی اِس کے جسمانی اور ذہنی فوائد بیان کر سکے ہیں کیوں کہ بدقسمتی سے ہمارے علماء نہ صرف سائنس کی' سین 'سے بھی نا بَلَد ہیں بلکہ اِن علوم کے حصول کو بھی شاید کُفر سمجھتے ہیں اور اِس رویّے کی بِناء پر انہوں نے سائنس کے ساتھ ساتھ دِین کو بھی ''سائنس''بنا دیا ہے اور اُن کی یہ سائنس کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔آج ''کافر گورا''ہمیں بتا رہا ہے کہ وضو میں کیا کیا سائنسی راز پوشیدہ ہیں، نماز پڑھنے سے کیا کیا جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں،نجس برتن کو سات دفعہ دھونے کا کیوں حکم دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم آج تک نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر جھگڑ رہے ہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم مسلکی اختلافات سے باہر نہیں نکل پا رہے، کوئی نیا طریقہ یا کوئی نئی تحقیق ہمارے لیئے شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے،اگر کوئی دِین کی کسی بات کی علمی تو جیح مانگ لے تو اپنی جہالت چھپانے کیلئے اُس پر فٹا فٹ کُفر کا فتویٰ داغ دیا جا تا ہے۔
ہمارے بچوں کو یہ تو پڑھایاجاتا ہے کہ البیرونی، اِبنُ الہیثم، جابر بن حیّان،بو علی سینا وغیرہ مسلمان سائنسدان تھے اور ماضی میں سائنس کی بنیاد ہمارے اِن اَسلاف نے ڈالی تھی لیکن اُن کی ریسرچ کی اَبجَدسے بھی آج کوئی مسلمان واقف نہیں،مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے مسلمان سائنسدان اُس وقت تک کے دینی و دنیاوی تمام علوم میں یکتا تھے اور انگریزوں نے اِنہی کے ایجاد کردہ علوم اور تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے بعد میں ترقی کی اور آج تک کر رہے ہیں، قرآن میں ہے کہ ''جس نے محنت کی اُس نے پا لیا'' ،اِس میں کہیں مسلمان ہونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ مطلقاً محنت کا ذکر ہے چاہے جو بھی کرے، سچی بات تو یہ ہے کہ نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے رہے، نہ خُدا ہی مِلا نہ وِصالِ صنم کے مصداق ہم دِین کے رہے ہیں نہ دنیا کے۔
ہمارے معاشرے میں دِین کے حوالے سے اتنا 'زبردست 'نظام قائم ہے کہ اُس کی بنیاد پرکوئی عقل وفہم رکھنے والابچہ شاید ہی دینی تعلیم حاصل کرتا ہو کیونکہ جو بچہ بیچارہ پیدائشی طور پر آنکھ، کان یا ٹانگوں سے معذور ہو اُسے مدرسے میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہ جو پہلے سے ہی احساسِ کمتری کو شکار ہوتا ہے دنیا سے کَٹ کر رہ جاتا ہے اور ہمیشہ ذہنی پسماندگی کا شکار رہتا ہے اور اگر کوئی صحت مند بچہ مدرسے میں آ جائے تو ساری عمر احساسِ محرومی سے نکل نہیں پاتا،کہنے کا مقصد مدرسوں کی مخالفت نہیں بلکہ اِنکے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت کو اُجاگر کرنا ہے۔
کل ایک خبرسُننے کو مِلی کہ علماء محرم الحرام میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی کی مخالفت کر رہے تھے تو مجھے ایک فتویٰ یاد آ گیا جو کہ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کیئے جانے کے ابتدائی دنوں کا تھا جس میں انہوں نے انتہائی' دقیق تحقیق'کے بعد یہ ثابِت کیا تھا کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال ناجائز وممنوع ہے،اِن 'محترم 'علماء کو اُن کا اپنا دیا ہوایہ فتویٰ ،آئینہ دکھانے کے مترادف دکھائے جانے کی ضرورت ہے،اِسی طرح کچھ عرصہ پہلے امام کعبہ سمیت 70 علما کیجانب سے فتویٰ سامنے آیا تھا کہ فون پر' ہیلو 'کہنا حرام ہے،فیس بک اورٹوئیٹر استعمال کرنے سے معاشرے میں برائی پنپ رہی ہے، حرام ہے ،خواتین کا ڈرائیونگ کرنا حرام ہے ،وغیرہ وغیرہ۔اِن 'علماء' سے گزارش ہے کہ اِن فضولیات سے اب باہر آ جائیں اوردین و دنیا کو ساتھ ساتھ چلائیں اور دوسروں کو بھی چلانے دیں ورنہ جلد ہی اقبال ؔ کا کہا ہوا یہ مصرعہ زبان زدِ عام ہوگاکہ
دِینِ مُلّافی سبیلِ اللہ فساد
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔